نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حامد خان پی ٹی آئی کے نئے چیئر مین ؟۔۔۔||رؤف کلاسرا

ہوسکتا ہے عمران خان کی پارٹی تمام تر عوامی حمایت کے باوجود بڑی تعداد میں امیدوار کھڑے نہ کر پائے یا امیدواروں کو اجازت نہ ملے کہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں‘ لیکن اگر ان کی پارٹی بیس تیس امیدوار بھی اسمبلی بھیجنے میں کامیاب ہوگئی تو بھی یہ ان کی کامیابی ہوگی۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجیب سی بات لگتی ہے۔ پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور اب عمران خان کی پی ٹی آئی کی سیاسی کہانی تقریبا ًملتی جلتی ہے۔ جس صورتحال کا سامنا عمران خان اور ان کی پارٹی کررہی ہے یہ ان کے فالورز کیلئے تو نئی ہوسکتی ہے لیکن پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی قیادت اور سیاسی ورکرز یہ سب کچھ بہت پہلے بھگت چکے ہیں۔ انہیں ان کے تلخ تجربوں نے سکھا دیا ہے کہ بدترین حالات کے باوجود اپنا وجود کیسے قائم رکھنا ہے لیکن لگتا ہے کہ اس وقت عمران خان ان راستوں پر چلنے کو تیار نہیں جو اُن کی پارٹی کو مشکل سے بچا سکتے ہیں۔ یہ بات طے ہے کہ پاکستان میں ہر پاپولر سیاسی پارٹی اور اس کا پاپولر لیڈر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ضرور ٹکرایا اور ہمیشہ اپنا ہی نقصان کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نواز شریف اور اب عمران خان کو داد دینا ہوگی کہ خطرات کے باوجود وہ اپنے سے زیادہ طاقتور وں کے ساتھ ضرور ٹکرائے۔ اگرچہ یہ بات بھی عجیب سی لگتی ہے کہ بھٹو‘ نواز شریف اور عمران خان تینوں اسی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر سیاست سے اقتدار میں داخل ہوئے اور ان سے اختلافات کے بعد جیل گئے یا جلاوطن ہوئے ‘ لیکن پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اس خطرناک ٹکرائو میں بھی چند ضروری سبق سیکھے اور خود کو ختم ہونے سے بچا لیا حالانکہ ایک دو مواقع پر تو یوں لگتا تھا کہ شاید یہ دونوں سیاسی پارٹیاں اپنا وجود کھو بیٹھیں گی‘ لیکن ان کی سیاسی سمجھداری ان کے کام آئی اور وہ مکمل طور پر ختم ہونے سے بچ گئیں۔ اگرچہ کچھ معاملات ایسے بھی ہیں کہ عمران خان چاہتے ہوئے بھی وہ کام نہیں کر سکتے جو پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ نے اپنی ذاتی اور سیاسی سروائیول (survival) کیلئے کیے‘ جس سے ان کی بچت ہوگئی۔
جب بھٹو کو پھانسی دی گئی تو پارٹی کو سنبھالنے کیلئے ان کی بیگم نصرت بھٹو موجود تھیں۔ اُن کے بعد نوجوان بیٹی بینظیر بھٹو بھی موجود تھیں جنہوں نے ماں کے بعد باپ کی پارٹی کو کنٹرول کیا۔ اس طرح نواز شریف نے بھی پارٹی کی قیادت جب اپنے ہاتھ سے پھسلتے دیکھی اور انہیں وزیراعظم ہاؤس سے جیل بھیجا گیا تو انہوں نے قیادت اپنے بھائی شہباز شریف کو منتقل کر کے بچا لی۔ اب بینظیر بھٹو کی طرح مریم نواز بھی ان کی جگہ لینے کو تیار ہیں لیکن دوسری طرف عمران خان کا کوئی بھائی ہے نہ بچہ جو اِن حالات میں ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کی قیادت سنبھال سکے۔ان حالات میں خان کے پاس ایک اور آپشن ہے کہ وہ خاندان سے باہر اپنی پارٹی کی قیادت کسی کو سونپ دیں۔ یہ بات طے ہے کہ اس معاملے میں بھٹو خاندان ہو‘ شریف خاندان یا عمران خان وہ ایک ہی طرح سے سوچتے ہیں کہ کسی پر بھروسا نہ کرو۔ سیاست میں تو کسی پر بھروسا کیا ہی نہیں جاسکتا۔ آپ کی آنکھ لگنے کی دیر ہے اور جاگنے سے پہلے آپ کی لنکا ڈھائی جا چکی ہوتی ہے۔جیل میں قید عمران خان اس وقت تو کسی پر بھروسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ ویسے بھی کسی پر بھروسا نہیں کرتے اور اس وقت تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جیل میں قید عمران خان کو اندازہ ہی نہیں ہورہا کہ وہ کس پر بھروسا کریں کس پر نہ کریں۔ کیا پتا اندر سے کون کس کیلئے کام کررہا ہے؟ لیکن تمام شکوک کے باوجود اس وقت انہیں شدید ضرورت ہے کہ وہ پارٹی کی قیادت وقتی طور پر کسی اور کے حوالے کردیں تاکہ کم از کم پارٹی ختم نہ ہو۔ یہ طے ہے کہ عمران خان کو جلد رہائی نہیں ملے گی‘ سائفر کیس کی سماعت تیزی سے جاری ہے‘بہت جلد اس کا فیصلہ متوقع ہے۔ عمران خان کو چودہ برس سزا سنائی جا سکتی ہے۔شاہ محمود قریشی بھی اس کیس میں ملزم ہیں اور زیادہ امکانات ہیں کہ انہیں بھی دس برس تک سزا سنائی جاسکتی ہے۔ یوں پارٹی چیئر مین اور وائس چیئرمین دونوں اس وقت سزائوں کا سامنا کر رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کے بعد پارٹی کو کون چلائے گا؟ یقینی طور پر پی ٹی آئی کے لوگ کہیں گے کہ سزا ملنے سے کیا ہوگا‘ جیل سے باہر یا اندر نام تو صرف عمران خان کا چلے گا‘ ووٹ تو عمران خان کا ہے۔ یقینا ان کا نام اور ووٹ ہے لیکن اس کے باوجود خان اور قریشی کے بعدپارٹی کو کسی تیسرے کی ضرورت ہے جو الیکشن کے قریب پارٹی کو زندہ رکھ سکے۔ پارٹی کو الیکشن لڑنے کی اجازت دلوا سکے اور یہ کچھ امیدوار کھڑے کر کے ان میں ٹکٹ بانٹ سکے۔سزا کی صورت میں عمران خان امیدواروں کو اپنے دستخط کے ساتھ ٹکٹ بھی جاری نہیں کر سکیں گے‘ جیسے 2018ء میں نواز شریف کو سزا کے بعد روک دیا گیا تھا۔ عمران خان کا نام اور ووٹ کس کام کا اگر ان کے امیدوار ہی میدان میں نہیں ہوں گے ؟اس وقت حالت یہ ہے کہ پارٹی کا ایک بھی نمایاں نام نہیں بچا جو جیل میں نہ ہو‘ مفرور اور بھاگا نہ ہو یا اس کی تلاش جاری نہ ہو۔ جب آپ کے بڑے امیدوار جیل میں ہوں یا مفرور ہوں تو پھر کون الیکشن لڑے گا؟
اس وقت عمران خان کی کوشش ہونی چاہئے کہ وہ کوئی ایسا بندہ پارٹی میں تلاش کریں جس پر وہ اعتبار کر سکیں اور جو پولیس کو مطلوب بھی نہ ہو۔ اگرچہ ان کی پارٹی میں جو اہم لوگ تھے وہ کب کے خان کو چھوڑ کر جاچکے یا خان انہیں نکال چکا۔ بچ بچا کے ان کے پاس سپریم کورٹ کے وکیل حامد خان ہی بچتے ہیں جو وکیلوں کے بڑے لیڈر مانے جاتے ہیں۔ حامد خان پی ٹی آئی کے پرانے لیڈر ہیں اور ان کا اپنا ایک اثر رسوخ ہے لہٰذا انہیں گرفتار کرنا بھی آسان نہیں ہو گا۔ وہ اس وقت پارٹی کو بچانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان پر مقدمات بھی نہیں ہیں اور وہ ایک سنجیدہ اور بڑے وکیل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ الیکشن تک وہ پارٹی کے معاملات عمران خان کی مشاورت سے چلا سکتے ہیں۔ اب یہ عمران خان نے سوچنا ہے کہ انہوں نے ہر صورت پارٹی قیادت اپنے ہاتھوں میں رکھنی ہے چاہے اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو یا وقتی طور پر کسی اور کو پارٹی کا کنٹرول دینا ہے تاکہ وہ الیکشن ‘ ٹکٹ اور دیگر امیدواروں کے معاملات کو دیکھے اور امیدواروں کو ان کے مشورے سے ٹکٹ نوازے تاکہ ان کی پارٹی کے امیدوار الیکشن میں نظر آئیں۔
ہوسکتا ہے عمران خان کی پارٹی تمام تر عوامی حمایت کے باوجود بڑی تعداد میں امیدوار کھڑے نہ کر پائے یا امیدواروں کو اجازت نہ ملے کہ وہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں‘ لیکن اگر ان کی پارٹی بیس تیس امیدوار بھی اسمبلی بھیجنے میں کامیاب ہوگئی تو بھی یہ ان کی کامیابی ہوگی۔ ہوسکتا ہے لوگ کہیں کہ یہ تو بہت بڑی دھاندلی ہوگی کیونکہ خان کی مقبولیت اس وقت آسمان کو چھو رہی ہے اور اگر آزادانہ الیکشن ہوں تو وہ آرام سے جیت جائیں گے‘ لیکن جب ایسی صورتحال نہیں ہے تو پھر کیا کرنا چاہئے ؟ اس صورت میں پلان بی وہی ہوسکتا ہے جو بینظیر بھٹو نے 1997 ء میں اختیار کیا تھا یا 2002ء میں نواز شریف نے۔ بقول بینظیر بھٹو 1997ء میں بھی دھاندلی کر کے نواز شریف کو دو تہائی اکثریت دلوا کر جتوایا گیا اور پیپلز پارٹی کو صرف سترہ اٹھارہ سیٹیں ملیں‘ لیکن سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بینظیر بھٹو اپوزیشن بینچز پر بیٹھ گئیں ‘بالآخر اُن کی پارٹی 2008ء میں اقتدار میں آ گئی۔ 2002ء کے الیکشن کے وقت نواز شریف کی جلاوطنی کی وجہ سے ان کی پارٹی بھی 19 سیٹیں جیت سکی یا پرویز مشرف نے انہیں اتنی ہی سیٹیں جیتنے کی اجازت دی۔ اس کے باوجود نواز شریف نے اپنے ایم این ایز کو پارلیمنٹ بھیجا اور وہی نواز شریف گیارہ برس بعد تیسری دفعہ وزیراعظم بن گیا۔
سیاست لمبی ریس کے گھوڑے کا کام ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس وقت عمران خان اپنے بدترین دشمنوں سے وہ سیاسی سبق سیکھنے کو تیار ہے جو انہیں دوبارہ اقتدار تک لے جائے یا عمران خان وہ بلنڈر بار بار کرتے رہیں گے جن کی وجہ سے وزیراعظم ہاؤس سے جیل میں آ بیٹھے ہیں اور ایسی بند گلی میں آ گئے ہیں جہاں سے نکلنے کا انہیں راستہ نظر نہیں آرہا۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author