رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آ گیا ہے‘ بلکہ یہ ایک پہلے فیصلے کو حتمی انجام تک پہنچانے کا تسلسل ہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے پہلا ضروری کام تو ان کا تعین ہے۔ ہماری بھی عجیب و غریب کیفیت ہے۔ سب کو سب کچھ معلوم بھی ہوتا ہے‘ لیکن کوئی کچھ کہتا بھی نہیں۔ ایک جماعت لاہور سے نکل کر ایک بڑی قومی شاہراہ کے ہر بڑے شہر میں پڑاؤ ڈالتے ہوئے فیض آباد انٹر چینج تک پہنچی اور وہاں ڈیرہ جما کر عالمی برادری میں ملک کا ایک غلط تاثر قائم کرتی رہی‘ آخر وہ کون لوگ تھے جن کی اسے معاونت حاصل تھی۔ ویسے یہ کوئی معمہ تو نہیں مگر کیا کریں‘ ہم لوگ پتا نہیں کیوں خاموشی سادھ لیتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کی عدالت نے البتہ اس حوالے سے لب کشائی کی راہ ہموار کردی ہے۔ آگے چل کر مزید اس پر بات کرتے ہیں‘ مگر آپ کی یاد دہانی کے لیے اتنا کہتا چلوں کہ دھرنے کے لیے پہلے بھی کئی جماعتوں کو آزمایا جا چکا تھا‘ مگر اس جماعت کا انتخاب خوب تھا۔ بالکل نئی‘ اگرچہ اس کی زبان و کلام کی نزاکتوں‘ قوتِ ابلاغ کی وسعت اور تہذیب و شائستگی کے مزاج سے لوگ کہتے ہیں کہ وہ واقف تھے۔ ہم نے چونکہ ایسی جماعتوں اور تحریکوں سے ہمیشہ ایک فاصلہ رکھا ہے‘ ہمیں ان کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں۔ بس یہ کہ لوگوں کے جم غفیر ایک زمانے میں تو وہ اکٹھے کر لیتے تھے۔ اُس وقت ایک منتخب حکومت تھی۔ میاں نواز شریف نااہل قرار دیے جا چکے تھے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب وزارتِ عظمیٰ سنبھالے ہوئے تھے اور احسن اقبال کے پاس وزارتِ داخلہ کا قلم دان تھا۔ کچھ اخبار نویس سوال اٹھاتے کہ آخر اتنا بڑا مجمع لاہور سے اسلام آباد کی طرف نکلا تو راستے میں کہیں اسے کیوں نہ روکا گیا۔ جس فارم کی زبان پر اعتراض تھا‘ وہ تو درست کر دیا گیا تھا اور ان کے مطالبے کے مطابق وزیر قانون کو حکومت نے برطرف بھی کر دیا تھا تو پھر شہر شہر احتجاجی مظاہروں کا مقصد کیا تھا؟ صحافی سوال اٹھاتے لیکن پھر خاموشی سادھ لیتے۔
ہمارے دل میں تب بھی سوالات اٹھتے کہ آخر عوام کی تائید سے بننے والی حکومت ایک مجمع کو راستے میں کیوں نہ روک پائی؟ مگر ہم بھی خاموش ہو جاتے کہ بعض اوقات پرانے سیانوں کی باتوں پر کان دھرنا اپنی کھال بچانے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے کام سے کام رکھو۔ دوسروں کے معاملات سے کیا سروکار؟ دل میں کسک تو ضرور رہتی کہ یہ کیسی حکومت ہے کہ کچھ لوگوں نے دو اہم ترین شہروں کو مفلوج اور عوام کو پریشان کررکھا ہے‘ مگر کوئی کچھ کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتا تھا۔ سوال عوام بھی اٹھاتے کہ اگر ریاست کو ایک گروہ آکر مفلوج کردے تو باقی گروہوں کو شہ کیوں نہیں ملے گی؟ ہمارے ہاں دھرنوں کی سیاست تو بہت پرانی ہے اور پاکستان کی شاید ہی کوئی جماعت اب رہ گئی ہو جس نے اسلام آباد میں دھرنا نہیں دیا‘ مگر فیض آباد دھرنا بہت مختلف نظر آتا تھا۔ اس کا رنگ ڈھنگ بظاہر زیادہ سیاسی نہیں تھا مگر اس کے پیچھے گہری سیاست کے سب نئے اور پرانے ہتھیار استعمال ہو رہے تھے۔ حکومت کی بے بسی پر ترس آتا تھا۔ کچھ وہ میڈیا میں آکر زیادہ بات بھی کرنے سے احتراز کر رہے تھے کہ طاقتوروں کے ساتھ اُن کے تعلقات کہیں زیادہ نہ بگڑ جائیں۔ انہیں تب سب کچھ معلوم تھا مگر ٹکراؤ سے بچنے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے کھل کر بات کرنا نہیں چاہتے تھے۔ دنیا ہمارے ملک کے بارے میں اس وقت اخباروں‘ رسالوں اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر جو منظر کشی کر رہی تھی اس کی دھرنے والوں کے ذہن میں کوئی اہمیت نہیں تھی۔ معاشرے میں انتہا پسندی کے تصورات کوئی نئی بات تو نہیں تھی مگر فیض آباد دھرنے نے اس میں خوب رنگ بھرا۔ اگر یاد نہیں‘ تو یہ ڈرامہ افغانستان میں جنگ کے سائے اور مغربی دنیا کے پاکستان پر دباؤ کہ ہم طالبان کی خفیہ امداد تعاون اور پناہ گاہیں ختم کریں‘ کے پیش نظر ہورہا تھا۔ لگتا یونہی ہے کہ اس ملک اور اس کے عوام کے مستقبل کے بارے میں ہمارے حکمران طبقات کو کوئی سروکار نہیں۔ اگر ہے تو صرف اپنی سیاست اور مراعات کی جنگ اور شخصی اہمیت سے ہے ۔
سوچیں ذرا فیض آباد دھرنے سے کون سے ملک کے مفادات کا تحفظ ہو رہا تھا؟ اس سے قبل طاہر القادری صاحب کے دو دھرنے اور عمران خان صاحب کا طویل دھرنا بھی پارلیمان کے عین سامنے ہم دیکھ چکے تھے۔ تاریخ بڑی ظالم ہے مگر یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ فریب کاری‘ جھوٹ اور ریاکاری کے سب راز آہستہ آہستہ کھولتی رہتی ہے۔ اکثر دھرنوں میں کچھ ہاتھوں کی صفائی کے اثرات لوگوں کو نظر آتے ہیں مگر ایسے معاملوں میں ہماری بینائی پہلے ہی کمزور ہے۔ ہمیں کچھ نظر نہیں آتا۔ جو اس دن دیکھا اس کا حال یہ درویش آپ کو بتا سکتا ہے ‘ آخر کار جس دن اسلام آباد کی حکومت جوش میں آئی اور پولیس نے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے کارروائی شروع کی‘ اس خیال سے کہ پولیس قوتِ ارادہ سے لیس ہو تو کون اس کے سامنے ٹھہر سکتا ہے۔ ہم اپنے دیہاتی جنگل کی طرف چل پڑے۔ اس طرف باہر نکلنے کے راستوں پر مقامی لوگ نظر آتے تھے۔ آگے جانے سے روک دیا۔ راستہ بند کر رکھا تھا۔ راستہ بدل کر کسی اور راستے سے جانے کی کوشش کی۔ وہاں بھی سڑک بند ملی۔ اگرکسی نے سوال کیا کہ آپ کیا کر رہے ہیں تو اس پر تشدد ہوتے دیکھا۔ بمشکل جان اور گاڑی بچا کر شہر کی طرف واپس آنے میں کامیاب ہوئے۔ اور پھر ایک دن ہم نے لفافے تقسیم ہوتے دیکھے اور خوشی خوشی دھرنا ختم ہو گیا۔
اس وقت معاملہ کسی نے اٹھایا تو فیصلہ آ چکا تھا کہ ذمہ داروں کا تعین کیا جائے۔ قاضی صاحب نے ہی وہ فیصلہ لکھا تھا مگر سب عدالت میں ریویو کے لیے چلے گئے کہ فیصلہ بدلا جائے۔ اب حالات بدل گئے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ہر ایک درخواست گزار ادارے نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔ اب کمیشن بن چکا ہے‘ اس کے سامنے جو سوال رکھے گئے ہیں اور جو دائرہ کار کا احاطہ بنایا گیا ہے‘ ذمہ داروں کا تعین کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا۔ کچھ لوگوں کا وہی پرانا خیال کہ جو کچھ ہو چکا اس کو بھول جائیں‘ آگے کی سوچیں۔ میرے خیال میں یہ سوچنا بہت بوسیدہ ہے کہ اس پر فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ آگے کا راستہ صرف اسی صورت بن سکتا ہے جب ان کرداروں کا تعین اور احتساب کریں جو ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرتے رہے ہیں۔ احتساب اور قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بتائے کہ کون سا معاشرہ اور ریاست آج تک سدھری ہے۔ فیض آباد کا دھرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا کہ اس پر ہمیشہ کے لیے راز داری کی چادر ڈال کر تاریخ کے کونوں میں دفن کردیا جائے۔ اس سے وہی ہوگا جو ہوتا آیا ہے۔ کمیشن ماضی میں بھی بنے تھے۔ سب دستاویزات‘ حقائق اور وہ کردار ہمارے سامنے ہیں۔ شاید ہم قومی المیوں سے بچ سکتے ہیں اگر ہم ہر معاملے میں ذمہ داروں کا تعین کر کے آئین اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کوئی کارروائی کر پائیں۔ ہو سکتا ہے کہ 60دن بعد جب کمیشن کی رپورٹ آئے تو ہم اس واقعے کے اصلی کرداروں کو پہچان پائیں۔ دیکھیں اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔ ہمارے خواب اور امیدیں تو ہمیشہ کی طرح زندہ ہیں کہ یومِ احتساب ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر