جولائی 8, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اشو لال: تل وطنیوں کا تخلیقی ضمیر||محمد الیاس کبیر

اشو کا سیاسی شعور ہمیں آفاقی بلندی پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک طرف تو "چار اپریل " جیسی معرکہ آرا نظم تخلیق کی تو دوسری طرف "مارشل لا " جیسی شاہکار نظم پیش کی جس میں ہمیں ان کا فن و فکر آفاقی بلندیوں پر نظر آتا ہے. اس نظم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کے یہاں کا مقامی باشندہ ہمیشہ ظلم کے آگے سینہ سپر ہو کر کھڑا ھے۔ اشو لال اپنی تخلیقات کے ذریعے یہاں کے مقامی لوگوں کی آواز بنتے دکھائی دیتے ہیں.

محمد الیاس کبیر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اردوترجمہ: فرحت عباس
وادی سندھ جادو نگری ہے جو ہر دور میں ایک نئے انداز میں گویا ہوتی ھے. اس کی یہ آواز ہمیشہ بلند ہوتی رہی ہے چاہے وہ تخلیق کار کی صورت میں ہو یا پھر زمیں زاد کی. اس دھرتی کی خوبصورتی کا سبب یہاں کا مقامی باشندہ ہے اسی بات کا پرچار یہاں کے تخلیقار نے ہمیشہ اپنی تخلیق میں کیا ہے . یہ دھرتی ان کی پہچان بھی ہے اور جینے کا سبب بھی. یہاں کے تخلیق کاروں نے اپنی مقامی زبان میں کلام کرکے اس کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے. ان تخلیق کاروں میں اشو لال فقیر کا نام اہم ترین ھے۔
اشو سئیں نے دوسری اصناف کی طرح سرائیکی نظم میں بھی طبع آزمائی کی اور بہت سے نئے موضوعات ہمارے سامنے لے کر آۓ. جن میں ماحولیات، عالمگیریت، نوآبادیاتی جبر، ہجر اور یاد (مونجھ) قابل ذکر ہیں. اس حوالے سے اشو لال کی پہلی کتاب "چھیڑو ہتھ نہ مرلی” 1989 میں چھپ کر منظر عام پر آئی۔ ان نظموں کی وجہ سے سرائیکی میں نظم جیسے موضوع میں وسعت پیدا ہوئی. اس کے بعد 1995ء میں” گوتم نال جھیڑا” کے عنوان سے ان کی دوسری کتاب شائع ہوئی. یہ ایک ایسے منفرد اسلوب میں لکھی گئی جو قدرے مشکل ھے۔ لیکن پھر بھی آسانی سے قاری کی توجہ اپنی جانب مرکوز کر لیتی ھے۔
"کاں وسوں دا پکھی ” اشو سئیں کا تیسرا مجموعہ کلام ھے۔ جو 1998ء میں شائع ہوا. اس مجموعہ میں موجود نظموں کا مزاج اوپر بیان کی گئی نظموں سے قدرے مختلف ہے. ان نظموں کو پڑھتے وقت ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص تہذیبی داستاں پڑھ رہے ہیں جو کہیں ہمارے اردگرد موجود ھے. انھوں نے اس دھرتی کی یاد ( مونجھ) کو اپنی نظموں کا موضوع بنا کر اعلیٰ مہارت کا ثبوت دیا ہے. اس موضوع کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اس یاد (مونجھ) کو کمزوری نہیں بلکہ مقامی آدمی کی طاقت کے طور پر بیان کرتے ہیں.
اشو لال کی کتاب "سندھ ساگر نال ہمیشاں” کا پہلا درشن 2002ء اور دوسرا درشن 2018ء میں اشاعت کے مراحل سے گزر کر قارئین تک پہنچا۔ اس میں اشو لال نے اپنے مزاج کی بدولت سندھو سئیں سے محبت کا اظہار کیا بلکہ اس کے گردونواح میں بسنے والوں کو بھی اپنے کلام کا موضوع بنایا. اس کے علاوہ یہاں کے لوک گیتوں ، قصے کہانیوں، داستانوں، پرندوں اور آب و ہوا کا بھی ذکر کیا ہے. اس مجموعے میں کچھ نظمیں ایسی بھی ہیں جو ایک خاص ردھم کے ساتھ پیش کی گئی ہیں جیسے” لوک پربھ” اور لاہرے وغیرہ.
اس میں کوئی شک نہیں کہ اشو لال نے سرائیکی شاعری کو ایک نیا رنگ دیا ہے اور اسے اتنی طاقت بھی دی کے وہ اپنا وجود برقرار رکھ سکے. انھوں نے اپنی نظموں کو روایتی سیاسی نعرہ نہیں بننے دیا بلکہ ان نظموں نے ایک الگ بیانیہ تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے. انھوں نے اس دھرتی کی تنہائی کو پورے دنیا کی تنہائی سے جوڑ دیا ہے. اس حوالے سے ہم ان کا وہ دیباچہ دیکھ سکتے ہیں جو انھوں نے گیبریل گارشیا مارکیز کے ناول” تنہائی کے سو سال” میں لکھا جس کا ترجمہ ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے کیا ھے۔
اشو کی شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا رنگ روپ دکھاتی ہے جس کے مختلف نظارے اور نئے نئے موضوعات ہیں. ان میں ایسی دنیا آباد ہے جو صرف اشو جیسا لکھاری ہی آباد کر سکتا ھے۔ ان کے مجموعہ” گوتم نال جھیڑا” میں سے ایک نظم "نظم کیویں ہوندی اے ” پڑھیں تو ایسا لگتا ہے کہ اشو نے ایک عام آدمی کی بات کی ہے لیکن یہ بات کسی روایتی انداز میں نہیں بلکہ وہ ایک نئے بیانیے کے ساتھ بات کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں. اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انھوں نے نظم کو ایک نئے اور شاندار اسلوب میں ڈھالا ہے
ہتھ اپݨے دا میل اے
پیر اپݨے دی جتی اے
ڈٖیکھو تاں اینویں جاگدی اے
ڈٖیکھو تاں اینویں ستی اے
ہنساں وچوں ہنس اے
مٹیاں وچوں مٹی اے
ڃیویں کناں سنْی اے
ڃینویں اکھیں ڈٖٹھی اے
ڃیویں لوک ہوندے ہن
ڃینویں لوک نئیں ہوندے
اشو کی شاعری میں پانی کا استعارہ ایک بڑے حوالے کے طور پر سامنے آتا ہے کیونکہ انھوں نے ایک سچے زمیں زاد کے طور پر یہاں کی فطرت اور ماحولیات کو اپنا موضوع بنایا ہے. وہ اس محبت کا ثبوت بھی فراہم کرتے ہیں. کیونکہ ان کی زندگی کی رمز میں دریا کے گیت، دریا سے گفتگو اور اس کے منہ موڑنے پر رنجیدگی کا اظہار ملتا ہے . وہ سندھو کے عشق میں بہت زیادہ سرشار نظر آتے ہیں. کیونکہ اس دریا کے ساتھ یہاں کے زمیں زادوں کی جڑت ہی ہے جو ان کا سر فخر سے بلند کر دیتی ہے. اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھو سئیں ہزاروں سالہ قدیم تہذیب کا امانت دار ہے جس نے اس معدوم ہوتی تہذیب کو اپنی چشم بصارت سے دیکھ کر ایک تاریخی حوالہ بن گیا ھے۔
اشو لال اس دریا سے اپنی محبت کو ایک نۓ انداز میں بیان کرتے ہیں. یہ انداز ہمیں ان سے پہلے کسی اور لکھاری کے ہاں دیکھنے کو نہیں ملتا. وہ اپنے بزرگوں کی طرح اس دریا کی عزت کرتے ہیں اور اس سے جڑے رہتے ہیں. وہ ہر سال ایک جوان عاشق کی طرح اپنے محبوب سندھو کو پھولوں کا تحفہ پیش کرتے ہیں اور اپنی شاعری کے ذریعے اس سے محبت کا اظہارِ بھی کرتے ہیں.
سندھو دریا ہمارے سینوں میں بہہ رہا ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا اور اپنے بچوں کی طرح پرورش کی۔ اس نے ہماری تشنگی کو سیرابی سے بدلا اور بھوک کی حالت میں بھی ہمیں سیر کیا. اسی لیے اشو اس دریا سے اتنی محبت کرتے ہیں اور ان کے اسی رنگ سے ہر مقامی متاثر ہے.
دریا او دریا پاݨی تیڈے ڈٖونگھے
توں ساڈٖا پیو ماء اساں تیڈٖے پونڳے
دریا او دریا پاݨی تیڈٖے ساوے
اوہو ویلا ہر دم ڃیہڑا نال راہوے
دریا کے پانی میں کمی ہونے پر اشو لال ہمیں اداس دکھائی دیتے ہیں ان کی یہ اداسی ہمیں کسی اور سمت لے جاتی ہے جس سے ہمیں ان کی دریا کے ساتھ والہانہ محبت کی جھلک نظر آتی ہے. دریا کے پانی میں کمی ان کی اداسی کا سبب بنتی ہے جو ایک نیا روپ دھار لیتی ہے. پانی کے کم ہونے پر جب پکھیرو اپنا منہ موڑ لیتے ہیں تو ان پر ایک دردناک کیفیت طاری ہو جاتی ہے
دریا او دریا ڈَٖسا دل دا جانی
کتھاں تیڈٖے پکھڑو کتھاں تیڈٖا پاݨی
دریا او دریا اُچی تیڈٖی ماڑی
ماڑی دے اَندر مونجھاں دی ماری
ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں وادی سندھ کو ایک ایسا نڈر اور بے باک لیڈر ملا جو کربلا کے شہیدوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جام شہادت تو نوش کر لیا مگر کبھی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا اس حوالے سے ہم اشو کی نظم "چار اپریل” دیکھ سکتے ہیں.
اَساں کانڈھی بنْ پچھتاݨے
ڈُٖکھاں ڃوٖں وَرتایا
ہنجواں رڃ رڃ ویل اُڳاٖڑی
مونجھاں ڈٖاڃ وچھایا
درد صلیبیں کھارے چڑھیا
چڑھ سولی مُسکایا
رات کچاوے اندر پاکے
لوکاں سجھ پرنایا
سجھ واپس نہ آیا
سجھ واپس نہ آیا
اشو نے اس نظم میں بھٹو صاحب کو ایک ایسا سورج دکھایا ہے جس کی روشنی چاروں سمت پھیل گئی ھے۔ اس روشنی کی قدرو منزلت کا علم ہمیں تب ہوا جب ہر طرف ظلم و بربریت کے سیاہ گھنے بادل چھا گئے۔ یہ سورج اپنی کرنوں کے ساتھ تو یہاں سے چلا گیا لیکن ہمیں یہ درس دے گیا کہ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے والے کو اصل زمیں زاد کہتے ہیں.
اشو کا سیاسی شعور ہمیں آفاقی بلندی پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک طرف تو "چار اپریل ” جیسی معرکہ آرا نظم تخلیق کی تو دوسری طرف "مارشل لا ” جیسی شاہکار نظم پیش کی جس میں ہمیں ان کا فن و فکر آفاقی بلندیوں پر نظر آتا ہے. اس نظم سے یہ بات واضح ہوتی ہے کے یہاں کا مقامی باشندہ ہمیشہ ظلم کے آگے سینہ سپر ہو کر کھڑا ھے۔ اشو لال اپنی تخلیقات کے ذریعے یہاں کے مقامی لوگوں کی آواز بنتے دکھائی دیتے ہیں.
اَدھی راتیں چن پکڑیڃے
جنگل ویݨ کرے
تارہ تارہ چڳدی چُپ کن
وستی روز ڈٖرے
پرے کتھائیں مرلی اُتے
ڈٖکھ دی راند رَسے
ٻہوں پرانْی تانگھ اساڈٖی
رستہ انت کرے
چن دی جان چُھٹے
اشو کی اس نظم میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا سیاسی شعور کتنا بلند ہے. یہاں انھوں نے ایک ایک ایسی سیاہ رات کا ذکر کیا ہے جسے آج بھی زمیں زاد نہیں بھول پایا جب ایک عظیم عوامی لیڈر کو لقمہ اجل بنایا گیا، اس کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں ہمیں آج بھی بھگتنے پڑ رہے ہیں.
اشو کے اشعار میں ہمیں غم کی ایک لہر نظر آتی ہے. یہ غم ان کی اپنی ذات کا غم نہیں بلکہ اطراف میں پھیلا غم ہے. دل کی بستی کا خالی رہنا ایک نئی بات ھے اور اس کو نئے انداز سے بیان کرنا یہی اشو کا کمال ہے.
کتھاں پار لڈ ڳئے ہن لوک مترا
خالی پئی اے دل والی جھوک مترا
بھلا تھیوی کنڈ پچھو سڈ مار کے
ویندے پئے ہیں رستہ نہ روک مترا
اکھیں وچوں ہری بھری اکھ ڈُس پئی
کنڈ والے نیل تھئے سوک مترا
سر در سر جتھاں ساہ ہار کے
ویل در ویل ساکوں ہوک مترا
اشو کی شاعری کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ صرف قصہ ہی بیان نہیں کرتے بلکہ قصے میں سے ایک نیا قصہ نکالتے ہیں. مثال کے طور پر :
"قصے دا ولا قصہ "، "ڈھولک وجدی راہونی اے” ان قصوں میں اشو لال کی تخلیقی شدت اپنے پورے عروج پر ہے دیکھی جا سکتی ہے. کیونکہ ان کے اندر ایک بہت بڑا کہانی کار موجود ہے جو ان کو کہانی کی طرف کھینچ کر لاتا ہے. انھوں نے بہت سی سرائیکی کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کی کہانیوں کا ایک مجموعہ "ابنارمل” کے نام سے بھی شائع ہو چکا ہے. جس انداز میں اشو لال کے کلام کی بنت ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ مستقبل کی سرائیکی شاعری کے لیے یہ ایک ایسی روشنی ہے جو ایک بڑے ادب کے لیے ضروری ہوتا ھے.
1 جولائ 2024

اشولال: تل وطنی دا تخلیقی ضمیر

۔۔۔۔

سندھ وادی ہک عجب جادو نگری ہے، ایں نے ہر دور وچ ٻہوں نویکلا الائے۔ ایہ آواز بھانویں تخلیق کار دی ہووے یا زمیں زاد دے کہیں ٻئے کارݨ؛ اِتھے ہمیشہ اوندے حق واسطے لکھے اَتے آلایا گئے۔ کیوں ڃو ایہ تل وطنی ای ہے ڃیہڑا ایں وسوں دا سنڑپ اے۔ اتھوں دے شاعریں نے اپݨی لکھتاں وچ ہمیشہ ایہا ڳالھ کیتی اے ڃو کہیں وی وسوں دا سنڑپ تل وطنی دے آہر نال ڳنڈھیندے۔ ایہ اپݨی سنڃاݨ وی اے اَتے ڃیوݨ دا ٻہوں وڈا آسرا وی۔اتھوں دے لیکھکاں نے ہمیشہ اپݨی ماء ٻولی اچ ڳالھ کر تے ایندا ماݨ ودھائے۔ انہاں وچوں سئیں اشولال فقیر دا ناں ہک وڈا حوالہ اَتے مہاندرے شاعر دے طور تے سامݨے آندے۔

 

سرائیکی نظم وچ اچ وی ڈوجھی صنفیں دی کار درڳھ موضوع نظردن۔ کلہپ، اڑاند، مونجھ، ماحولیات، عالمگیریت دا بھوڳ، نوابادیاتی کھس دھرو اتے وغیرہ۔

ایں حوالے نال اشولال دی پہلی کتاب ’چھیڑو ہتھ نہ مُرلی‘ ڈٹھی ونڃ سکدی اے، ڃیہڑی 1989ء اِچ چھپی ہئی۔ انہاں نظمیں دا مزاج اَڃوکی سرائیکی نظم کوں اڳونہیں ٹورݨ دا ہک وڈا حوالہ اے۔

 

اشو دی ڈٖوجھی کتاب ’گوتم نال جھیڑا‘ 1995ء دی چھپیل اے۔ایہ ہک ایسے اَنْ سنڃاپے اسلوب اچ لکھی ڳئی اے ڃیندی تفہیم قاری تے ٻہوں دیر بعد کھُلدی اے۔

 

’کاں وسوں دا پکھی اے‘ انہاں دا تریجھا مجموعہ اے ڃیہڑا 1998ء اِچ چھپے۔ انہاں نظماں دا مزاج اُتلی ڈٖو کتاباں توں ٻہوں مختلف اے۔ انہاں نظماں کوں پڑھو تاں ایویں لڳدے ڃو ایہ ہک خاص تہذیبی کتھا ہے ڃیہڑی ساڈے نیڑے تیڑے دی اے۔ ایں وسوں دی مونجھ کوں موضوع بنݨا تے اشو نے کمال فنی مہارت نال انہاں نظمیں کوں ٹھہایا اے۔ انہاں نظمیں دی ہک خوبی ایہ وی ہے جو اشو نے انہاں نظمیں دے کارݨ تل وطنی دی مونجھ کوں طاقت بنڑائے۔

 

’سندھ ساگر نال ہمیشاں‘ دا پہلا درشن2002ء اَتے ڈٖوجھا درشن 2017ء اَچ چھپے۔ ایندے وچ اشو لال نے اپݨے مزاج موجب سندھو سائیں نال محبت دا اظہار کیتے۔ ایندے وچ ایں دریا دے آسوں پاسوں رہوݨ آلے لوکیں دی گالھ کیتی اے۔ اتھوں دے پکھو، اِتھوں دے پہارو، اِتھو دی لوک کتھا اَتے اِتھو دے قصے کہاݨیاں دا تذکرہ وی اے۔ ایں توں علاوہ ہک اہم ڳالھ ایہ وی ہے ڃو قصے دا ولا قصہ لکھا ڳئے۔ ایندے نال نال ایں کتاب اِچ ’لوک پربھ‘، ’لاہرے‘ وی ہن، ڃیہڑے ردھم کوں کھول تے بیان کیتا ڳئے۔

 

ایندے اِچ کوئی شک کائینی جو اشولال نے سرائیکی شاعری کوں ہک نواں رنگ روپ ڈتے ایندے وچ اپݨی سنڃاݨ کوں برقرار رکھݨ دا آہر وی کیتے۔ انہاں نے اپݨی نظم کوں کوئی روایتی سیاسی نعرہ نی بݨن ڈٖتا بلکہ ہک مختلف بیانیہ تشکیل ڈیونْ اچ اپݨا بھرپور کردار ادا کیتے۔ ایں وسوں دے کلہپ کوں ہک جگ جہان دے کلہپ نال جوڑا ڳئے۔ ایں حوالے نال اساں او دیباچہ ڈیکھ سکدے ہیں ڃیہڑا اُنہاں مارکیز دے ناول تے لکھا اے۔ ڃیندا ترجمہ ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے ’تنہائی کے سو سال‘ دے ناں نال کیتے۔

 

اشو دی شاعری ساکوں حیاتی دا ہک نواں رنگ روپ ڈکھیندی اے، ڃیندی وچ ون پَونے نظارے اتے نویاں نویاں ڳالھیں ہن۔ ایں ڳالھیں وچ ہک اینڃھا جہان آباد ہے ڃیہڑا صرف اشو ڃیہا لیکھک ای تخلیق کر سکدے۔ اُنھاں دی کتاب ’گوتم نال جھیڑا‘ وچوں ہک نظم ’نظم کیویں ہوندی اے‘ پڑھو تاں ایویں لڳدے ڃو اشو نے ہک عام بندے دی ڳالھ کیتی، پر ایہ ڳالھ کوئی روایتی کوئینی بلکہ ہک نویں بیانیے نال اڳوں تے ٹورے۔ ایں توں علاوہ ایہ وی ڈٹھا ونڃ سڳدے ڃو اُنھاں نے نظم کوں ٻہوں شاندار اسلوب اچ وُݨائے۔

 

ہتھ اپݨے دا میل اے

پیر اپݨے دی جتی اے

ڈٖیکھو تاں اینویں جاگدی اے

ڈٖیکھو تاں اینویں ستی اے

ہنساں وچوں ہنس اے

مٹیاں وچوں مٹی اے

ڃیویں کناں سنْی اے

ڃینویں اکھیں ڈٖٹھی اے

ڃیویں لوک ہوندے ہن

ڃینویں لوک نئیں ہوندے

 

اشو دی شاعری اِچ ’پاݨی‘ دا استعارہ ہک وڈے حوالے دے طور تے سامݨے آندے۔ کیوں ڃو انھاں نے ہک سچے زمیں زاد دے طور تے ماحولیات دی ڳالھ کیتی اے۔ ایں حوالے وچ انہاں دی کل حیاتی دی ایہ رمز موجود ہے ڃو او ہر ویلے دریا دی ڳالھ کریندن، دریا دے گیت ڳاندن، دریا دے سُکݨ تے مونجھے راہندن۔ دریا دے ایں حوالے وچ او زیادہ تر سندھو سائیں دی ڳالھ کریندن۔ ایں دریا نال ایں وسوں دی ہک ایسی جڑت ہے ڃیہڑی کہیں وی تل وطنی دا ماݨ ہوندی اے۔ایہ دریا ہزاریں سال دی تہذیب دا امانت دار وی ہے اَتے اکھیں ڈٹھی تاریخ دا حوالہ وی۔ اشولال دریا نال اپݨی محبت دا ایہو ڃیہا اظہار کریندن ڃیہڑا اُنھاں توں پہلے کہیں ٻئے لیکھک نے ایں انداز وچ نئیں کیتا۔ اُو ھمیشہ دریا دا آدر کریندن اَتے اپݨے آپ کوں ایندے نال ہمیشہ جوڑ تے رکھدن۔ او سال پسالی سندھو سئیں کوں گلاب دے پھل دان کریندن۔ انہاں دی ایہ جڑت ’سندھ ساگر نال ہمیشہ‘ وچ وی نظردی اے

 

پانیْ دا ایہ آدر ایں پاروں وی ساکوں چنڳا  لڳدے ڃو ایہ دریا ساڈے ہاں وچ واہندا پئے۔ ایں دریا نے ساکوں آل اولاد دی کار پالے۔ ساڈی تس مکائی اے، سارا رڃ کڃ ایندے پاروں ہے۔ اشو سئیں دی دریا نال محبت دا ایہ رنگ ہر ٹل وطنی کوں ڈاڈھا بھاندے:

 

دریا او دریا پاݨی تیڈے ڈٖونگھے

توں ساڈٖا پیو ماء اساں تیڈٖے پونڳے

 

دریا او دریا پاݨی تیڈٖے ساوے

اوہو ویلا ہر دم ڃیہڑا نال راہوے

 

اشولال دریا دی تس، دریا دی سُنڃ ڈیکھ تے مُنجھی ویندن۔اشو دی اے مونجھ ساکوں ہک نویں پاسے گھن ویندی اے۔ ڃیندے وچ اُنہاں دی دریا نال بے انت محبت ڈکھالی ڈیندی اے۔ ایندے نال نال ساکوں ایہ وی پتہ لڳدے ڃو انھاں کوں دریا دا پاݨی ٻہوں مونجھا کریندے۔ ایہ مونجھ ولا ہک نویں روپ ایں نظردی اے ڃو پکھڑو وی دریا توں ٻہوں وانڈھے تھی ڳئے۔ پکھڑو دا دریا توں وانڈھا تھیوݨ ڈٖاہڈٖی دردیلی کیفیت اے۔

 

دریا او دریا ڈَٖسا دل دا جانی

کتھاں تیڈٖے پکھڑو کتھاں تیڈٖا پاݨی

 

دریا او دریا اُچی تیڈٖی ماڑی

ماڑی دے اَندر مونجھاں دی ماری

 

ذوالفقار علی بھٹو دی شکل اِچ سندھ وادی کوں ہک اینجھا لیڈر ملے ڃیہڑا اڃوکی کربل تے قربان تھی ڳئے، پر کہیں ظالم دے اَڳوں سِر نئیں نوایا۔ ایں حوالے نال اَساں اشو دی نظم "چار اپریل” ڈیکھ سکدے ہیں:

 

اَساں کانڈھی بنْ پچھتاݨے

ڈُٖکھاں ڃوٖں وَرتایا

ہنجواں رڃ رڃ ویل اُڳاٖڑی

مونجھاں ڈٖاڃ وچھایا

درد صلیبیں کھارے چڑھیا

چڑھ سولی مُسکایا

رات کچاوے اندر پاکے

لوکاں سجھ پرنایا

سجھ واپس نہ آیا

سجھ واپس نہ آیا

 

اشو لال نے ایں نظم وچ بھٹو سئیں کوں ہک اینجھا سجھ آکھے ڃیندا چانݨ چار چفیروں کھِنڈ ڳئے اَتے لوکیں کوں ایں سجھ دی قدر و قیمت دا اندازہ تھیا کہ کینجیھا قیمتی سجھ ساڈے کنوں وانڈھا تھی ڳئے۔ ایہ سجھ تاں چلا ڳئے پر اتھوں دے لوکیں کوں اے ضرور ڈسا ڳئے ڃو ظلم دے خلاف ہمیشہ کھڑو ونجݨا تل وطنی دا اصل کم اے۔

 

اشو دا سیاسی شعور ٻہوں اڳونہیں ودھ کے ہے۔ انہاں نے ہک پاسے تاں ’چار اپریل‘ ڃئی ہک وڈی نظم تخلیق کیتی۔ ایندے نال نال ساکوں اشو دی ہک ٻئی نظم ’مارشل لا‘ وی نظردی اے ڃیندے وچ انہاں دا فن اپݨے پورے جوبن تے نظردے۔ ایں نظم وچ ساڈے تے اے ڳالھ کھلدی ہے ڃو ایں وسوں دے آدی واسیں نے ہمیشہ ظلم تے ظالم دے خلاف اڑاند کیتی اے۔ اشو ایں وسوں دے تل وطنی دی آواز بݨے ہن۔

 

اَدھی راتیں چن پکڑیڃے

جنگل ویݨ کرے

تارہ تارہ چڳدی چُپ کن

وستی روز ڈٖرے

پرے کتھائیں مرلی اُتے

ڈٖکھ دی راند رَسے

ٻہوں پرانْی تانگھ اساڈٖی

رستہ انت کرے

چن دی جان چُھٹے

 

اشو دی ایں نظم وچ اَساں ڈٖیکھ سکدے ہیں ڃو اُنھاں دا سیاسی شعور کینجیھا بلند ہے۔ اُنھاں نے ایں دھرو کُوں کیویں نشابر کیتے جو ہک سچا زمیں زاد اَڃ ای او اندھاری رات کڈھائیں نئیں بھُل سکدا جیہڑی ہک وڈے سیاسی لیڈر دی موت توں بعد مسلط تھئی اَتے ہالی وی ایندے اثرات کہیں نہ کہیں شکل اچ موجود ہن۔

 

اشو دے شعر اِچ غم دی ہک نمی ڃئی لاٹ اے۔ انھاں دا غم صرف اُنھاں دی ذات دا غم کائینی بلکہ اے غم ساکوں چار چفیروں نظردے۔ دل والی جھوک دا خالی رہوݨا ہک نویں ڳالھ اے اَتے ایکوں ہک نویں انداز اچ آکھیا ڳیا اے۔

 

کتھاں پار لڈ ڳئے ہن لوک مترا

خالی پئی اے دل والی جھوک مترا

 

بھلا تھیوی کنڈ پچھو سڈ مار کے

ویندے پئے ہیں رستہ نہ روک مترا

 

اکھیں وچوں ہری بھری اکھ ڈُس پئی

کنڈ والے نیل تھئے سوک مترا

 

سر در سر جتھاں ساہ ہار کے

ویل در ویل ساکوں ہوک مترا

 

اشو سئیں دی شاعری دی ہک اہم ڳالھ اے وی ہے ڃو انُھیں نے صرف قصہ نئیں بیان کیتا بلکہ قصے دے وچوں ہک نواں قصہ کڈھے۔ مثال دے طور تے: ’قصے دا ولا قصہ‘، ’ڈھولک وجدی راہوݨی اے‘ ڈیکھ سکدے ہیں۔ انہاں قصہ وچ اشو دا تخلیقی وفور اپݨے پورے جوبن تے نظردے۔ ایندا کارݨ ایہ وی ہے ڃو انھیں دے اندر ہک وڈا کہاݨی کار وی موجود ہے ڃیہڑا انھاں کوں کہاݨیاں آلے پاسے گھن کے آندے۔ ایں پاروں انھاں ٻہوں ساری سرائیکی کہانْیاں وی لکھیاں ہن۔ اتے ہک مجموعہ "ابنارمل” دے ناں نال آ وی ڳئے۔

 

ایندے اِچ کوئی شک کائینی ڃو اشو دے کلام دا ورتارا مستقبل اِچ سرائیکی شاعری کیتے ہک اینڃیہا سوجھلا ہے ڃیہڑا کہیں وی وڈے ادب کیتے ضروری ہوندے۔

۔۔۔۔۔

الیاس کبیر

13 اپریل 2023ء

اے وی پڑھو:

%d bloggers like this: