مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ویجائنا کا چھوٹا آپریشن، بڑا کیسے ہو گیا؟!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

جو نقصان پہلی ڈلیوری میں ہوا تھا اس نے رنگ تو دکھانا ہی تھا۔ ڈھیلے مقعد نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ دوسرے بچے کی باری آنے تک ہم پڑھے لکھے ڈاکٹروں میں شامل ہو چکے تھے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ پہلی بار ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری صاحبزادی دنیا میں تشریف لا چکی تھی، مبارک سلامت کا شور تھا۔ دوست، رشتے دار، نانی، دادی سب نہال مگر ماں نہ جانے کیوں منہ سر لپیٹے نڈھال پڑی تھی۔ نہ بچی دیکھنے کا چاؤ، نہ گپ شپ، نہ بھوک نہ پیاس۔ ڈلیوری کہنے کو نارمل یا ویجائنل تھی لیکن دوسری سٹیج میں بچی کا سر سٹیل کے بنے دو بڑے چمچوں نما اوزار (forceps) کی مدد سے نکالا گیا تھا۔ چھوٹا آپریشن بھی ہوا تھا جس میں شدید تکلیف تھی۔

 

ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اوزار لگانے کی وجہ سے چھوٹا آپریشن نارمل سے کچھ بڑا تھا۔ احتیاطی تدابیر میں قبض سے بچاؤ اور ڈیٹول ملے پانی میں صبح شام بیٹھ کر زخم خشک کرنے کے بعد اینٹی سیپٹک کریم لگانی تھی۔ ہماری بڑی بہن ہمیں باتھ روم لے جا کر ڈیٹول ملے پانی میں بٹھاتیں، پھر بستر پہ لٹا کر زخم پہ کریم لگاتیں۔ بیٹھنا ہمارے لیے ممکن نہیں تھا۔ ہم نے نوٹ کیا کہ جب بھی وہ کریم لگاتی ہیں، ان کی پیشانی پہ فکر بھری سلوٹ پڑ جاتی ہے اور وہ کافی دیر آپریشن والی جگہ کو گھور گھور کر دیکھتی رہتی ہیں۔

کیا ہوا آپا؟ کیا دیکھ رہی ہیں؟ دوسرے دن کراہتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا۔ کچھ عجیب سا ہے یہ آپریشن۔ ویجائنا سے شروع ہو کر پاخانے والی جگہ تک پہنچا ہوا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ تم پاخانہ کیسے کرو گی؟ یہ سنتے ہی ہمارا دل بیٹھ گیا۔ کیا آپریشن میں ویجائنا اتنی زیادہ کاٹ دی کہ پاخانے والی جگہ تک جا پہنچی۔ خیر کیا کہتے کہ اب گھنٹی گلے میں بندھ چکی تھی سو جو کچھ بھی تھا بھگتنا ہی تھا۔ سوچا کہ آپا سے کہتے ہیں ہمیں آئینہ رکھ کر دکھانے کی کوشش کریں۔

 

آئینہ منگوایا گیا جو کہ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ آپا نے دکھانے کی بہت کوشش کی مگر ہماری نظر وہاں تک پہنچ نہ پائی۔ بستر پہ لیٹے لیٹے دیکھنے کا زاویہ کیسے بنتا؟ خیر کب تک خیر مناتے؟ کچھ نہ کچھ تو کھا ہی رہے تھے تو پاخانے کی حاجت ہو ہی گئی۔ ڈرتے لرزتے جا پہنچے ایسے جیسے کوئی سوئے مقتل جا رہا ہو۔ کچھ سیکنڈز کے لیے تو سانس اوپر کی اوپر رہ گئی، ایسے لگا جیسے جسم کے بخیے ادھڑ رہے ہوں۔ تازہ زخم کو کوئی چیز رگڑ رہی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ سانس نکلنے ہی والی ہے۔

آپا نے بڑی مشکل سے ہمیں بستر تک پہنچایا۔ کچھ دیر بعد ہم نے پھر آئینہ رکھ کر دیکھنے کی کوشش کی۔ ساتھ میں ہلکا ہلکا انگلی سے چھوا۔ اوہ میرے خدایا۔ چھوٹے آپریشن کے ٹانکے مقعد کے اندر تک جا رہے تھے۔ یہ کیا کیا ڈاکٹرز نے؟ چھوٹا آپریشن مقعد تک تو نہیں جاتا۔ ہم نے پریشانی سے سوچا۔ اگلے دن ڈاکٹر راؤنڈ پر آئیں تو ہم نے اس بارے میں پوچھا۔ بچے کی پوزیشن ٹھیک نہیں تھی، دل کی دھڑکن بھی خراب تھی، ڈلیوری بھی اوزار سے ہوئی تھی سو چھوٹا آپریشن کٹ پھٹ کر مقعد تک جا پہنچا۔

ٹھیک ہو جائے گا۔ بس احتیاط کریں۔ اتنا کچھ تھا تو بڑا آپریشن یعنی سیزیرین ہی کر دیتے۔ بھلے پیٹ کٹ جاتا، مقعد تو ٹھیک رہتا۔ ہم نے افسردہ ہو کر سوچا۔ کچھ دن بعد گھر آئے، ٹانکے ابھی بھی نہیں بھرے تھے۔ پاخانہ کرتے ہوئے ابھی بھی تکلیف محسوس ہوتی تھی۔ دو چار ہفتے گزر گئے۔ ٹانکے بھر گئے، ٹانکوں کا دھاگہ جھڑ گیا۔ ہم نارمل زندگی کی طرف لوٹ گئے مگر کیا واقعی سب کچھ نارمل تھا؟ ہمیں محسوس ہوتا کہ نہیں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔

ویسا نہیں جیسا ڈلیوری سے پہلے۔ آہستہ آہستہ معاملہ کھلا کہ پاخانے اور ہوا کے معاملات کچھ بدل سے گئے ہیں۔ پاخانہ کرنے کے بعد مقعد کی گرفت کچھ کمزور سی رہتی ہے۔ اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ اگر مقعد کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے تو ہوا اور پاخانے کا کنٹرول کیسا ہو گا؟ پچیس چھبیس کی عمر میں ہی اعضا پہ گرفت نارمل نہ رہنا، ظلم نہیں تو اور کیا ہے؟ خوش قسمتی سے ہم بسیار خوری کے عادی نہیں تھے نہ ہی موٹاپا حاوی ہوا تھا، کچھ ورزش کا بھی شوق تھا سو ان احتیاطوں کے سر پندرہ برس گئے مگر کب تک؟

جو نقصان پہلی ڈلیوری میں ہوا تھا اس نے رنگ تو دکھانا ہی تھا۔ ڈھیلے مقعد نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے تھے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ چونکہ دوسرے بچے کی باری آنے تک ہم پڑھے لکھے ڈاکٹروں میں شامل ہو چکے تھے اور ساتھ میں یہ بھی سمجھ چکے تھے کہ پہلی بار ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا؟ سو دوسرا اور تیسرا بچہ پیٹ کٹا کر ہی دنیا میں آئے۔ ہم کسی ڈاکٹر کو یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ ہمارے مقعد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے اسے مزید تباہ حال کرے۔

کچھ مزید وقت گزر گیا اور اب وقت کا صبر جواب دے گیا۔ وہ ضرب جو پہلی ڈلیوری پہ مقعد کو پہنچی تھی، اب قابو سے باہر ہو رہی تھی۔ سپیشلائزیشن کرنے کے دوران یہ بات بھی سمجھ آ چکی تھی کہ ڈلیوری کے دوران مقعد بند رکھنے والے اندرونی اور بیرونی پیچوں کو شدید نقصان پہنچا تھا اور یہ بھی کہ ان پیچوں کی سلائی بد قسمتی سے ٹھیک طریقے سے نہیں کی گئی تھی۔ کیوں؟ کیونکہ ان پیچوں کو پہچاننے اور ٹھیک طرح سے سلائی کرنا زیادہ تر ڈاکٹروں کو نہیں آتا۔

 

جی بالکل درست سنا آپ نے۔ ٹرینی ڈاکٹرز کتابوں میں پڑھتے ضرور ہیں لیکن جب تک کوئی مہان استاد ہاتھ پکڑ کر جیتے جاگتے مریض پر دکھائے نہیں اور سلائی نہ کروائے، کیسے سیکھیں گے ٹرینی ڈاکٹرز؟ مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے خود یہ مہارت انگلستان میں ہونے والے ایک کورس سے حاصل کی۔ ساؤتھ افریقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سلطان اور انڈیا کی ڈاکٹر رانی ان پیچوں کی سلائی کے دنیا بھر میں ماہر گنے جاتے ہیں۔ دونوں نے اس موضوع پہ کتاب لکھی ہے، سی ڈی بنائی ہے اور اب بھیڑ بکری کے مقعد پر ڈاکٹرز کو سلائی کرنا سکھاتے ہیں۔

ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ مقعد کے گرد دو طرح کے پیچ ہوتے ہیں، اندرونی اور بیرونی۔ بیرونی کی سلائی اور شناخت بہت آسان ہے لیکن اندرونی اتنا ہی مشکل۔ اس کی شناخت اور سلائی کے لیے ضروری ہے کہ مریض کو بے ہوشی دی جائے۔ اس طرح کے جھنجھٹ وطن عزیز میں کون پالے؟ نارمل ڈلیوری کے ساتھ اگر مقعد کے پیچ سینے کا آپریشن بے ہوشی کے ساتھ کرنا ہے تو اس کا بل کون دے گا؟ گلی محلے میں بنے میڈیکل سینٹرز میں ایسے لوگ کہاں سے آئیں گے جنہیں اس کام میں مہارت ہو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا سو آسان حل یہ ہے کہ ڈلیوری میں جو کچھ پھٹتا ہے، بھلے پھٹ جائے۔ ہماری بلا سے۔ جس نے سہنا ہے، اسے تو ایک ہی تعویذ گھول کر پلایا جائے گا کہ۔ ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے، صبر کرو۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: