عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارل مارکس کے ساتھ نام نہاد اکیڈمک مارکس واد ( اسے مدرسی مارکسیت کہہ لیجیے اور ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنا ہو تو اسے مارکس واد کا فرینکفرٹ مکتب /مدرسہ /اسکول جو دل چاہے نام دے ڈالیں یا آج کل مروجہ اصطلاح میں نیا بایاں بازو /نیو لیفٹ کہہ کر پکاریں آپ کی مرضی ہے) اور سرمایہ داری کی حامی (بورژوا) دانش نے کیا سلوک کیا؟ اسے سمجھنا ہو تو آپ کو روس میں اشتراکی انقلاب کے معمار ولادیمیر ایلیچ لینن کی کتاب ‘ریاست اور انقلاب’ کی ان سطروں کو پڑھنا بھی کافی ہوگا :
"عظیم انقلابیوں کی زندگی میں جابر طبقات ان کے پیچھے کتوں کی طرح پڑے رہتے ہیں – ان کے نظریات کو شدید حقارت سے دیکھتے رہتے ہیں – ان کے خلاف بد دیانتی اور جھوٹ و نفرت سے بھری مہم چلاتے رہتے ہیں – جب وہ مر جاتے ہیں (تو جی جان سے کوشش کرتے ہیں کہ) انھیں بے ضرر شبہیوں میں تبدیل کر دیں – انھیں ولی مرتاض (سب سے صلح جوئی کی کوشش کرنے والا اور متضاد مفادات کے باہم متصادم طبقات میں ہم آہنگی دکھانے والا) بناکر پیش کرنے میں لگے رہتے ہیں – ان کے نام کو استعمال کرکے ان کے نظریات کی بیخ کنی کرکے مظلوم طبقات کو دلجوئی کی افیون پلاتے اور ان کے نام پر عوام کو دھوکہ دینے کی خوشش کرتے رہتے ہیں – اور اس کوشش کے دوران ان کے انقلابی نظریے کو اس کے جوہر سے محروم کر دیتے ہیں تاکہ ان کے انقلابی نظریہ کی دھار کند ہوجائے اور نظریہ بذات خود( اس قدر) مسخ ہوکر رہ جائے ( کہ اگر وہ عظیم انقلابی زندہ ہوکر واپس آ جائیں تو خود بھی پہچان نہ کر پائیں کہ وہ ان کے نظریات تھے – مارکس کے خیالات کو جتنا ان کا نام لے کر مسخ کیا گیا شاید ہی دنیا میں کسی اور انقلابی کے ساتھ ایسا ظلم روا رکھا گیا ہو)
پس نوشت: مجھے یہ پوسٹ لال سلام اشاعت گھر سے شایع ہونے والی کتاب ‘ روح عصر اور لینن ازم’ از پارس جان کے باب اول بہ عنوان ‘ اکیڈمک مارکس ازم اور لینن ازم ‘ کے آغاز میں لینن کے ایک قول کو پڑھ کر بنانے کا خیال آیا- جس کے لیے میں کامریڈ پارس جان کا بے حد مشکور ہوں – انھوں نے اس کتاب میں جیسے جرگن ہیبرمین، میکس ہور خائمر، مارٹن جے، والٹر بنجمن، ہینرک گروسمین، مارکوزے، ایرک فرام، ایڈورنو، ڈیوڈ ہاروے، مارک فشر ، زیزک جیسے رہزنوں کی چالاکیوں کا پردہ فاش کیا وہ اپنی جگہ قابل داد بات ہے-
باقی رہ گئے پاکستان میں رہنے والے مارکس واد کے دشمن بہروپیے وہ اسقدر ‘ردی’ ہیں کہ ان کے نام لکھنا بھی میں توہین سمجھتا ہوں کیونکہ یہ مارکس کو پڑھے اور سمجھے بغیر بورژوا دانش غرب کے جملوں کی جگالی کرتے ہیں
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ