رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری تاریخ ہو یا آج کل ہمارے سامنے رونما ہونے واقعات کا تسلسل‘ نہ وہ حقائق ہیں اور نہ ان کا ہماری زمین سے کوئی تعلق ہے‘ نہ ہی پہلے کبھی تھا۔ جب حالات بدل جاتے ہیں تو کردار ماضی کے اندھیروں میں اپنا وقت گزار کر ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد آوازیں اٹھنا شروع ہوتی ہیں کہ قوم اور ملک کو انہوں نے بہت نقصان پہنچایا اور چلتے بنے۔ ان کے دور میں تعریفوں کے پل باندھنے والے گماشتے اور خوشامدی اپنی اپنی مرادیں پا کر کونوں میں زندگی گزارتے ہم نے خود دیکھے ہیں۔ وہ لوگ جو سامنے کھڑے ہو کر اور اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق کبھی بول کر‘ کبھی کچھ لکھ کر‘ اشاروں کنایوں میں مزاحمت کا عَلم بلند رکھتے ہیں‘ صرف وہی تاریخ میں سرخرو ہوئے ہیں۔ درباری لوگوں کا کام دربار کے لیے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے خطے کی تاریخ میں بادشاہوں‘ انگریز سامراجوں اور آزادی کے بعد کے ٹولوں میں ”زمینی حقائق‘‘ تراشنے اور اپنی حمایت میں بیانیے بنانے والوں کی کبھی کمی نہ تھی۔ غلامی ہماری روایات میں اتنی رَچ بس چکی ہے کہ آج کل ایک ڈھونڈو تو ہزار غلام ملتے ہیں۔ آزاد سوچ رکھنے والے مفکر‘ دانشور‘ صحافی اور مصنف تو اب کسی کو گوارا نہیں۔ طاقت کے سرچشموں نے انہیں خطرناک خیال کرتے ہوئے کناروں پر رکھا ہوا ہے کہ وہ غیرضروری پریشانی نہ پیدا کرتے رہیں۔ اختلاف و تنقید کچھ زمانوں میں تو ناقابلِ معافی جرم رہا ہے۔ ہمارے تہذیبی اور قومی زوال کی داستان بہت طویل اور الجھی ہوئی ہے مگر ایک انتہائی کلیدی کردار‘ اختلاف کو دشمنی کے مترادف سمجھ کر دبانے کی جابرانہ روایت ہے جس کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ اختلاف آپ کو آئینہ دکھاتا ہے‘ تصویر کا دوسرا رُخ بھی اور اکثر زمینی حقائق آپ کے سامنے رکھے جاتے ہیں جنہیں بصورت دیگر خوشامدی ٹولے خوش نما لبادوں میں چھپا کر رکھتے ہیں۔
مغربی جمہوریت میں نہ صرف یہ جائز ہے بلکہ تعلیمی نظام میں تنقیدی رویوں کو نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ شک اور سوال کے بغیر کسی پر کوئی حقیقت نہیں کھلتی۔ سوائے اس کے جو تراش خراش کر شاہوں کے مصاحب آپ کو پیش کریں اور آپ آنکھ بند کرکے اس پر یقین کرتے جائیں۔ علمی میدان میں تحقیق‘ جستجو اور فکرِ تازہ ممکن ہی نہیں جب آپ اپنا سوال اختلاف سے نہ شروع کریں۔ یہ گنجائش سیاسی نظام پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے مکالمے قومی دھارے میں چلتے ہیں‘ ہمیشہ بڑوں سے‘ بڑوں کی سیاست اور مفادات کے تابع بیانوں کا رُخ موڑنا کوئی مشکل کام کبھی نہیں رہا۔ تابع داروں کی جب کمی نہ ہو اور وہ ہر طرف سے ایک ہی زبان و کلام‘ فقط کچھ لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ دن رات عوام کو ایک ہی قسم کے زمینی حقائق پیش کرتے رہیں تو خیال کیا جاتا ہے کہ کام بن گیا۔ ہم نے تو بارہا دیکھا ہے کہ ایسا کام وقتی طور پر جبر کی فضا میں ہوتا دکھائی تو دیتا ہے مگر زبانیں خاموش ہوں تو مزاحمت آنکھوں اور خاموشی میں بھی اُبل کر باہر آرہی ہوتی ہے۔ یہ وہ سیلِ رواں ہے جس کے آگے بند باندھنا ممکن نہیں۔ یہ دھارا اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور پھر خس و خاشاک کو بہا لے جاتا ہے۔ جس تیز رفتاری سے مقدمات نمٹا کر راستے ہموار کیے جا رہے ہیں یہ نئے زمینی حقائق ہیں‘ ان کا دفاع کرنے والوں کی باتیں سن کر کبھی ہنسی اور اکثر دکھ ہوتا ہے کہ کلام‘ زبان اور انصاف کے اب کیا معیار رہ گئے ہیں۔ تاویلوں کی پہلے کمی تھی اور نہ اب ہے۔ بلکہ زمانۂ قدیم سے درباری شعرا اور ہر کارے یہی کچھ کرتے رہے ہیں۔
خود ساختہ زمینی حقائق اور ان کے پھیلاؤ کے پیچھے دو گھسے پٹے مفروضے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایک ہی بات بار بار کئی زاویوں اور سب چینلوں سے دہراتے رہیں تو لوگوں کو یقین آجائے گا کہ سچ تو یہی ہے۔ اس کے ساتھ ہمیشہ ہم نے یہ کوشش دیکھی ہے کہ اس کے برعکس کوئی بات نہ ہونے پائے۔ لیکن آزادیٔ تقریر و تحریرکا بھرم رکھنے کے لیے خفیف آوازیں اٹھتی رہیں تو کوئی حرج نہیں۔ وہ خود ہی سرکاری سچائی کے بوجھ کے نیچے دم توڑ جائیں گی۔ دوسرا مفروضہ ہے کہ عوام بے وقوف ہیں۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں۔ یہ گھسے پٹے مفروضے اس لیے ہیں کہ ان کے پاس یہی صدیوں پرانے حربے ہیں اور اگرچہ عوام کی اکثریت دیہات میں رہتی ہے لیکن اس کے باوجود سرکاری گماشتوں سے کہیں زیادہ زمینی حقائق کا ادراک رکھتی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام میں شعور ہوتا تو پھر موروثیوں کو بار بار ووٹ کیوں ڈالتے۔ ایسے سوال بھی موروثیوں کی ساکھ کو قائم رکھنے کے لیے کیے جاتے ہیں‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ خود زمینی حقائق میں سے ہیں اور لوگوں کے نزدیک ان سے بہتر کوئی نمائندہ نہیں ہو سکتا اور وہ میدانِ انتخاب میں اُتر کر عوام کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔
آج کل اگر کوئی بڑی بات اور بیانیہ میڈیا پر چل رہا ہے تو یہی کچھ ہے کہ معاف کریں‘ لوگوں کو موقع تو دیں‘ ان جماعتوں کو بھی جن کے رہنماؤں کے خلاف سینکڑوں مقدمات ہیں تو پھر آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اصل زمینی حقائق کیا ہیں۔ ہر کارے کیا پیش کر رہے ہیں‘ وہ کچھ اور ہے اور حقیقت کیا ہے‘ یہ سب جانتے ہیں۔ جس کے بارے میں ہم زیادہ بات نہیں کر سکتے۔ کہیں ہم عوام کو آزاد کراتے کراتے اس جرم کی پاداش میں خود اپنی آزادی سے محروم نہ ہو جائیں۔ چلو اس مسئلے کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔
ہم مانتے ہیں کہ استحکام و ترقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ ملک میں سکون‘ اطمینان‘ امن اور سلامتی کی فضا ہو تو سرمایہ کاری ہوگی اور بے روزگاری ختم ہوگی۔ اگر ہم گزشتہ نصف صدی کی اندرونی سیاسی رسہ کشی اور اقتدار کی کشمکش کو دیکھیں تو آپ کے سامنے حکمران طبقوں کے سب کرداروں کے چہرے آئیں گے۔ وہی تو ہیں جو ایک نئی صف بندی کے لیے نیب کے واشنگ پاؤڈر کے ساتھ دھل دھلا کر قوم پر مسلط ہونے جا رہے ہیں۔ اپنے ہی بندے سب اداروں میں بیٹھے ہوں تو کیوں کیسز واپس نہیں ہوں گے‘ اور کہیں کسی عدالت نے زور لگانے کی کوشش کی تو شواہد‘ گواہ کہاں سے آئیں گے؟ کیسوں کی پیروی کون کرے گا؟ معلوم ہوتا ہے کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں‘ اب قانون اور انصاف کی توپوں کا رُخ کسی اور طرف ہے۔ صرف اتنی گزارش مقصود ہے کہ استحکام اور ترقی ایک مربوط‘ منظم اور آئینی جمہوریت کے سوا آج کے دور میں کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔ کچھ بادشاہی اور ایک پارٹی نظاموں میں جو آپ کو استحکام نظر آتا ہے‘ وہ ہمارے ہاں اب ممکن نہیں رہا۔ ہماری ساخت جن تاریخی عوامل اور اپنی سیاسی زندگی کے سفر میں مرتب ہوئی ہے‘ ہم ایک درمیانی درجے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ نہ مکمل جمہوریت اور نامکمل آمریت۔ اصل میں یہ وہ بے یقینی کی کیفیت ہے جس سے ملک میں عدم استحکام بار بار آتا رہا ہے اور زمینی حقائق کچھ منظور نظروں اور موروثیوں کے حق میں تیار کیے جاتے رہے ہیں۔ دائروں کے اس سفر میں کسی منزل کا تعین کرنا اور کسی سمت میں کوئی فاصلہ طے کرنا پھر کیوں کر ممکن ہو سکے گا۔ آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ رہ گیا ہے: آئین‘ جمہوریت اور عوام کی حاکمیت کا مگر نگرانوں کے اس زمانے میں یہ کوئی ترجیح نہیں ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر