عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
On the Fallen Women of Liberalism
1912ء میں جرمنی میڑ ریستاخ / پارلیمنٹ کے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کو جرمن لبرل بورژوا/ سرمایہ دار سیکشن نے قیصر ولہلم دوم اور اس کے جنگجو زمین داروں کے خلاف طاقت آزمائی کے طور پر دیکھنے لگے۔ اگرچہ اسمبلی کے پاس انتظامی اختیارات نہ تھے بلکہ وہ محض بجٹ، ٹیکسز اور ٹیرف وغیرہ سے متعلق چند محدود ایسے اختیارات رکھتی تھی جو سرمایہ داروں کے لیے اہمیت کے حامل تھے۔ لبرل بورژوا چاہتے تھے کہ وہ سوشل ڈیموکریسی (محنت کشوں کی پارٹی کی نمائندہ جماعت) کی مدد سے اسمبلی میں مالیاتی معاملات پر اپنا کنٹرول کرلیں-
اس وقت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے جو رہنماء تھے وہ انتخابات کے دوران ایسے ‘عوامی محاذ’ میں ‘رجعت پرستی’ کے خلاف تعاون کرنے پر آمادہ تھے تو انہوں نے انتخابی معاہدوں میں جڑ گئے جہاں انھوں نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جہاں انہیں رجعت پسند امیدوار سے مقابلہ درپیش تھا- روزا لکسمبرگ نے سوشل ڈیموکریسی کی قیادت کی اس کوشش کو طبقاتی لائنوں کو دھندلانے کے مترادف قرار دیا- اور انھوں نے ‘پیپلز فرنٹ بلاک’ کے نام پر تشکیل پانے والے اتحاد سے حاصل ہونے والے اسباق کا خلاصہ پیش کیا اور اپنے مضمون کا عنوان رکھا:
On the Fallen Women of Liberalism
گری ہوئی عورت سے لبرل ازم کو تشبیہ دینے کا مطلب لبرل جماعتوں پر تنقید کے دوران استعارے کا استعمال تھا- فالن ویمن / گری ہوئی عورت روایتی طور پر ایسی عورت کے لیے بولا جاتا ہے جو اپنا وقار اور مقام کھوچکی ہو۔ اس تناظر میں، لبرل جماعتیں جنھیں کم از کم لبرل اقدار کے حوالے سے اصول پسند اور معیار پر ٹکے رہنے والی سمجھا جاتا تھا وہ اس درجے سے کہیں نیچے گر چکی تھیں اور اپنی لبرل اقدار پر سمجھوتہ کرچکی تھیں- یہ عنوان ہی بتاتا ہے کہ روزا کے نزدیک یہ جماعتیں اپنا نظریاتی خالص پن برقرار رکھنے میں ناکام ہوکئی تھیں یا اپنے اصولوں سے منحرف ہوگئی تھیں- اور یہ سب انھوں نے اپنے نام نہاد ‘عملیت پسندانہ’ یا موقعہ پرستانہ وجوہات کے تحت کیا تھا-
روزا نے 1912ء میں لبرل ڈیموکریٹک بورژوا کے اس دعوے کی نفی کی جس کے مطابق سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی جیت میں لبرل ڈیموکرییکٹ پارٹیوں کا ہاتھ تھا- روزا کا خیال تھا کہ سوشل ڈیموکریٹس امیدوار اپنے بل بوتے پر جیتے تھے جبکہ لبرل کی ان کی حمایت میں غیر مستقل پن بہت نمایاں تھا اور وہ بار بار رجعت پرستی کے گھاٹ اترتے تھے۔ رجعت پرست طاقتوں سے ہاتھ ملاتے تھے۔
روزا اپنے ان سوشل ڈیموکریٹ رہنماؤں سے اختلاف کرتی ہے جو سوشل ڈیموکریٹس اور لبرل بورژوا کے درمیان پائیدار اتحاد کا امکان دیکھ رہے تھے۔ وہ دکھاتی ہے کہ کیسے ان دونوں کے درمیان طبقاتی تضادات اور دونوں کے یکسر الگ طبقاتی مفادات ان کو کبھی مستحکم میں نہیں رکھ سکتے۔ روزا لکسمبرگ نے ضرور دیا حقیقی سیاسی منطر نامہ تبدیل نہیں ہوا اور بورژوا سیاسی جماعتیں بنیادی طور پر رجعت پرست پالیسیوں کی مخالف نہیں ہیں-
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ