دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"بندوق، مکالمہ، جدوجہد اور جمہوریت ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے 25کروڑ شہریوں کی طرح میں بھی اسی سماج میں جیتا بستا آرہا ہوں۔ دوست ہیں اور عزیز بھی ، خونی و نسبتی رشتوں سے بندھے رشتے اور کچھ ہم خیال بھی۔ ہمارے چار اور جو ہورہا ہوتا سب آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور آوازیں سماعتوں پر دستک بھی دیتی ہیں۔ میرے ان سارے تعلق داروں کی طرح خود میری بھی پسندوناپسند ہے۔ اور یہ ہر معاملے میں ہوتی ہے

مثلاً لگ بھگ 40 برسوں سے میں کالر اور کف والی قمیض نہیں پہنتا بین کالر اور کرتے کے کُھلے بازوئوں کی طرح بازوئوں والی قمیص پسند ہے۔ 65 سال کے سفر حیات میں 40 برس تک سبزیوں کے ذائقے سے ناآشنا تھا۔ دالیں، چاول ور گوشت مرغوب رہے پھر سبزیاں کھانا شروع کیں اب بھی کچھ سبزیاں نہیں کھاتا۔ وہ بھی جسے کھانے سے انکار پر سر تن سے جدا کا نعرہ لگتا ہے۔ ہر دہن اپنے ذائقہ کا پابند ہے۔

ایک وقت تھا میں اتوار کے روز کم و بیش تین مختلف سینمائوں پر فلمیں د یکھتا تھا پھر ایک مہربان بزرگ کی بدولت فلم بینی کی جگہ کتاب بینی شروع ہوگئی اب برسوں سے کتابیں پڑھتا ہوں۔ انٹرنیٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کبھی کبھار جی بہلانے کو فلم دیکھ لیتا ہوں۔ گزرے برسوں میں ارشاد امین سمیت میرے بہت سارے دوست مجھے فیشن شاہ کہہ کر بلاتے تھے۔ وجہ یہ رہی کہ میں ہر ماہ تنخواہ وصول کرنے کے بعد ایک جوڑا کپڑا خرید کر درزی کو سلائی کے لئے دے دیتا ایک دو کتب خرید لیتا ۔

بین الاضلاعی سفر میں دونشستیں لے کر سفر کرتا تھا تب ایک معروف ’’دانشور‘‘ نے اپنے بالکے کے نام سے میرے خلاف مضمون بھی لکھا کہ ” شاہ بڑا متکبر ہے غریب آدمی کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتا ” ۔

ایک وقت تک مجھے دوست، کتاب اور مکالمہ بہت پسند تھے اب بھی ہیں لیکن پسندیدگی کی ترتیب میں بیٹیاں پہلے نمبر پر آگئیں۔آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اب مجھے بیٹیاں، دوست ، کتاب اور مکالمہ پسند ہیں۔

میرے شہید والد بزرگوار جماعت اسلامی میں رہے۔ عجیب بات ہے کہ میں جماعت اسلامی کا جماندرو مخالف ہوں۔ بزرگوں اور پرکھوں کے مذہبی عقائد سے بھی میرا کبھی کوئی تعلق نہیں رہا جو ہے سب اپنا ہے درست ہے یا غلط مجھے اس پر پشیمانی نہیں۔ نصف صدی سے کچھ ماہ و سال اوپر ہوگئے قلم مزدوری کرتے ہوئے روزی روٹی کا ذریعہ اب بھی قلم مزدوری ہے۔

کسی منافقت کے بغیر ہمیشہ ان سطورمیں عرض کیا میں پیپلزپارٹی اے این پی اور قوم پرستوں خصوصاً سرائیکی قوم پرستوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ گوشت پوست کا انسان اپنے سماج، موسموں اور زندگی کے نشیب و فراز سے کٹ کر نہیں جی سکتا۔

میں شعوری طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ملک جو بٹوارے کی صورت میں معرض وجود میں آیا ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔ سکیورٹی سٹیٹ میں جو بچی کھچی سیاست ہوتی ہے یہ ا صل میں طبقاتی نظام کے تحفظ کے لئے ہوتی ہے۔

سیاسی جماعتوں میں سے کچھ اس طبقاتی نظام کی ساجھے دار ہوتی ہیں کچھ طبقاتی نظام میں سے عوامی جمہوریت کی منزل کے لئے راستہ تلاش کرنے کے ساتھ زمین ہموار کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں بندوق اٹھاکر مورچہ زن نہیں ہوتیں وہ پارلیمنٹ کے آئینی مورچہ کی حفاظت کرتی ہیں تاکہ اس منزل کی طرف بڑھا جاسکے جو عوام کے حق حکمرانی کو دوام دے۔

سواتین عشرے پہلے جب روزنامہ ’’مشرق‘‘ لاہور میں معاون اداریہ نویس کے طور پر قلم مزدوری کرتا تھا تو ایک دن استاد محترم سید عالی رضوی مرحوم سے بے پناہ ڈانٹ پڑی مجھے یاد ہے کہ میں باقاعدہ رونے لگ گیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ عالی صاحب جیسا وضعدار استاد اتنی کرختگی سے کلاس لے گا۔

وہ (عالی صاحب) اس بات پر بگڑے ہوئے تھے کہ میں اپنے کالموں میں تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کو ’’آنجہانی‘‘ لکھتا ہوں ان کے ایک دو بار منع کرنے پر بھی باز نہ آیا تو ایک دن انہوں نے خوب کلاس لی اور کہا ’’شاہ جی مجلس حسینؑ نہیں پڑھنی کہ اہلیبیتؑ کے مخالفوں کو جو مرضی کہہ دو مجمع داد دے گا۔ کالم نویسی کرنی ہے الفاظ کے چنائو میں احتیاط آپ کے نسب، تعلیم مطالعہ والدین اور اساتذہ کی تربیت کی زندہ گواہی ہیں‘‘۔

استاد مکرم کی بات گرہ سے باندھ لی قلم مزدوری کی حد تک بہرحال میں اساتذہ کی تربیت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

بالائی سطور میں عرض کرچکا کہ پیپلزپارٹی، اے این پی اور قوم پرستوں خصوصاً سرائیکی قوم پرستوں کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں گاہے ان پر تنقید بھی کرتا ہوں کیونکہ ان کا سیاسی مزارعہ نہیں ہوں۔

اسی طرح سیاسی عمل کے اتارچڑھائو اور اس سے بندھے معاملات کو اپنی فہم کی آنکھ سے دیکھنے سمجھنے کی کوشش کرکے رائے بناتا اور عرض کرتا ہوں۔ کسی معاملے پر پیپلزپارٹی، اے این پی اور سرائیکی قوم پرست جو رائے رکھتے ہوں ضروری نہیں لکیر کے فقیر کی طرح اس کی پیروی و حمایت کی جائے۔

ان سطور میں ہمیشہ عرض کیا سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے تحمل و تدبر برداشت اور مکالمہ ازحد ضروری ہیں۔ آپ ماضی و حال کے ماہ و سال میں عدم برداشت اور ہم ہی ہم ہیں باقی چھان بوراہے کی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے سیاسی عمل اور طبقاتی نظام کے کوچے سے عوامی جمہوریت کے لئے راستہ تلاش کرنے کی جدوجہد کو پہنچے نقصان کا بغور تجزیہ کیجئے۔

میری دیانتدارانہ رائے یہی ہے کہ اس ملک کے سیاسی عمل میں موجود نفرتوں، عدم برداشت اور دوسری بہت ساری خرابیوں کو پروان چڑھانے کی ذمہ دار سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہے۔

مقصد اس کا یہ تھا کہ بری بھلی سیاسی جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے گریبانوں سے الجھتے رہیں اور ان کے خودساختہ حق ملکیت کو کوئی چیلنج نہ کرے بلکہ انہیں ناگزیر ضرورت سمجھا جائے۔

اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد میں کتنی کامیاب اور ناکام رہی حساب کتاب سب ہمارے اور آپ کے سامنے ہے۔ دو ہزار پانچ اور دو ہزار چھ میں جب مختلف یونیورسٹیوں سے محب وطن طلبا کا انتخاب کرکے انہیں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں حب الوطنی کی ’’مزید تربیت‘‘ دی جارہی تھی تو میں نے ’’مشرق‘‘ پشاور کے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ

’’ہم الیکٹرانک میڈیا کی ضرورت و اہمیت کو مان چکے ہیں نجی چینلز کے لئے اجازت دینے کے مراحل طے ہورہے ہیں اور یہ چینلز اپنے ناظرین کی شعوری رہنمائی کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کا سودا بیچیں گے کہ سارے سیاستدان چور ہیں۔ فوج ملک کا آخری سہارا ہے”

تب میری رائے پر بہت سارے دوستوں نے اعتراض کیا لیکن بعد کے برسوں میں عملی طور پر یہ ثابت ہوا کہ نجی چینلز کی اجازت سکیورٹی سٹیٹ کے طویل المدتی منصوبے کا حصہ تھی ان چینلز کی سکرینوں سے ہر شخص کی پگڑی اچھالی گئی ہر کس و ناکس کو گالی دی اور دلوائی گئی فوج کے ریٹائر افسران کا پورا لشکر سیاسی تجزیہ کاروں کے روپ میں امنڈ آیا۔

انہی چینلز کے ذریعے ایک مسیحا و نجات دہندہ کی پروموشن ہوئی جو ہوا وہ ہم سب کے سامنے ہے البت ہم میں سے ہر شخص اپنی پسندوناپسند کا اسیر ہے۔

سادہ لفظوں میں یہاں سب کا اپنا جھوٹ سچ اور ظالم و مظلوم ہیں۔

مثلاً عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو قانونی و جمہوری طریقہ کار سمجھنے کے باوجود ان سطور میں عرض کرتا رہا کہ اگر مزید سوا سال حکومت رہ جائے تو قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ اسٹیبلشمنٹ کو مفوظ راستہ نہ دیں۔

بتایا گیا کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگ 2030ء تک کی حکمرانی کا پروگرام بناچکے ہیں۔ عرض کیا کہ سیاسی جماعتیں ہوتی ہی اس لئے ہیں کہ ایسی طویل المدتی حکمرانی کے خلاف آواز اٹھائیں جو جمہوریت کے منافی ہو۔

اس پر بہت سارے دوست خصوصاً پپلزپارٹی کے دوست ناراض ہوتے تھے لیکن میں اب بھی اس بات پر قائم ہوں کہ پپلزپارٹی کو اس بات پر قوم سے معذرت کرنی چاہیے کہ اس نے اور اس کے اتحادیوں نے اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو محفوظ راستہ دینے والی اتحادی جماعتیں آجکل باہم دست و گریباں ہیں ، ایک دوسرے پر پھبتیاں کسنے، سوقیانہ جملے اچھالنے، بوٹ پالشی کا طعنہ دینے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جارہا ہے۔

میرے نزدیک یہ ایک غیرسیاسی رویہ ہے۔ سیاسی جماعتیں اتحاد بناتی ہیں ہر اتحاد یک نکاتی ایجنڈے پر ہوتا ہے۔ اتحاد ٹوٹتے بھی ہیں، یک نکاتی ایجنڈے کی تکمیل پر غیرضروری بھی ٹھہرتے ہیں لیکن تحمل و برداشت اور سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا جانا ازبس ضروری ہے۔

"شاید کے اتر جائے دوستوں کے دل میں ہماری بات”.

یہ بھی پڑھیں:

About The Author