نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میڈیا منڈی اور عامل صحافی||عامر حسینی

عامر حسینی پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع خانیوال سے تعلق ہے، ، وہ مختلف موضوعات پرملتان سمیت ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلام آباد میں مقیم سینئر صحافی ( بلکہ یوں کہیں کہ استاد الاساتذہ صحافی) اپنی فیس بک وال پر ایک پوسٹ میں عامل صحافیوں کی حالت زار پر بات کررہے ہیں اور بظاہر یہ بحث روف کلاسرا اور نجی ٹی وی چینل ” ٹیلن نیوز” کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعے کے دوران انتظامیہ کی جانب سے ان کے بینک کھاتے کو کی جانے والی ایک ٹرانزیکشن اور ان سے ہوئے معاہدے کی تفصیلات سوشل میڈیا پر وائرل کیے جانے پر روف کلاسرا کی مبینہ خوشحالی اور مراعات یافتہ ہونے کے بارے میں شروع ہوئی-
اس دوران ہمارے محترم سینئر صحافی برادر بزرگ نے یہ خیال بھی پیش کیا کہ صحافتی برادری میں بدحال ہوئے لوگوں کی ایک تعداد وہ ہے جو مفادات عاجلہ میں مستقبل کے مفادات کو قربان کر بیٹھے-
اس کی مثال انھوں نے میڈیا ٹاؤن اسلام آباد میں ان صحافیوں کی دی جنھوں نے اونے پونے دام اپنے پلاٹ فروخت کردیے –
ان کی بات میں جزوی صداقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا-
لیکن ایسا لگتا ہے جیسے وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ورکنگ جرنلسٹس اپنی قسمت انفرادی سطح پر آپ ہی روف کلاسرا ، افضل بٹ، حامد میر وغیرہ وغیرہ جیسی نہیں بنانا چاہتے ( ہوسکتا ہے میرا یہ احساس غلط ہو) –
پھر وہ سب ورکنگ جرنلسٹوں کو مستقبل میں امیر ہوجانے کا یا کم از کم ‘خوش- حال’ ہوجانے کا نسخہ بھی بتاتے ہیں -( یہ نسخہ چند کے کام تو آئے شاید مگر اکثریت اس سے یونہی فائدہ نہیں اٹھا پائے گی)
ایسے میں ارشد علی خان نام کے ایک صحافی ان کی وال کے نیچے کمنٹ کرتے ہیں اور وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ 14 سے 15 سالوں سے میڈیا اداروں میں کام کر رہے ہیں لیکن اسلام آباد پریس کلب نے سوائے انھیں رعایتی کھانے کی سہولت فراہم کرنے کے کچھ نہیں دیا نہ ہی میڈیا ٹاؤن میں پلاٹ-
اس پر میں نیچے کمنٹ کرنا چاہتا تھا لیکن میرا کمنٹ طول پکڑ گیا ، ایک سے جڑا دوسرا مسئلہ سامنے آتا گیا اور الفاظ کی حد ختم ہونے پر کمنٹ نیچے نہ دے پایا –
مجبور ہوکر سوچا کہ اب اسے ایک پوسٹ کی صورت دوں –
میں پیشگی اپنے سینئر بزرگ ساتھی صحافی سے معذرت کا طلبگار ہوں اگر میری اس پوسٹ سے کوئی لفظ یا جملہ انھیں بے ادبی یا حفظ مراتب کو نظر انداز کرتا ہوا لگے – یہ پوسٹ ان کا رد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے مقام و مرتبے کی نفی ہے – وہ میرے لیے انتہائی محترم ہیں ، میں انھیں تب سے جانتا ہوں جب مجھے الفاظ ٹھیک سے لکھنا بھی نہیں آتے تھے اور اپنے درجنوں سینئر و ہم عصر ساتھیوں سے میں نے ان کی انسانیت نوازی کے قصے سنے ہوئے ہیں – میں ان سے کبھی نہیں ملا لیکن مجھے مجھے لگتا ہے کہ ان سے ملاقات بہت پرانی ہے –
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پریس کلبز کبھی بھی عامل صحافیوں کے حقوق کی جنگ نہیں لڑ سکتے- یہ ویسے ہی تفریح کی جگہ ہوتے ہیں جیسے یورپ میں لیبر کلبز وجود میں لائے گئے تھے – اور جنرل ضیاء الحق نے ان پریس کلبز کو صحافتی ٹریڈ یونین کی بیخ کنی کرنے کے لیے منظم طور پر ایک متوازی اکھاڑوں کے طور پر کھڑا کیا اور یہ غلط تاثر بنا کہ یہ پریس کلبز محبت کش صحافیوں کے حقوق کے دفاع کے مورچے بن سکتے ہیں اور ٹریڈ یونین تنظیم کا متبادل ہوسکتے ہیں –
ورکنگ جرنسلسٹوں کے حقوق کی لڑائی کو صرف اور صرف اداروں میں سی بی اے یونین اور ان سی بی ایز کی بنیاد پر ہر شہر کی یونین آف جرنلسٹ اور ان کے ملک گیر الحاق پر مبنی فیڈریشن ہی لڑ سکتی تھی اور ہے –
اس وقت المیہ یہ ہے کہ شہر کی یونین آف جرنلسٹس اور ایف یو جے ( چاہے کتنے دھڑے ہوں) ہیں لیکن ان یونین آف جرنلسٹس کے پرائمری یونٹس یعنی اداروں میں سی بی اے یونینز سرے سے یا تو موجود نہیں یا پاکٹس یونین ہیں –
اور بدقسمتی سے صحافیوں کی نئی نسل سب سے زیادہ جس کام سے بے نیاز، بے پرواہ اور سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتی وہ خود کو کام کی جگہ پر منظم کرنے کا ہے – لیکن یہ منظم ہونے کا کام تو ایک ٹریڈ یونینسٹ ہی سکھا سکتا ہے جبکہ اداروں میں ٹریڈ یونین ورک کی تربیت دینے والے بھی موجود نہیں ہیں اور اسی وجہ سے ہر شہر میں چند درجن صحافیوں کو چھوڑ کر باقی سینکڑوں عامل صحافیوں کے معاشی حالات دگر گوں ہیں –
زرد صحافت ، گٹر صحافت جیسے رونے تو یہاں روئے جاتے ہیں لیکن ورکنگ صحافیوں کے کام کی جگہوں پر حالت زار بارے کوئی سرے سے کہیں بات ہی نہیں کرتا-
میڈیا مالکان ، حکومت اور نام نہاد سول سوسائٹی ایک اشرافیہ صحافی/اینکروں کی پرت(جو پورے ملک میں بمشکل سو سے دو سو ہوں گے) کو سلیبرٹی اسٹیٹس کے ساتھ صحافت کا غالب چہرہ بناکر پیش کرتی ہے اور یہ چہرے ورکنگ صحافیوں کی اکثریت کی اصل حالت کو چھپانے کا کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ کام کی جگہ پر ہورہے استحصال، جبر ، ان کو درپیش نوکری کا عدم تحفظ ، کام کے اوقات کار کا تعین نہ ہونا، وقت پر تنخواہ نہ ملنا ، یا انتہائی کم تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہونا سمیت درجنوں مسائل کو چھپا لیتے ہیں –
کبھی کبھار جب ان میں سے کوئی ورکر صحافی کسی حادثے کا شکار ہوتا ہے یا مر جاتا ہے تب کہیں سے لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ اس کے گھر کے کیا حالات تھے اور وہ کیسے گزر بسر کر رہا تھا-
پاکستان میں جیسے دوسرے شعبوں میں شارٹ کٹ کے ذریعے چند ایک اشراف چہرے پورے شعبے کی ورکنگ کلاس کا چہرہ بنائیے گئے ہیں ایسے ہی ہمارا شعبہ صحافت بھی ہے-
میڈیا انڈسٹری میں ورکر صحافی اور دوسرے ملازمین کس بدترین دباؤ کا شکار ہیں ؟
یہ سوال تو ٹھیک طرح سے ہمارے نام نہاد مین سٹریم میڈیا اور حال کے سوشل میڈیا پر زیر بحث نہیں آ رہا –
یہاں اقتدار کی غلام گردشوں میں طاقت اور اختیار کی لڑائی لڑنے والے گروہوں میں کسی نہ کسی گروہ کے ساتھ وابستہ میڈیا کے سیٹھوں کی لڑائی کی زد میں آنے والے چند ایک سیلیبرٹی پر پڑنے والی افتاد ہی زیر بحث آتی ہے جبکہ اکثریت کے مسائل پر کوئی بات نہیں ہوتی-
یہاں تھوڑی سی خود احتسابی بھی ہو جائے-
محنت کش صحافیوں کی اکثریت اپنے اجتماعی حقوق جن میں سب سے بنیادی اور پہلا حق ان کی نوکری کا تحفظ اور بروقت تنخواہ کی ادائیگی اور پھر تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ اور ڈیلی ویج سسٹم کے خاتمے پر اصرار ہے کیونکہ تھرڈ پارٹی کنٹریکٹ انھیں ویج بورڈ ایوارڈ کے فوائد سے ہی محروم کر دیتا ہے کیونکہ چاہے پرانا ویج بورڈ ایوارڈ ہی کیوں نہ چل رہا ہو اس وقت میڈیا گروپوں کے براہ راست ملازم تو ایک فیصد بھی نہیں ہیں تو عملا 99 فیصد ورکنگ جرنلسٹس ویج بورڈ ایوارڈ کے حقدار ہی نہیں ہیں صرف یہ ایک نکتہ ہی ہمارے ہاں ملک گیر صحافتی تحریک کی بنیاد بن سکتا تھا اگر اکثریت اپنے حقوق کی جنگ لڑنے پر تیار ہوتی – لیکن ان میں سے کوئی اپنے آپ کو اپنی برادری کی اکثریت کے حقوق کی جنگ کے لیے وقف کرنے کی یا تو ہمت نہیں اکٹھی کر پاتا یا پھر ان کی اکثریت اس طرح سے سوچتی نہیں ہے –
اس وقت اسلام آباد ، راولپنڈی ، لاہور ، کراچی سمیت میڈیا کے بڑے مراکز میں میڈیا انڈسٹری سے جڑے ورکرز کی اکثریت کا تعلق چھوٹے اور دور دراز کے علاقوں سے ہے جو ایک ایک دو دو کمروں کے گھروں میں نہایت کسمپرسی میں اور اکثر اپنے دفتر سے میلوں دور رہتے ہیں اور ان میں سے اکثر تو بمشکل اپنے گھر والوں کو کچھ پس انداز کرکے بھیج پاتے ہیں اور کئی تو انڈسٹری میں مزدوری کے ساتھ کئی اور پیٹی ورک بھی کرتے ہیں –
کیا ان سب مسائل پر کہیں کوئی بات ہو رہی ہے؟ نہیں ، نا۔۔۔۔
ورکنگ جرنلسٹوں میں غالب سوچ اپنی آمدن بڑھانے کے لیے ان زرایع کو کسی نہ کسی طرح ممکن بنانے کی ہے جو مختلف بیٹ کے رپورٹروں میں سے کئی ایک کو ‘اوپر کی آمدن’ یا چند ایک کو ماہانہ تنخواہ سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے-
اور وہ زرایع ہیں کیا؟ مجھے یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ ‘زرایع’ کتنے فی صد کو میسر ہیں ، ظاہر ہے آٹے میں نمک کے برابر، جبکہ اکثریت استحصال اور جبر کی چکی میں پس رہی ہے –
ورکنگ صحافیوں کو معاشرے میں ‘حقوق کی مانگ’ کی بجائے ‘ ایک ایسے پریشر گروپ میں ڈھالا جا رہا جہاں وہ سارے کے سارے مراعات یافتہ، خوشحال، مرفہ حال اور قانون سے اوپر ہوں ان میں یہ جعلی خیال سرایت کیے رہے کہ ان کا تعلق ‘عوام’ سے نہیں بلکہ حکمران اشرافیہ کے برابر نہیں تو ان سے بس تھوڑا ہی نیچے ہے – ورکرصحافی کو طاقتور حلقوں سے بہترین پی آر کا حامل بننے کا جنون بخشا جا رہا ہے – اور یہ سب خلا میں نہیں ہو رہا بلکہ سارے سماج کی مجموعی حالت سے جڑا ہوا ہے-
ایسے لگ رہا ہے جیسے سب صحافی مرد حامد میر ہوں ، روف کلاسرا ہوں کاشف عباسی ہوں اور سب کی سب
خواتین صحافی عاصمہ شیرازی ہوں, عائشہ بخش ہوں ، ثناء مرزا ہوں وغیرہ وغیرہ
یہ چھوٹی سی مرفہ حال اشراف صحافتی سیکشن میڈیا انڈسٹری کی افرادی قوت /ورکنگ فورس کی بھاری اکثریت کا نمائندہ چہرہ نہیں ہے بلکہ یہ تو اس کی ایک اقلیت ہے اور ان کی خوشحالی ، مراعات یافتہ ہونے اور کامیاب ترین تصور کیے جانے میں بہت سارے عوامل ہیں- ان میں اینکر صحافیوں کے پروگرامز اور مواد سے مل کر سامنے آنے والی پروڈکٹ ایک ایسی کاموڈیٹی/پیداواری جنس ہے جس میں ان کے پروگرام سے جڑے بہت یونٹ کے ورکنگ صحافیوں اور دیگر محنت کش ایمپلائز کی اجتماعی محنت جڑی ہے جن میں سے اکثر تو کچے ڈیلی ویج ورکر ہیں اور ریسرچ ایسوسی ایٹ اسائنمنٹ بیسڈ اجرت لینے والے ہوتے ہیں اور ان سب کی قوت محنت کا خریدار اکثر و بیشتر اس پروگرام کا ہوسٹس اینکر پرسن ہوتا ہے جو اس پروگرام کے لیے ایک بجٹ مالک میڈیا گروپ سے لیتا ہے – اس تعلق میں استحصال اور جبر کیسے ہوتا ہے؟ کیا کبھی اس پر بحث کی ہوتے دیکھی ہے؟
اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میڈیا انڈسٹری محنت کی قوت استعداد کو بیچنے والوں سے یکساں سلوک کرتی ہے اور انھیں یکساں مواقع فراہم کرتی ہے اور سب کو ترقی کرنے اور خوشحال ہونے کا موقعہ فراہم کرتی ہے- سب کو سبسڈائزڈ پلاٹ، انشورنس، اولڈ ایج بینیفٹ، سوشل سیکورٹی وغیرہ وغیرہ دیتی ہے –
آپ نے بالکل درست سوال اٹھایا کہ کیا سب صحافیوں کو میڈیا ٹاؤن میں پلاٹ ملے؟
اور کیا پلاٹ لینے والوں میں بیچنے والے سب کے سب محض وقتی خوشحالی کے لیے پلاٹ بیچ گئے؟
یہ بھی تو ہوسکتا ہے ان کے گھر میں کسی کویا خود انھیں اچانک سے کسی بڑی موذی بیماری نے آن گھیرا ہو، ان کی بہن، بیٹی کی شادی سر پہ آن پڑی ہو، کسی بیٹے کی سمسٹر فیس ادا کرنے کا مسئلہ آن پڑا ہو، اچانک کوئی بہن بیوہ ہوگئی ہو اور اس کا اور بچوں کا بار اٹھانا پڑ گیا ہو؟
پاکستان اس ملک کی اکثریت کے لیے کوئی سوشل ویلفیئر سٹیٹ /سماجی فلاحی ریاست تو ہے نہیں جہاں پر کسی بھی گرتے ہوئے شخص کو سنبھالنے کا ذمہ ریاست کے پاس ہو- بلکہ یہ اس ملک کی اکثریت کے لیے سیکورٹی سٹیٹ اور اس ملک کی حکمران اشرافیہ کے لیے حقیقی ویلفیئر اسٹیٹ ہے –
ہمارے سینئر بزرگ صحافی نیک طینت انسان ہیں لیکن میں نہایت ادب و احترام سے کہوں گا کہ وہ صحافتی برادری کی خوشحالی کے جن نسخوں کا بیان کرتے ہیں اس سے وہ یوٹوپیائی مصلحین کے قریب جا پڑتے ہیں اور یہ مجموعی سرمایہ داری کے میکنزم اور میڈیا انڈسٹری میں محنت کی لوٹ کھسوٹ کے مظہر کو سائنسی بنیادوں کی بجائے محض یوٹوپیائی طرز فکر سے دیکھنے کا نتیجہ ہے –
نجات کا راستا اجتماعی حقوق کی لڑائی میں شامل ہوئے بغیر نہ ملا ہے نا ملے گا –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author