اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر – بارہویں قسط||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

”تم چاہتے ہو میرا بچہ ہو قیوم۔ سچ؟ سچ؟ شوہر نے بچے کے لئے اپنا علاج کروانے کی حامی بھر لی ہے۔ واقعات پر اپنا بس تھوڑی چلتا ہے۔ گناہ تو آدمی سے ہوتے رہتے ہیں بندہ بشر جو ہوا توبہ کر لے بس۔“

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عابدہ بے اولاد تھی اور اپنے شوہر سے برگشتہ بھی، لیکن کیا یہ خیال تعلقات کے آغاز سے ہی اس کے لاشعور میں پنپ رہا تھا کہ اسے بچہ ہر قیمت پر چاہیے؟

اس مرحلے پر بغیر نکاح کے جنسی تعلق اور گدھ کی مردار سے رغبت کے تھیسس کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا مصنفہ ناول کے بنیادی موضوع کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے قیوم کی گدھ سے مماثلت کے خیال میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ عابدہ کی اپنے شوہر سے اولاد نہ ہونا اور اس کمی کو قیوم کے نطفے سے مکمل کرنے کی کوشش کا بیان پڑھتے ہوئے قاری اس منطق کو کیسے بھول سکتا ہے جو سیمی اور قیوم کے تعلق پر منطبق کی گئی تھی۔

خود کو راجہ گدھ سمجھتا قیوم مصنفہ کے تھیسس کا دفاع کرتے ہوئے عابدہ کی پیش قدمی روکنے سے قاصر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو عابدہ بانو کے قابو میں نہیں یا بانو کو عابدہ کے اس فیصلے بلکہ سب فیصلوں اور حرکات سے کوئی دل چسپی نہیں۔ وہ قیوم کو راجہ گدھ بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ بہت سی تفصیلات یا ناول میں ترتیب دیے گئے ماحول کی نزاکت فراموش کر دیتی ہیں۔

وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ عابدہ جسے وہ مردار کی شکل میں راجہ گدھ کو پیش کر رہی ہیں وہ مردار، راجہ تک کیسے پہنچا ہے اور اسے یہ مردار کھانے کی باقاعدہ ترغیب کیسے مہیا کی گئی ہے؟ بالکل اسی طرز پہ جیسے سیمی قیوم تک پہنچی۔ پھر یہ بھی کہ گدھ جسے سب جانور جنگل سے نکالنے کا فیصلہ کرنے میں پیش پیش ہیں، کیا ایسے مردار کھاتا ہے اور کیا مردار گدھ تک ایسے ہی پہنچتے ہیں؟ ناول کی بنت میں بنیادی کمزوری کیا گدھ کے مرکزی استعارے کو تخلیقی اعتبار سے کمزور نہیں کرتی؟ یہاں اگر گدھ کے بارے میں ماحولیاتی تناظر بھی شامل کر لیا جائے تو معاملہ شاید کچھ اور الجھ جائے گا۔

عابدہ اور قیوم کے تعلقات کی مدت زیادہ نہیں تھی۔ اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کی طرف انسانی جبلت کے تقاضوں کے تحت بڑھے، جب وہ لاشعور کی گرفت میں تھے۔ دونوں نے وہی کیا جو حالات اور فطرت کا تقاضا ہو سکتا تھا۔ لیکن جونہی جبلت کو تسکین پہنچی دونوں اپنے شعور کو ٹٹول کر واپسی کی راہ ڈھونڈنے لگے اور اس بات کو قیوم کا یہ بیان تقویت دیتا ہے۔

”اب عابدہ ناغے ڈال کر اوپر آنے لگی۔ اگر ہم دونوں کو محبت ہوتی تو اور بات تھی لیکن ہم دونوں تو اپنی اپنی تلاش کے باعث ہم سفر ہوئے تھے۔ اس لئے اب فقط احساس گناہ اور خود شکستگی باقی تھی۔ میں بھی عجیب قسم کے بوجھ تلے دبنے لگا تھا۔“

کچھ ہی دنوں کے بعد عابدہ قیوم کو خداحافظ کہہ کر اپنے شوہر کے ساتھ واپس چلی جاتی ہے۔ قیوم اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ بتاتی ہے کہ اس کے شوہر نے بچے کے لئے اپنا علاج کروانے کی حامی بھر لی ہے جس پر قیوم چڑ کر اس سے کہتا ہے۔

”تمہارا دل عجیب ہے۔ اتنا کچھ تمہارے جسم کے ساتھ ہوا اس پر رتی اثر نہیں ہوا“ ۔
قیوم یہاں کیا کہنا چاہتا ہے؟ یقیناً وہی جو عابدہ سمجھ بھی لیتی ہے۔ جواب دیکھیں۔
”واقعات پر اپنا بس تھوڑی چلتا ہے۔ گناہ تو آدمی سے ہوتے رہتے ہیں بندہ بشر جو ہوا توبہ کر لے بس۔“

یہ مصنفہ بانو قدسیہ کہہ رہی ہیں یا عابدہ؟ عابدہ کے ایسے ہی مکالمات کی وجہ سے ہمیں عابدہ کو ایک آزاد کردار کے طور پر بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ جو بانو کے قلم سے بہت کچھ ایسا لکھوا لیتی ہے جو ان کے تھیسس سے مماثلت نہیں رکھتا۔ مثلاً ذرا عابدہ کے الفاظ اور جملوں کو ایک ساتھ پڑھیں :

”تم چاہتے ہو میرا بچہ ہو قیوم۔ سچ؟ سچ؟ شوہر نے بچے کے لئے اپنا علاج کروانے کی حامی بھر لی ہے۔ واقعات پر اپنا بس تھوڑی چلتا ہے۔ گناہ تو آدمی سے ہوتے رہتے ہیں بندہ بشر جو ہوا توبہ کر لے بس۔“

دیکھیں اور غور کریں کہ یہاں حلال و حرام اور مردار خور گدھ اور جنسی تعلق کا تناظر کہاں سے کہاں جا پہنچتا ہے۔ اچھا اب اس کے بعد اب قیوم کا جواب دیکھیں :

‏ ”‎بس ساری اتنی سی بات ہے؟ جانے دو عابدہ تم سب ایک سی ہو۔“
”تم سب ایک سی ہو۔“

یہاں اتنی سے بات سے کیا کہا گیا ہے یا کہنے کی کوشش کی گئی ہے یا یہ جملہ اور بہت سے جملوں کی طرح یوں ہی برائے جملہ سرزد ہو گیا ہے؟

کیا قیوم کے یہ الفاظ راجہ گدھ کے کردار کے لئے غیر مانوس اور اجنبی نہیں؟ یہ الفاظ تو کوئی ایسا کردار ہی کہہ سکتا ہے جو عورتوں سے کھیلتا آ رہا ہو یا جس کا تعلق ایسی عورتوں سے ہو جو مردوں سے کھیلتی آ رہی ہوں لیکن سیمی اور عابدہ دونوں شاید اس کیٹگری میں نہیں آتیں۔

‏‎عابدہ کے کردار کی منافقت بھی سامنے آتی ہے۔ دنیا سے رخصت ہو جانے والی عورت کے جنسی تعلقات کا بار بار ذکر اور اسے بری عورت سمجھنے والی عابدہ اسے معاف کرنے پہ تیار نہیں۔ لیکن اپنے لیے دلیل پیش کرتی ہے کہ بندہ بشر ہوتا ہے جس سے غلطی ہو سکتی ہے۔

جب کہ دونوں جگہ معاملہ محض غلطی کا نہیں، کچھ اور ہے۔ کچھ اور جو سیمی اور عابدہ کے بیچ مشترک بھی ہے لیکن وہ نہیں جس کی نشاندہی قیوم کرتا ہے۔ وہ صفت جو انہیں داخلی طور پر ایک سا بناتی تھی اور وہ تھی دونوں کی خود اپنی مرضی۔ اپنے ساتھ جنسی عمل کو ہونے دینا، خود کو جنسی عمل کا حصہ بننے سے نہ روکنا۔ قیوم نے جب جب جنسی تعلق بنانا چاہا دونوں نے اسے نہیں روکا بلکہ دونوں نے خود اس عمل کا ماحول پیدا کیا اور اس طرح اپنی مرضی کی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ دونوں نے جب چاہا قیوم سے تعلق بنایا اور اس تعلق کے دوران دونوں اچھی طرح جانتی تھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔

یہاں ایک اور بات بھی قاری کو چونکا دیتی ہے کہ قیوم کے گھر سے جانے کے بعد عابدہ اپنی بہن کا رشتہ قیوم کے لئے بھجواتی ہے۔ قاری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ اگر قیوم نے عابدہ پر شب خون مارا ہوتا، یعنی کچھ اس کی مرضی اور رضا مندی کے خلاف کیا ہوتا یا وہ قیوم کے بارے میں نہ جانتی تو شاید صورت حال مختلف ہوتی۔ لیکن شاید اپنے اور قیوم کے جنسی تعلق کو وہ کسی سزا کے لائق نہیں سمجھتی۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: