جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء دور میں ڈی ایچ اے ایکٹ 1970ء بنایا گیا جس کے تحت کراچی ڈیفینس ہاؤسنگ سوسائٹی قائم کی گئی اور اس ایکٹ کا دائرہ کار صرف کراچی تک محدود تھا – اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد فوجی افسران ، دوران ڈیوٹی جاں بحق ہونے والے افسران کے لیے معیاری ہاؤسنگ منصوبہ کی تعمیر تھا – پہلے دن سے اس قانون کے تحت صرف پاکستانی فوج میں کمیشن پانے والے افسران ہی اس سے منصوبے سے فائدہ اٹھانے کے اہل تھے جبکہ نان کمیشن فوجی اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے –
اگست 1972ء میں جب اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء اٹھا کر قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کو بحال کیا اور ملک میں نیا آئین بنانے کے لیے آئینی کمیٹی قائم کی تو اس آئینی کمیٹی نے جنرل یحییٰ خان کے بنائے ڈی ایچ اے ایکٹ 1970ء کو جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے اسے 1973ء کا حصہ بناکر آئینی و قانونی تحفظ فراہم کیا – اس وقت کی قومی اسمبلی میں آئین کے ڈرافٹ پر بحث کے دوران نہ تو حکومتی بنچز نے نہ ہی حزب اختلاف نے اس ایکٹ کے جواز پہ کوئی سوال نہیں اٹھایا – نہ ہی کسی نے یہ سوال اسمبلی میں اٹھایا کہ کیا پاکستان کی مسلح افواج میں ناں کمیشن فوجی معیاری رہائش کی فراہمی کے حقدار نہیں تھے ؟ اس ایکٹ کے اشراف پن اور امتیازی ہونے کے بارے میں کسی نے سوال نہیں اٹھایا –
ڈی ایچ اے کراچی کی 70ء کی دہائی میں تعمیر کے لیے اتھارٹی نے کراچی کے ساحلی علاقے کو منتخب کیا اور ہمارے پاس ایسی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے کہ اس وقت کی قومی اسمبلی ہو یا سندھ اسمبلی میں کسی نے اس اقدام کے لیے کراچی کے ساحل کے ایک حصے کو ختم کرنے اور اس کے کراچی کے ساحلی علاقے میں جنگلات کے خاتمے کو کراچی کے ساحلی علاقے کی ایکولوجی کی تباہی کے سوال کو اٹھایا اور کسی نے یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میں نیوی ، فضائیہ ، رینجرز اور کوسٹ گارڈز جیسے ادارے بھی ساحل سمندر کے ساتھ رہائشی کالونیاں بنانے کے لیے ساحلی زمین کو قبضے میں لیں گی اور پھر اس جگہ پر سویلین پرائیویٹ بلڈرز بھی رہائشی و کمرشل تعمیراتی منصوبے بنائیں گے تو ساحلی جنگلات کی تباہی کو روکا نہیں جاسکے گا – اور ایسا ہی ہوا – 80ء اور 90ء کی دہائی میں اس عمل میں تیزی آئی اور 2024ء تک کراچی کا ساحل مسلسل کم ہو رہا ہے –
1980ء میں ڈی ایچ ایکٹ میں دوسرے آمر جنرل ضیا الحق نے ترمیم کی – اس نے اس اتھارٹی کو راولپنڈی ، لاہور تک بڑھا دیا اور اس میں پاکستان کے غیر فوجی متمول شہریوں تک بڑھا دیا ہے – 90ء کی دہائی میں کراچی کی ساحلی زمین ، راولپنڈی اور لاہور میں بڑی تعداد میں زرعی زمین اور صدیوں سے آباد مواضعات اور آبادیوں کو اپنے اندر شامل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا اور وہاں بسنے والے شہریوں ، کسانوں کی ایک طرح سے جبری بے دخلی کا سلسلہ بھی شروع کردیا اور انھیں اپنی زمینیں، مکانات اور دکانیں اونے پونے داموں ڈی ایچ اے کو بیچنے پر مجبور کیا – جبکہ ہزاروں ایکٹر شاملاٹ کی زمینیں بھی اس توسیعی منصوبے میں شامل کرلی گئیں جس کی ریونیو قوانین کسی صورت اجازت نہیں دیتے تھے کیونکہ شاملاٹ کی زمینیں اسکول ، قبرستان ، صحت کے اداروں کے قیام کے لیے رکھی گئی تھیں-
ڈی ایچ اے کی صورت میں جو رہائش و کاروبار کے معیار کی فراہمی باوردی، بے وردی افسر شاہی اور سویلین اشرافیہ کے لیے کی جا رہی تھی وہ معیار اس ملک کے کروڑوں عام شہریوں کے لیے فراہمی کا نہ تو کبھی ریاست نے قائم کیا اور نہ ہی اس کو ممکن بنایا –
اسی اور 90ء کی دہائیوں میں ہی ایک ٹرینڈ یہ شروع ہوا کہ وفاقی اور صوبائی محکموں کی افسر شاہی نے اپنے لیے اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور چند بڑے اربن سنٹرز میں اپنے لیے رہائشی کالونیوں کی تعمیر شروع کردی اور اس کے لیے سستے داموں ہزاروں ایکٹر زرعی رقبہ حاصل کیا گیا اور وہاں ان کالونیوں کی تعمیر شروع کی گئی – جبکہ اس دوران عام شہریوں کے لیے جن میں سفید پوش اور شہری و دیہی غریب شامل تھے کوئی معیاری رہائشی منصوبہ نہیں بنایا گیا اور ان شہریوں کو اپنی مدد آپ کے تحت مکانات کی تعمیر کرنے پر مجبور کیا گیا جہاں معیاری سیوریج، واٹر سپلائی ، سڑکوں کی تعمیر ، منصوبہ بند گلیاں ، پارک اور قبرستان خواب ہی بنے رہے –
جبکہ پورے ملک میں میونسپل کمیٹیوں ، کارپوریشن اور بڑے شہروں میں موجود ڈویلپمنٹ اتھارٹیز نے نہ تو خود نچلے متوسط طبقے اور غریبوں کے لیے کوئی معیاری رہائشی منصوبے بنائے اور نہ ہی پرائیویٹ بلڈرز کو معیاری رہائشی منصوبے تعمیر کرنے کا پابند بنایا بلکہ 90ء کی دہائی سے لینڈ سب ڈویژن اور رہائشی اسکیموں کے نام پر پہلے پنجاب اور پھر سندھ میں میونسپلٹی اور ضلع کونسل کی حدود میں موجود گرین زونز میں زرعی رقبوں پر رہائشی اور کمرشل غیر قانونی منصوبوں اور قواعد و ضوابط کو توڑ مروڑ کر قانونی قرار پائے منصوبوں کی طرف رشوت اور کمیشن وصول کرکے آنکھیں بند کرلیں- اور عام شہری کی جمع پونجی کے لٹ جانے اور انھیں غیر معیاری رہائش رکھنے پر مجبور کر دیا –
اس دوران بحریہ ٹاؤن جیسی جو لگژری رہائشی منصوبے سامنے آئے اس میں بھی سرکاری زرعی زمین ، شاملاٹ کو ہتھیانے کے معاملات سامنے آئے اور یہ منصوبے ایسے تھے جن سے اس ملک کی اشرافیہ اور بالائی مڈل کلاس ہی مستفید ہوئی –
جنرل مشرف کی آمریت کے دور میں ایک طرف تو پہلے سے موجود ڈی ایچ اے کے نئے فیز تعمیر ہوئے تو دوسری طرف گوجرانوالہ ، بہاولپور اور ملتان میں ڈی ایچ اتھارٹیز قائم ہوئیں – فضائیہ ، نیوی ، رینجرز اور پاکستان کوسٹ گارڈز نے بھی ہاؤسنگ کالونیوں کی تعمیر شروع کی اور یہ منصوبے گرین زونز کی زرعی زمین ، جنگلات ، پہاڑ اور صحرا کے رقبوں کو ہتھایا گیا – مسلح افواج کی افسروں کی فاونڈیشن نے پلازے، شاپنگ سنٹرز ، میرج ہالز ، گولف کورس گراؤنڈز کی تعمیر شروع کردی – جیسے پاکستان ریلوے کی زمینوں کو بھی ہتھیانا شروع کردیا – یہ سب رہائشی اور کمرشل منصوبے اس ملک کی اشرافیہ اور بالائی متوسط طبقات کے لیے تھے ان میں کوئی سفید پوش یا غریب مالک بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور نہ ہے –
ڈی ایچ اے ملتان 9 ہزار ایکٹر رقبے اور بہاولپور ڈی ایچ اے 5 ہزار ایکٹر رقبے کو حاصل کرکے شروع ہوئے تھے اور ان میں توسیع کا عمل جاری و ساری ہے –
جن رقبوں پر یہ رہائشی اور کمرشل تعمیراتی منصوبے شروع ہوئے ان میں آم ، امرود، مالٹے ، کینو کے وسیع و عریض باغات شامل تھے – گندم ، کپاس ، چاول ، گنے اور دیگر فصلوں کو اگانے والا رقبہ شامل تھا – ملتان میں ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ آم کے درخت جبکہ 20 لاکھ امردو، کینو ، مالٹے ، دیسی انار ، کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے – خربوزے اور تربوز ، آلو کے ہزاروں کھیت صفحہ ہستی سے مٹائے گئے – جبکہ صرف ملتان میں 200 سے زائد مواضعات اور ان میں واقع چکوک، بستیاں ختم کردیے گئے اور لاکھوں افراد وہاں سے بے دخل کیے گئے- اس عمل سے سرائیکی وسیب کی صرف زراعت ہی بدترین تباہی سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ اس سے سرائیکی وسیب کی کلائمیٹ/ ماحول پہ بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے – گرمیوں میں ملتان اور بہاولپور کا درجہ حرارت جو 45 سے 50 کے درمیان رہتا تھا وہ 53 سے 55 تک جاپہنچا-ائر کوالٹی انڈیکس بھی 300 سے 600 تک جاپان جاپہنچا-
جنرل مشرف کے دور سے سرائیکی وسیب میں لینڈ سب ڈویژن اور ہاؤسنگ اسکیموں کا ایک سیلاب دیکھنے کو ملا جس میں زیادہ تر گرین زونز کی زرعی زمینوں کو رہائشی اور کمرشل منصوبوں میں بدلا گیا- اور ان میں 99 فیصد منصوبے انتہائی غیر معیاری تھے – یہ زمینیں کسانوں اور غریب سرائیکیوں سے اونے پونے داموں خرید کی گئیں تھیں-
سرائیکی وسیب کے 11 اضلاع اور تین ڈویژن میں نوآبادیاتی دور سے زرعی زمینوں کی ریٹائرڈ، حاضر سروس فوجیوں اور سویلین افسر شاہی کو الاٹمنٹ کی پالیسی جاری و ساری رہی – تربیلا، منگلا ڈیموں اور کالا باغ سے جن سے زمینیں لی گئیں انھیں بھی سرائیکی وسیب کے اضلاع میں زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ جاری رہی – کم و بیش یہ ساری الاٹمنٹ 32/34 کی بے دخلی کی کاروائی کے ذریعے عمل میں لائی گئی جس کے نتیجے میں ان زمینوں پر صدیوں سے کاشت کرنے والے مقامی باشندوں کو بے زمین کسانوں میں بدل دیا گیا اور انھیں بڑے شہروں میں معمولی مزدور بن کر کام کرنے پر مجبور کیا گیا-
اس دوران سرائیکی وسیب میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم ہوئیں اور تھل و چولستان جس کی زمینیں ملتان ، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور ڈویژن کے اضلاع میں پھیلی ہوئی تھیں اسے غیر مقامی لوگوں جن میں فوجی افسران، بیوروکریٹ، بڑے جاگیر دار سیاست دان شامل تھے کو زمینیں الاٹ کی گئیں- جبکہ ان اتھارٹیز کے قیام کا مقصد تھل اور چولستان کے مقامی باشندوں کو زمین کی الاٹمنٹ کرنا بتایا گیا تھا – اس عمل نے بھی مقامی سرائیکی دیہی آبادی کو نقل مکانی ، بے دخلی کے عذاب سے دوچار کیا –
الاٹمنٹ پالیسی نے سرائیکی وسیب کے کئی ٹاونز، میونسپلٹی، قصبات اور چکوک کی ڈیموگرافی کو زبردست تبدیلی کے عمل سے گزارا – بہاولپور ڈویژن جس کی تقسیم ہند کے وقت ڈیموگرافی مقامی سرائیکی باشندوں کے حق میں تھی اور وہ کل آبادی کا 98 فیصد تھے وہ آج محض 45 فیصد رہ گئے ہیں – جبکہ ملتان ڈویژن کے اضلاع میں سے وہاڑی ضلع مکمل طور پر پنجابی اسپیکنگ اکثریت کا ضلع بن کر رہ گیا ہے- تھل میں شامل ضلع لیہ تیزی سے ڈیموگرافی تبدیلی سے گزر رہا ہے – اس کی تحصیل چوبارہ، چوک اعظم پنجابی اکثریت کے علاقے بن چکے ہیں – ضلع رحیم یار خان میں تحصیل رحیم یار خان ، تحصیل صادق آباد اور تحصیل لیاقت پور، ضلع بہاولپور میں تحصیل منڈی یزمان اور خود تحصیل بہاولپور تقسیم سے پہلے کے آباد کار اور تقسیم سے بعد کے آبادکاروں کی اکثریت کے علاقے بن چکے ہیں – جبکہ ضلع بہاولنگر میں فورٹ عباس ، چشتیاں ، حاصل پور اور منچن آباد اس ڈیموگرافی تبدیلی کا شکار بنے ہیں-
سرائیکی مقامی آبادی نائن الیون کے بعد سے کے پی کے اور سابق فاٹا میں ہونے والے مسلسل فوجی آپریشنوں سے پشتون ایتھنسٹی کا دباؤ بھی بڑھا ہے اور تیزی سے پشتون سرائیکی علاقوں میں زرعی رقبے اور باغات خرید رہے ہیں اور ان کی دیہی آبادی میں موجودگی صاف نظر آنے لگی ہے اور اب کئی چکوک ایسے ہیں جہاں پشتون اکثریت میں ہیں – غیر محسوس انداز میں سرائیکی – پشتون تضاد بھی روز بروز بڑھتا نظر آ رہا ہے – بلکہ بندوبست پنجاب کے اندر سرائیکی آبادی کے وہ اضلاع جو بندوبست خیبرپختون خوا کے سرائیکی اکثریت کے ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان سے ملحقہ ہیں وہاں بھی بہت بڑی تعداد میں پشتون آکر آباد ہوئے ہیں – جبکہ کے پی کے میں سرائیکی اکثریت کا ڈویژن ڈیرہ اسماعیل خان میں سرائیکی مذھبی – نسلی تشدد اور دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں – بنوں ، لکی مروت میں وہ بتدریج اکثریت کھو رہے ہیں جبکہ ضلع ٹانک میں جنوبی وزیرستان کو جانے والی سڑک جنڈولہ- ٹانک روڈ کے دونوں اطراف درجنوں سرائیکی بلوچ گاوں اب جنوبی وزیرستان سے آنے والے پشتونوں کی اکثریت کے گاوں میں تبدیل ہوگئے ہیں-
اس وقت لاکھوں سرائیکی کراچی اور مڈل ایسٹ میں محنت مزدوری کر رہے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق کراچی میں سرائیکی اردو اسپیکنگ مہاجروں کے بعد دوسرا بڑا ایتھنک گروپ بن کر ابھر رہا ہے – اور اس کی کئی ایک وجوہات میں سے سرائیکی وسیب میں مختلف اسباب کے زیرسبب ان کی زبردستی بے دخلی کا بڑا کردار ہے-
سرائیکیوں کی تازہ ترین بے دخلی میں سب سے بڑا کردار ریاست کی پوری طاقت اور اختیار کے ساتھ ساتھ چولستان میں فوجی گرین کمپنی کی کارپوریٹ فارمنگ کا پروجیکٹ ہے –
اب تک کے معلوم اعداد و شمار کے مطابق فوجی گرین کمپنی نے چولستان جو کہ رحیم یار خان کے جنوبی اور مغربی علاقے، بہاولنگر جو چولستان کے جنوبی اور مشرقی علاقے اور بہاولپور کے علاقے پر مشتمل ہے میں سے 50 ہزار ایکٹر رقبہ اپنی تحویل میں لیا ہے اور اس میں سے 30 ہزار ایکٹر چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے جاری کردہ اپنے ایک سرکاری مراسلے کے مطابق مبینہ غیر قانونی کاشتکاروں سے 32/34 کی بے دخلی کی کاروائی کے ذریعے واگزار کرایا گیا – راجن پور ڈسٹرکٹ میں یہ 25 ہزار ایکٹر اور ضلع خانیوال میں پیروال میں 15 ہزار ایکٹر زمین کو اپنے قبضے میں لے چکا ہے جہاں کارپوریٹ فارمنگ کے پائلٹ پراجیکٹ کا افتتاح جنرل عاصم منیر نے نگران حکومت کے دوران کیا تھا – یعنی کل 95 ہزار ایکٹر زمین کارپوریٹ فارمنگ کے فوجی منصوبے کو دی جاچکی ہے – جبکہ اس میں ڈی ایچ اے ملتان اور ڈی ایچ اے بہاولپور کا 14 ہزار ایکٹر اس میں جمع کیا جائے صرف فوج نے پانچ سالوں میں ایک لاکھ 9 ہزار ایکٹر رقبہ سرائیکیوں سے لیا ہے –
سرائیکی قوم کے وسائل پر قبضہ ، ان کی بے دخلی، ان کی تیزی سے تبدیل ہوتی ڈیموگرافی ، سرائیکی وسیب کی صنعتی پسماندگی، ان کی دیہی آبادی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت اور زراعت ، لائیو اسٹاک کی تباہی ایسے بڑے سیاسی مسائل ہیں جن کے گرد کوئی سیاسی تحریک موجود نہیں ہے – اس خطے کے سرمایہ دار زمیندار اشرافیہ ، فلور ملز، شوگر ملز ، سمینٹ ، کھاد ، ٹیکسٹائل انڈسٹری ، رائس ملز ، امپورٹ و ایکسپورٹ مالکان ، بڑے تاجر ، تیزی سے ابھرتا ہوا شہری و دیہی پیٹی بورژوازی پر مشتمل سیاسی نمائندے سرائیکی وسیب کے محنت کشوں اور کسانوں کے مسائل سے لاپرواہی برت رہے ہیں – ان کا رویہ مجرمانہ اور بے حسی پر مبنی ہے –
سرائیکی قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ چونکہ سرائیکی وسیب وفاق پاکستان میں ایک صوبے کے اسٹیٹس سے محروم ہے تو اس لیے نہ تو اس کی نمائندگی ارسا میں ہے جہاں ان کا پانی کا مقدمہ پیش ہوسکے- نہ ان کی نمائندگی مشترکہ مفادات کونسل میں ہے کہ ان کے مفادات کے مطابق وہاں بات ہوسکے – ان کی این ایف سی ایوارڈ میں قابل تقسیم محصولات کی آمدنی طے ہوسکے – حالانکہ یہ سب معاملات سرائیکی وسیب کی زندگی اور موت کے مسائل ہیں-
سرائیکی وسیب کے دانشور ان مسائل کے گرد حقوق کوئی ایسی سماجی تحریک بھی منظم کرنے میں ناکام رہے ہیں جیسی ہم پشتون تحفظ موومنٹ اور بلوچ یک جہتی تحریک کی شکل میں کے پی کے اور بلوچستان میں دیکھ رہے ہیں –
ہمارے ہاں سے کوئی منظور پشتین ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ، علی وزیر جیسے نوجوان مرد اور عورتیں نہیں ابھرے ہیں جو اس قوم کے نوجوانوں کو بیدار کرسکیں اور اپنے حقوق کی لڑائی لڑ سکیں –
ہمارے قد آور سرائیکی شاعر ، ادیب ، دانشور پیٹی جھگڑوں میں الجھے ہوئے ہیں اور ان کے پیٹی بورژوازی موقعہ پرستانہ جھگڑے اس قوم کے نوجوانوں کو کوئی بھی راہ متعین کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں – ہمیں سوچنا ہوگا کہ سرائیکی وسیب میں سرائیکی حقوق کی سیاسی تحریک کی تعمیر کیسے ہوسکے گی؟
اے وی پڑھو
اسلم رسول پوری ۔۔ سرائیکی علم وادب دا معتبر حوالہ||عاشق خان بزدار
سیت پور کا دیوان اور کرکشیترا کا آشرم||ڈاکٹر سید عظیم شاہ بخاری
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق