نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مہا منافق حکمران سیاسی اشرافیہ||عامر حسینی

عامر حسینی پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع خانیوال سے تعلق ہے، ، وہ مختلف موضوعات پرملتان سمیت ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خبر آ رہی ہے کہ وزرات خزانہ نے پٹرول پر صارفین کو دی جانے والی پوسٹ ٹیکس سبسڈی جو 61 روپے فی لٹر ہے کا ازالہ پٹرول کی پوسٹ ٹیکس قیمت پر 61 روپے فی لٹر سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ آئی ایم ایف کی طرف سے حکومت کو انرجی پرائسنگ ریفارمز کی مد میں عائد کی جانے والی شرائط میں سے ایک ہے- اب حکومت 61 روپے فی لٹر سیلز ٹیکس اقساط میں نافذ کرے گی یا یک مشت اس کا فیصلہ نئے مالیاتی سال 2024 کی بجٹ دستاویز میں کردیا جائے گا-
ذہن نشین رہے کہ فنانس ڈویژن نے گزشتہ دس سالوں میں وفاقی حکومت کی کل آمدنی میں پی او ایل (پٹرولیم، تیل اور لبریکنٹس پروڈکٹس) پر ٹیکسز اور لیویز کے ذریعے آمدنی میں ہوش ربا اضافے کیے ہیں اور یہ اس وقت حکومت کی کل آمدنی
Gross Revenue Receipts
کا 16 فیصد ہے –
رواں مالیاتی سال 2023 میں حکومت نے پی او ایل پر ٹیکسز اور لیویز کے ذریعے 12 کھرب روپے اکٹھے کرلیے ہیں اور آنے والے مالیاتی سال میں یہ اس کے ذریعے سے 40 فیصد زائد کمانے کا ارادہ رکھتی ہے- صرف پٹرول پر ٹیکسز، ڈیوٹیز اور لیویز کی مد میں یہ 10 کھرب روپے کمانے کا ہدف رکھے ہوئے ہے- 2023 میں حکومت پٹرول کی فی ٹن مقدار پر 77000 ہزار روپے ٹیکسز کی مد میں حاصل کرتی رہی جوکہ 2017ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے-
اس سے ایک اور ستم ظریفی بھی حکومت کی عیاں ہوتی ہے کہ یہ اپنے ریونیو میں ٹیکس بیس کو متنوع زرایع پر کرنے یا ٹیکس کے دائرے میں نہ آنے والے اشراف گروہوں کو ٹیکس دائرے میں لانے ( ان میں رئیل اسٹیٹ ، ایگرو بیسڈ منافعوں اور کارپوریٹ سیکٹر کے سپر منافعوں پر ٹیکسز عائد نہ کرنا شامل ہے) کی بجائے انرجی کے صارفین پر ہی ٹیکسز کی شرح بڑھاتے رہنے تک محدود رہی ہے- گزشتہ 20 سالوں میں آنے والی ہر حکومت نے اپنی ٹیکسز کی آمدنی کا 75 فیصد ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے حاصل کرنے کی پالیسی اپنائی جس کا سب سے زیادہ بوجھ سفید پوش اور غریب طبقات پر پڑا – اس عوام دشمن ٹیکس پالیسی سے 20 سالوں میں پارلیمنٹ میں آنے والی ہر جماعت کی قیادت ( جو ساری کی ساری اس ملک کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہے) نے فنانس بلوں کی منظوری دے کر دفاع کیا –
گزشتہ 20 سالوں میں عوام دشمن حکومتی ٹیکس پالیسی کا یہ تسلسل پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے ان نام نہاد متوسط طبقے کے رہنماؤں اور کارکنوں کی بدترین موقعہ پرستی بھی بری طرح سے بے نقاب ہوتی ہے جو اپنی جماعتوں کی اشراف قیادت کی اس عوام دشمن ٹیکس پالیسی کو جاری رکھنے کے خلاف اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں مضبوط عوام پرست /پاپولسٹ اپوزیشن کی تعمیر کرنے کی بجائے اپنی مخالف جماعتوں کی قیادت کو ہی قصوروار ٹھہراتے رہے –
پارلیمنٹ میں موجود کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ جب یہ کہتا ہے کہ ریاست اشرافیہ کے لیے سوشل ویلفیئر سٹیٹ ہے لیکن وہ اپنی جماعت کو جب ایسی حکومت کا اتحادی اور شراکت دار بناتا ہے جو عوام دشمن ٹیکس پالیسی کو دوام دیتی ہو تو اس کے عوام کی بد حالی پر آنسو مگرمچھ کے آنسو ہوتے ہیں اور وہ سب سے بڑا منافق ہوتا ہے – اور وہ سربراہ تو ‘مہا منافق اور زیادہ ظالم ‘ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹ اور اپنی پارٹی کو سنٹر لیفٹ کہتا ہو –

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author