رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا تدریسی پیشہ ہی ایسا ہے کہ نوجوان نسل کے ساتھ زندگی گزاری ہے اور ابھی تک ان کے درمیان وقت گزرتا ہے ۔ صبح صبح انہیں ہر سمت تیزی سے قدم اٹھاتے‘ کلاسوں میں آتے جاتے دیکھ کر ان کے علم کے شوق‘ آگے بڑھنے کی تڑپ اور کچھ بننے کے خواب کا اندازہ آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ صرف اپنی جامعہ کی بات نہیں کر رہا۔ ہر جگہ سکولوں‘ کالجوں اور ہر نوع کی جامعات میں نئی نسل کا جذبہ اور مسابقت کی دوڑ میں آگے نکلنے کی تگ و دو نظر آتی ہے۔ شہر ہوں یا دیہات‘ سویرے سویرے آپ یہ مناظر ہر سُو دیکھ سکتے ہیں۔ امیر لوگوں کی گاڑیاں شہروں میں ڈرائیور صبح سویرے اپنی موٹر سائیکلوں پر پہنچ کر صاف کر رہے ہوتے ہیں۔ جنہیں گھروں میں رہنے کی سہولت ہے‘ وہ بھی اسی طرح بچوں کو ان کے تعلیمی اداروں میں وقت پر پہنچانے کی فکر میں تیار ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں سے زیادہ شہروں اور دیہات میں تو زیادہ تر موٹر سائیکلوں پر ڈبل سوار طلبا اور والدین کو تیزی سے اپنی منزلوں کی طرف سفر کرتے دیکھتا ہوں۔ خوشی کی بات ہے کہ اب پسماندہ علاقوں تک میں غریبوں کو اپنے بچوں کو پڑھانے کی فکر ہے۔ تعلیم کے فروغ کا زبردست رجحان پیدا ہو چکا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ہر گاؤں‘ شہر اور محلے میں نجی اور انگریزی میڈیم سکولوں کی خاصی تعداد آپ کو نظر آئے گی۔ ان کی فیس سرکاری اداروں سے نسبتاً زیادہ ہوتی ہے مگر غریب افراد کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی میڈیم سکولوں میں پڑھیں۔ جہاں عوام میں تعلیم کے لیے شعور بڑھا ہے‘ وہاں ہم صوبائی حکومتوں کی نااہلی اور وسائل کی تقسیم اور تعلیم میں سرمایہ کاری کی استعداد کو کمزور ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ دیہات میں سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے مگر حکومتیں معقول تعداد میں استاد بھرتی نہیں کر رہیں۔
سرکاری کالجوں اور جامعات میں بھی ہر سال داخلہ لینے کے خواہش مند درخواست گزاروں کی تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ گاؤں کی بچیوں کو جہاں کبھی سکول تک جانے کی اجازت نہیں تھی‘ اب وہ ضلعی جامعات اور کالجوں میں مشکل مالی حالات کے باوجود پڑھنے جاتی ہیں اور بڑھتے ہوئے تعلیمی اخراجات کے باوجود اچھے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سمائے روزانہ گھروں سے نکلتی ہیں۔ کچھ ایسی جامعات بھی ہیں جہاں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کی نسبت زیادہ ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جہاں نئی نسل کی ذہنی صلاحیت اور استعداد ہمارے زمانے کے طلبا سے کہیں بہتر ہے‘ وہاں ہماری سرکاری جامعات کے اساتذہ اب وہ نہیں جنہیں خود پڑھنے اور پڑھانے کا شوق تھا۔ مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں جب سے اعلیٰ درجے کی ڈگریوں کا نجی اور سرکاری جامعات میں ریوڑیوں کی طرح بانٹنے کا رواج چل نکلا ہے‘ علم کی روشنی کم اور دھن دولت کی چمک میں زیادہ اضافہ نظر آتا ہے۔ ایک سرکاری جامعہ کے سلیکشن بورڈ میں چند سال کا ذاتی تجربہ ہوا تو پتہ چلا کہ ہر سمت جعلی پن بھرا پڑا ہے۔ اکثر خواتین و حضرات تو پہلے سے جامعات کی ملازمت پر تھے اور اگلے درجے کے لیے امیدوار تھے۔ ان کی جعلی تحقیق اور جعلی مقالوں کو دیکھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ہر جگہ ایسا ہورہا ہے۔ اور اس کی وجہ اکثر بڑے اداروں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ‘ غفلت اور غیر پیشہ ور افراد کی تعیناتی ہے۔ تجارت اور منافع کی بنیاد پر بنائی گئی جامعات تو اب سینکڑوں میں ہیں مگر بہت کم ایسی ہیں جہاں معیار کا خیال رکھا جاتا ہے اور جہاں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ اساتذہ کو ملازمت دی جاتی ہے۔
ہماری نوجوان نسل اب کہاں جائے کہ تعلیم کا معیار وہ نہیں جو انہیں دنیا سے مسابقت کے لیے درکار ہے۔ کیونکہ اکثر سرکاری اور نجی ادارے اندر سے خالی ہیں۔ صرف شان دار عمارتیں آپ کو نظر آتی ہیں۔ سرکاری جامعات میرے نزدیک نجی جامعات سے کئی درجے اب بھی بہتر ہیں۔ ان کا ماحول‘ سہولتیں‘ تاریخ‘ روایات اور نام اور مقام بھی ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو جب اہل اور ماہر تعلیم کی قیادت نصیب ہوتی ہے تو نالائقوں کا پیدا کردہ بگاڑ ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا ہے کہ ان جامعات میں بھی ایسے مفاد پرست گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو کام کرنے والوں کو ٹکنے نہیں دیتے۔ کچھ جامعات کی تو یہ روایت بن چکی ہے کہ جس طرح ہماری حکومتوں کو پانچ سال مکمل کرنے کی سعادت نصیب نہیں ہوتی‘ اسی طرح اکثر رئیسِ جامعہ کو بھی اپنی مدت پوری کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ سرکاری جامعات میں اس کے باوجود طلبا کا تعلیمی رجحان کسی بھی اچھی یونیورسٹی سے کم نہیں مگر اساتذہ میں وہ لگن اور علمی استعداد دکھائی نہیں دیتی جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ طبقہ اور دیگر غالب طبقات اب اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں یا سرکاری جامعات میں نہیں بھیجتے۔ نجی سکولوں کا نظام شہروں میں زبردست ہے اور ان کی شہرت کی وجہ سے قصبوں میں بھی ان کی شاخیں موجود ہیں مگر معیار غالباً وہ نہیں جو شہروں میں ہے۔ اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ دیہات میں ابھی اس معیار کے اساتذہ جانے کو تیار نہیں جو شہروں میں دستیاب ہیں۔ اس طرح ان معیاری نجی سکولوں سے نکلنے والے بچوں کی منزل سرکاری جامعات ہر گز نہیں۔ وہ اب زیریں متوسط طبقے اور غریبوں کے لیے رہ گئی ہیں۔ اسی لیے تو ان پر کوئی توجہ نہیں اورنہ ہی انہیں وہ وسائل مہیا ہیں جو ہماری وفاقی اور صوبائی سرکاروں کو پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ہفتے ایک تقریب میں شرکت کے سلسلے میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور گیا تو ہمیشہ کی طرح اس علمی میراث کو دیکھ کر جو دل کو خوشی محسوس ہوئی‘ اس کا تذکر ہ نہ کرنا بخیلی ہوگا۔ تقاریر ہو چکیں تو طلبا نے کچھ سوالات کیے۔ ان کا معیار‘ فکری بلندی اور خود اعتمادی دیکھی تو نئی نسل کی صلاحیت اور اپنی قدیم درس گاہوں کی علمی اور ادبی روایات پر اعتبار اور عتماد بڑھا۔ اکثر تعلیمی اداروں کی زبوں حالی‘ غیر معیاری اساتذہ کی بھرتی اور انتظامی بد نظمی کے خلاف شکایت اور احتجاج اسی لیے کرتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل کو بہترین ماحول‘ تعلیم اور اعلیٰ اخلاقی تربیت میسر آئے۔ یہ وہ نسل ہے جس نے ہماری جگہ سنبھالنی ہے۔ اس گئے گزرے زمانے میں اپنی نسل کے لوگوں سے آج کل کی نسل کو ہر لحاظ سے بہتر پاتا ہوں۔ ایک بہت بڑی تعداد ان میں اب بھی ایسی ہے کہ اگر دنیا کی بہترین جامعات میں ہوں تو وہ کسی سے کم نہیں ہوں گے۔ ایسا میں اپنی نصف صدی کی تعلیمی وابستگی کے دوران دیکھتا آیا ہوں۔ اب تو ہزاروں کی تعداد میں اپنی ہی جامعات کے طلبا اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونی ممالک کی طرف جارہے ہیں۔ ہمارے زمانے میں اتنے مواقع تھے اور نہ ہم میں اتنی صلاحیت تھی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اس نوجوان نسل کے لیے کیسا پاکستان بنا رہے ہیں جہاں بدعنوانی‘ اداروں کے زوال‘ انصاف کے دہرے معیار اور کرپٹ حکمران سیاسی گھرانوں کو بار بار صاف ستھرا دکھا کر ہمارے اوپر مسلط کیا جارہا ہے۔ ڈر ہے کہ نئی ہنر مند اور اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل ملک چھوڑ نے کے لیے مجبور رہے گی۔ وہ باہر محنت سے پیسہ بنا کر ملک میں بھجتے ہیں اور حکمران یہاں سے پیسہ بنا کر باہر بھیجتے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر