مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

محترمہ بےنظیر بھٹو کا قتل اور چند قابل توجہ نکات۔۔۔ حیدر جاوید سید

محترمہ بے نظیر نے اس کے باوجود راولپنڈی جلسہ میں شرکت کے اپنے پروگرام کو ملتوی کرنے کے امکان کو مسترد کردیا۔

27 دسمبر2007ءکی شام لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر سابق وزیراعظم محترمہ بےنظیر بھٹو شہید کردی گئیں۔
ان کی شہادت کے بعد تواتر کےساتھ ان کے کالموں میں عرض کیا کہ شہادت کی وجہ مقامی حالات اور ملک میں جاری طالبانی دہشتگردی کو قرار دینے والے درحقیقت اس عالمی سازش کی پردہ پوشی میں مصروف ہیں جس کا مقصد پاکستان کو ایک ایسا توانا آواز سے محروم کرنا تھا جسے ہر خاص وعام اپنی آواز سمجھتا تھا۔
ملکی سطح کی قیادت کو راستے سے ہٹانے کا مقصد قیادت کا بحران پیدا کرنا تھا۔
قومی قیادت کا خلا صوبائی قیادتیں پورا نہیں کر پائیں گی اس طور بالادست قوتوں کےلئے بہت آسان ہوگا معاملات کو اپنے انداز اور ضرورت کے مطابق ہینڈل کرنا۔
دوسری جو بات عرض کرتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ محترمہ کی شہادت پسٹل کے فائر‘ گاڑی کے اندر لگے لیور کی چوٹ یا موقع پر ہوئے خودکش حملے سے نہیں بلکہ لیزر بیم گن سے ہوئی۔
ابتداً چند سرکاری اداروں نے اس تحریر نویس سے رابطہ کیا اور لیزر بیم گن والے موقف پر سوالات بھی کئے۔ سوالات کرنے والوں کی خدمت میں عرض کیا
”میرے شک بلکہ یقین کی دو تین وجوہات ہیں
اولاً یہ کہ شہادت والی شام کی صبح بےنظیر بھٹو سے افغان صدر (اس وقت کے) حامد کرزئی نے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو سے درخواست کی کہ وہ آج شام لیاقت باغ میں منعقدہونے والے جلسہ میں شرکت نہ کریں، پاکستان اور خطے کو ہی نہیں عالم اسلام کو بھی ان کی ضرورت ہے۔
محترمہ بےنظیر بھٹو نے جب جلسہ میں اپنی شرکت کو ملتوی کرنے سے انکار کیا تو افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں بتایا کہ ایک عالمی طاقت اپنے مقامی سہولت کاروں کے ذریعے انہیں قتل کروانے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کےلئے سرگرم عمل ہے۔
انہوں نے محترمہ کو بتایا کہ افغان حکومت کے خفیہ ادارے کی رپورٹ کے مطابق عراق سے ایک لیزر بیم گن براستہ بڈگرام ایئرپورٹ پاکستان پہنچائی گئی ہے،
محترمہ نے اس کے باوجود راولپنڈی جلسہ میں شرکت کے اپنے پروگرام کو ملتوی کرنے کے امکان کو مسترد کردیا۔

دوسری وجہ عرض کرتے ہوئے کہا کہ
محترمہ کی شہادت کے چند گھنٹے بعد شب بارہ بجے کے قریب وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈئر (ر) جاوید اقبال نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ
ہمیں لیاقت باغ میں سٹیج کے عقبی حصہ سے ایک غیرملکی کی لاش ملی ہے، تحقیقات کر رہے ہیں کہ یہ غیرملکی کون ہے۔ اگلی صبح گیارہ بجے وہ نہ صرف اپنے اس بیان سے مکر گئے بلکہ پھر مشرف حکومت نے بھی اس کی تردید کردی۔
ایک اخبار نویس کی حیثیت سے محترمہ بےنظیر بھٹو اور حامد کرزئی کی ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو اور سٹیج کے عقب سے غیرملکی کی لاش ملنے والی بات کو نظرانداز کرنا مشکل ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ غیرملکی ہی بیم گن کا شوٹر تھا اور اس پر مقرر شوٹر نے اپنے حصہ کا کام کیا اور بیم گن محفوظ مقام پر منتقل کردی گئی۔
تیسری وجہ موقع واردات کو جنرل پرویز مشرف کے حکم پر دھونے میں جلدی کا مظاہرہ ہے۔
امکان یہ ہے کہ تابکاری کے اثرات زائل کرنے کےلئے بے دریغ پانی استعمال کیا گیا۔
یہاں پھر ایک سوال سامنے رکھنا پڑا‘ وہ یہ کہ فرض کریں موقع واردات کو غیرارادی طور پر دھونے کا فیصلہ ہوا لیکن زمین کےساتھ ساتھ اردگرد کے درختوں پر پانی ڈال کر انہیں دھونے کی وجہ کیا تھی؟
کیا اصلی قاتل بیم گن سمیت کسی درخت پر موجود تھا اور تابکاری کے اس اثر کو بھی دھونا لازمی ہوا؟۔
چوتھی اور آخری وجہ عرض کرتے کہا کہ
محترمہ بےنظیر بھٹو کے قتل میں کسی ابتدائی تفتیش کے بغیر طالبان کو ملوث قرار دینا کس سبب ضروری تھا اور یہ بھی کہ
اعتزاز شاہ نامی لڑکا تو چند ماہ قبل مانسہرہ سے گرفتار کیا گیا تھا تب کہا گیا کہ وہ آفتاب شیرپاو کے (جو اس وقت وفاقی وزیرداخلہ تھے) قتل کی سازش کا منصوبہ بنانے والوں کا حصہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو لڑکا چند ماہ سے سرکاری اداروں کی تحویل میں تھا وہ سانحہ لیاقت باغ کا کردار کیسے بن گیا؟”

انہی دنوں اپنی ایک تحریر میں روسی خفیہ ایجنسی کے جی بی کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا، کے جی بی کی رپورٹ میں بھی محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کو لیزر بیم گن کا نتیجہ قرار دیا گیا اور کہا گیا تھا کہ قاتل افغانستان کے راستے پاکستان داخل ہوا۔


محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کے بارہ سال بعد بھی اس اخبار نویس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناءپر یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ جب تک اس سانحہ کے مقامی سہولت کاروں کے حوالے سے صاف سیدھے انداز میں بات نہیں ہوگی اور بالائی سطور میں تحریر کئے سوالات کا جواب تلاش کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں ہوگا حقیقت تک کبھی نہیں پہنچا جاسکتا۔

بےنظیر بھٹو پاکستانی سیاست کا روشن چہرہ تھیں‘ اپنے قتل سے چند دن قبل انہوں نے امریکہ میں مقیم اپنے دوست مارک سیگل کو جو ای میل بھیجی اصولی طور اسے نزعی بیان کے طور پر ایف آئی آر کا حصہ بنایا جانا چاہئے تھا۔

میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ مشرف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوا این آر او درحقیقت ایک جال تھا، این آر او کا جال بےنظیر بھٹو کے شکار کےلئے بچھایا گیا۔
ان سے اس حوالے سے دو افراد نے ملاقاتیں کیں مشرف اور اشفاق پرویزکیانی نے۔
پیپلز پارٹی سے شکوہ یہی ہے کہ اس نے پاکستانی سیاست کے معاملات اور اقتدار کےلئے بہت ساری چیزوں کو نظرانداز کیا۔
اقوام متحدہ سے تحقیقات کروائی مگر اس تحقیقات کے دوران بہت سارے معاملات کو محدود کرنے والے افراد بارے اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکی۔
این آر او کی گالی کھاتی پیپلز پارٹی نے کبھی پلٹ کر یہ سوال بھی نہیں کیا کہ جماعت کو اس کا کیا فائدہ ہوا اور یہ کہ ایم کیو ایم سمیت این آر او سے استفادہ کرنے والی جماعتوں یا بیوروکریسی سے متعلق افراد کےخلاف مقدمات ازسرنو کھولنے کی بجائے افتخار چودھری اور نواز شریف کے ہمنوا من پسند قوالی ہی کیوں گاتے رہے؟
بےنظیر بھٹو کو گھیر کر مقتل میں لانے والے کرداروں میں اس وقت کی امریکی وزیرخارجہ کونڈا لیزا رائس بھی شامل ہیں، جنرل مشرف اور اشفاق پرویز کیانی بھی۔

عجیب بات یہ ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کے حوالے سے بےنظیر کرزئی ملاقات کی جو گفتگو سامنے آئی اسے بھی مقامی وعالمی تحقیقات میں نظرانداز کروایا گیا۔
مقصد اس سازش کا فقط ایک تھا وہ یہ کہ پاکستان حقیقی عوامی قیادت کو راستے سے ہٹا کر بوزنے کھلائے جائیں اور مقاصد حاصل کئے جائیں‘
کشمیر کا معاملہ بھی انہی مقاصد میں شامل تھا۔

%d bloggers like this: