رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب نے جب گزشتہ ہفتے ہماری جامعہ کی عزت افزائی کی تو معلوم نہیں کہ ہم کہاں تھے۔ ایک بات یاد ہے کہ ہم سامعین میں سے نہیں تھے۔ اس سے پہلے جب پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب تشریف لائے تھے تب بھی ہم ان کی طویل‘ جامع اور سحر انگیز گفتگو سے محروم رہے تھے۔ کسی زمانے میں ایک ابھرتے ہوئے سیاسی رہنما کو دو دفعہ جامعہ میں طلبہ اور اساتذہ سے خطاب کرنے کی خود دعوت دی تھی تو آداب کا تقاضا تھا کہ میں ان کے ساتھ بیٹھوں اور خوش آمدید کہوں۔ کچھ سال پہلے ہمارے ہی ادارے کے شیخ احمد حسن سکول آف لا نے بلاول بھٹو زرداری صاحب کو خطاب کی دعوت دی تو ہم موجود تھے۔ بہرحال کچھ معلوم اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر کاکڑ صاحب‘ جن سے میں وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے مل چکا ہوں‘ سے مستفیض ہونے کا موقع نہ مل سکا۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ جامعہ میں خصوصاً طلبا سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اساتذہ کے وہاں جانے کے لیے کوئی پابندی نہیں۔ ہم نے سوچا کہ یہ موقع انہیں دیا جائے اور وہ اپنے دل کی باتیں نئی نسل سے کر لیں۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ مسرت ہے کہ انہوں نے لمز کا انتخاب کیا‘ ورنہ سرکاری اور نجی جامعات کی کوئی کمی نہیں۔ جہاں بھی جاتے یا اب جائیں گے‘ بحیثیت وزیراعظم ان کا استقبال کیا جائے گا۔
جب طلبا کی طرف سے اٹھائے گئے سوالوں کے بارے میں بحث چھڑی تو سوچا کچھ وقت گزرے۔ گرد بیٹھ جائے تو پھر قلم اٹھائیں۔ تقریب ختم ہوتے ہی تین پہلے سوالوں کی تصویری پٹی اپنے ہی ایک ہمکار نے ہمارے فون کے کھاتے میں بھیج دی۔ ساتھ تبصرہ بھی تھا کہ ان سوالوں کا معیار وہ نہیں جس کی ہمیں توقع رکھنی چاہیے۔ میرا بھی خیال یہی ہے کہ سوال کرنے کا انداز اور طرزِ گفتگو اور الفاظ کا انتخاب بہت کھردرا تھا۔ کچھ سوال آپ کہہ سکتے ہیں کہ بے محل اور بے موقع تھے۔ ملک اور خطے کی صورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذہن میں کئی سوال اٹھتے ہیں جو اس نشست میں کیے جا سکتے تھے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ پہ درست ہیں۔ ایک بات اور عرض کر دوں کہ مکالمے میں‘ خصوصاً علمی ماحول میں کسی کی جیت اور کسی کی شکست تصور کرنا اپنی جنگجویانہ سیاست کو معیار بنا کر پرکھنے کے سوا کچھ نہیں۔ اس کا عکس ہم روزانہ سکرینوں پر لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کی بے عزتی کرتے سیاسی نمائندوں کے درمیان دیکھتے ہیں۔ بات تو وہاں ختم ہو جانی چاہیے تھی کہ وزیراعظم صاحب تشریف لائے‘ کچھ طلبہ نے سوالات کیے‘ انہوں نے جوابات دیے اور چلے گئے۔
پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس پہ بحث کیوں چھڑ گئی؟ اس کا تعلق ہمارے سیاسی ماحول سے ہے۔ بہت کچھ ان صفحات پر لکھ چکے ہیں‘ دہرانے کی ضرورت نہیں۔ مسئلہ جائز اور ناجائز ہونے کا‘ اقتدار کے مرکز کا‘ اختیار اور بے اختیار ہونے کا ہے۔ چہروں‘ مہروں اور انہیں کنٹرول کرنے کا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے‘ جن کے حق میں ہے‘ وہ نعرے لگا رہے ہیں‘ خوش ہیں۔ لاہور کا دربار دوبارہ کھل چکا ہے۔ دوسرا بڑا دربار تو کبھی بند ہی نہیں ہوا تھا۔ یہاں ملک و قوم اور عوام کی کون سوچتا ہے۔ ہمارے وہ سیاست دان جو دوسروں کو اپنے راستے سے ہٹا کر‘ مقدمات میں گھیر کر اگلی جیت کے افسانے تراش رہے ہیں‘ ان سے گزارش ہے کہ یہ نوجوان اور عام لوگ اس ملک میں باریوں کی پرانی سیاست کے ماہرین کی واپسی کو اب مختلف تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ نگرانوں کی صورت جو لوگ کرسیاں سنبھالے ہوئے ہیں‘ ان کے بارے میں کسی کو کیا خوش فہمی ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ آپ نے لمز کے طلبا کے چند سوالوں میں دیکھا۔ پکڑ دھکڑ اور انتخابی میدان کی ہمواری صرف اگلے نگرانوں کے لیے کی جا رہی ہو تو لہجے کی تلخی پر کیسے قابو پا یا جا سکتا تھا؟ مانتا ہوں کہ سوالوں کا معیار علمی نہیں تھا‘ مگر وہاں کون سا علمی ماحول تھا؟ بالکل سیاسی تھا۔ ہم تو اُن سوالوں کو نوجوانوں کی نفسیاتی‘ سماجی اور ان کے سیاسی ادراک کی روشنی میں دیکھ رہے ہیں۔ ذرا گہرا تجزیہ کریں تو وہ ناراض نظر آتے ہیں۔ نگرانی کا جونظام قائم ہے‘ اس پر اعتماد نہیں۔ جنہیں عہدے اور بڑی کرسیاں مل رہی ہیں‘ ان پر اعتماد نہیں۔ بات صرف نگران وزیراعظم صاحب کی نہیں کہ انہیں کچھ سخت اور ترش سوالوں کا سامنا کرنا پڑا‘ بات پورے نظام کی ہے۔ قومی محرومیوں اور اس بڑھتے ہوئے شدید احساس کی ہے کہ دنیا آگے نکل گئی اور ہمیں حکمرانوں کی ذاتی مفاد کی سیاست اور شخصی اور سرپرستانہ طرزِ حکمرانی نے بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ آپ سوالوں کی روح کو دیکھیں یا اندازِ گفتگو کو‘ دونوں میں ہمارے طلبا اور طالبات ہمارے اکابرین کو بہت کچھ کہہ گئے ہیں۔ اور کہا کیا ہے‘ یہی کہ جناب ہمیں وقت پر پہنچنے کا کہا گیا‘ دروازے بھی بند کر دیے گئے اور وزیراعظم صاحب چند منٹ نہیں پورا ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے تشریف لائے۔ ایسی صورت میں بیچارے منتظمین اور کیا کر سکتے تھے۔ اس عہدے کی عزت کے حوالے سے میزبانی کے فرائض میں تھا کہ سب کو خاموش بیٹھ کر انتظار کرنے کا کہتے۔ یہ جو ہمارا مشرقی کلچر ہے کہ کبھی کسی تقریب میں وقت پر نہیں آنا‘ لوگوں کو انتظار کرا کے اپنی اہمیت کا لوہا منوانا ہے‘ ہم یا ہمارے طلبہ ہرگز پسند نہیں کرتے۔ اس درویش کا اصول صرف 15منٹ کا ہے۔ کوئی وقت پر نہیں آیا تو ہم دوسرے کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
اس دن میں سوچ رہا تھا کہ وزیراعظم صاحب نے کابینہ کی میٹنگ رکھی ہوئی ہے اور چار بجے لاہور لمز میں بھی پہنچنا ہے۔ اگر کوئی تاخیر ہو بھی گئی تھی تو اطلاع دینے میں کتنا وقت درکار ہو گا کہ جامعہ میں اعلان ہو جاتا کہ انتظار کرنا پڑے گا۔ یہ سوال درست تھا کہ اگر آپ وقت پر نہیں آتے‘ انتظار کراتے ہیں تو آپ کے نزدیک اپنے سامعین کی کیا عزت اور توقیر رہ جاتی ہے؟ سوال پر تو داد بنتی ہے۔ ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے اور آپ کے پاس صرف 90دن ہیں‘ نگران ہیں‘ تو اس مکالمے کی کیا ضرورت تھی؟ ہو سکتا ہے کہ کاکڑ صاحب کا پروگرام طویل ہو جائے اور ان کے کندھوں پر جو ذمہ داری کا بوجھ ہے‘ وہ کچھ مزید سال یہ زحمت اٹھاتے رہیں۔ حکمرانوں کی ترجیحات کے بارے میں سوال کرنا بدتمیزی نہیں خیال کی جانی چاہیے۔ مقصود تو یہ تھا کہ آپ کو جو کام کرنے ہیں‘ ان پہ توجہ دے رہے ہیں‘ اتنے مسائل ہیں‘ آپ کو یہاں آنے کا وقت کیسے مل گیا؟ بلوچستان میں ترقی اور 90دن کے اندر انتخابات کی آئینی شق۔کوئی حکمران کہیں بھی جائے‘ لوگ ضرور سوال کریں گے۔ یہ کوئی جواب نہیں تھا کہ ا نتخابات تو الیکشن کمیشن کراتا ہے‘ میرا اس سے کوئی سروکار نہیں۔ ا گر الیکشن کمیشن عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرے تو اس پر کارروائی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے یا عدلیہ کی؟ سب کو معلوم ہے کہ آئین شکنی کھل کر ہوتی ہے‘ سب اس سے جان چھڑا کر بھاگنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ اگر آپ عوام اور خاص طور پر نوجوانوں کے پاس جائیں گے توجو اُن کے دل میں ہے‘ منہ پر آ ہی جائے گا۔ امید ہے کہ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ صاحب کا نوجوانوں کے ساتھ مکالموں کا سلسلہ لمز کے بعد دیگر جامعات میں بھی ہوگا اور دوبارہ بھی ہمارے پاس تشریف لائیں گے۔ مجھے خود ان کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا تو سب سوال مرضی کے ہی ہوں گے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر