مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں کیوں زندہ رہوں؟ بائیس سالہ زچہ کا سوال!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یہ ہے ہمارے معاشرے کا تانا بانا، جہاں مرد اپنے گھر کی عورت کو چین نہیں لینے دیتا چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو۔ باپ سے متنفر ایک بیٹی فرار کا راستہ شادی میں ڈھونڈ رہی تو دوسری شادی کے بعد موت میں، اور لاہور جنرل ہسپتال میں کود جانے والی نے تو فیصلہ سنا کہ اس زندگی سے موت اچھی۔ ہماری یہ بات سن کر بہت سے مرد بھٹی میں بھنتے دانوں کی طرح اچھلتے ہیں۔ کیا لکھ دیا آپ نے؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل دو باتیں ہوئیں۔ امی، امی، بہت اداس ہوں میں۔ کہاں ہیں آپ؟ جب سو کر اٹھیں گی تو کال کیجیے گا۔ miss you loads۔ سو کر اٹھیں اور بائیس سالہ لاڈلی بیٹی کا یہ پیغام پڑھیں تو کلیجہ اچھل کر منہ ہی میں آئے گا نا۔ ہائے میری بیٹی، ٹھیک بھی ہے کہ نہیں؟ نہ جانے ماں کو اور اپنے گھر کو کتنا یاد کر رہی ہے۔ یونیورسٹی سے گھر آتی ہے تو ماں کے بستر میں دبک کر پہروں گزار دیتی ہے۔ ہمیں بھی وہ چھوٹی سی گڑیا نظر آتی ہے جو ماں کی گود کی گرمی میں ابھی بھی وقت گزارنا چاہتی ہے۔ بائیس برس پلک جھپکتے گزر گئے مگر سچ پوچھیے تو بائیس برس ہوتے ہی کتنے ہیں؟ دس بارہ برس بچپن کی معصومیت، نو دس برس بلوغت کی سختی۔ سو بیس بائیس برس میں تو آنکھ کھلنا شروع ہوتی ہے کہ زندگی ہے کیا اور کرنا کیا ہے؟ یہ تمہید ہم نے اس لیے باندھی کہ دوسری بات نے دل زخمی کر رکھا ہے۔

 

لاہور جنرل ہسپتال میں ایک بائیس برس کی لڑکی نے تیسری منزل سے نیچے چھلانگ لگا دی کہ اس کے ہاں تیسری بچی کی ولادت ہوئی ہے۔ بائیس برس اور تیسری بچی۔ سوچیے کس عمر میں شادی ہوئی ہو گی؟ سولہ یا سترہ؟ بلوغت کا عرصہ ختم ہونے سے پہلے؟ زندگی کو برتنا سیکھنے سے پہلے۔ اٹھارہ میں ماں بنا دیا ہو گا شوہر نے۔ وہ جس کی اپنی ہڑک ختم نہیں ہوئی ماں کی گود کی گرمی میں منہ چھپانے کی، اسے اپنی گود میں ایک اپنے جیسی کو چھپانا پڑا ہو گا۔ زندگی یوں خراج لیتی ہے لڑکیوں سے۔ انیس بیس میں گود میں ایک اور بچی اور اب بائیس عمر میں تیسری بچی۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک طوفان۔

کیا خبر وہ دن میں کتنی بار پٹتی تھی؟ کیا خبر سارا دن کس قدر کام لیا جاتا تھا اس سے؟ کیا خبر ماں باپ سے ملنے کی اجازت بھی تھی یا نہیں؟ کیا خبر پے در پے حمل کے ساتھ کچھ کھانے کو بھی ملتا تھا کہ نہیں؟ کیا خبر دو بیٹیاں ہو جانے پہ کس قدر طعنے دیے جاتے تھے؟ کیا خبر تیسری بیٹی کے پیدا ہونے پہ اس نے کیا کچھ نہ سنا ہو گا؟ کیا خبر اس کے جسم میں خون کی کس قدر کمی تھی؟ کیا خبر نو عمری میں تیسرے حمل سے اس کی ہڈیوں میں کس قدر درد رہتا تھا؟ کیا خبر دو چھوٹی بچیوں کے ساتھ تیسرے حمل سے گزرتے ہوئے ارد گرد کا ماحول کس قدر زہریلا تھا؟ کیا خبر کس قدر ذہنی تشدد سہا اس نے کہ اس بار بیٹا ہی پیدا کرنا، جبھی تو تیسری منزل سے کود جانا اسے آسان لگا؟

 

شادی شدہ زندگی ایک تنا ہوا رسہ ہے جس پہ عورت ڈگمگا کر چلتے ہوئے تمام عمر خوفزدہ رہتی ہے۔ ابھی گری کہ گری۔ رسی کو جھٹکا دینے والے بہت۔ سسرال اور شوہر سے امید کیوں رکھی جائے جب ماں باپ بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر سکتے؟ جب باپ اپنی بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہوئے اسے کسی دوسرے پر لاد دیتا ہے تو گریبان باپ کا پکڑا جانا چاہیے جو بیٹی کو دنیا میں لایا تو سہی مگر دنیا میں عزت سے زندہ رہنے کے ہتھیاروں سے لیس نہیں کیا۔ وہ ماں باپ کے ازدواجی تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا ایسا کچرا ہے جسے جونہی موقع ملے، گھر سے نکال کر سکون کا سانس لیا جاتا ہے۔ وہ بچپن میں بھی بوجھ، بلوغت کے وقت بھی اور شادی کے بعد بھی۔ مرد کے پاس عورت کو دیکھنے کی جو عینک ہے اس میں تعصب کے شیشے لگے ہیں چاہے وہ عورت بیوی ہو، بیٹی ہو یا بہن۔ ہاں قبر کے کنارے کھڑی ماں نامی عورت کو وہ یہ عینک اتار کر دیکھتا ہے۔ اس تعصبی عینک سے اسے عورت ایک چیز نظر آتی ہے۔ استعمال کی ایک ایسی چیز جس کے پاس نہ دل ہے نہ دماغ، نہ سوچ ہے نہ خواہش۔

لیجیے ایک بیٹی کا پیغام پڑھیے ؛ ”ہم چھ بہنیں ہیں۔ ابا کو امی کی ہر بات غلط لگتی ہے۔ ہر بات میں طعنہ، ہر بات پہ بدتمیزی، ہر بات پہ رعب جھاڑنا۔ پچھلے دنوں ابا نے معمولی سی بات پہ امی کے ساتھ بہت برا سلوک کیا، ہم بہنیں پاس بیٹھی کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔ چپ کر کے امی کے آنسو دیکھتی رہیں۔ امی نے کہا کہ وہ صرف ہم لوگوں کی وجہ سے اس گھر میں ہیں۔ جس دن تم لوگوں کی شادی ہو گئی، میں یہاں نہیں رہوں گی۔ ہم بہنیں ابا کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتیں۔ کچھ کہو تو وہ بلیک میل کرنے لگتے ہیں کہ میں اپنے آپ کو کچھ کر لوں گا۔ ہم پھنسے ہوئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد از جلد شادیاں ہو جائیں تو نکلیں یہاں سے“

کیا سمجھائیں اس بھولی بیٹی کو؟ باپ کے گھر میں بیٹھ کر باپ سے بات کرنے، ماں کی بے عزتی کرنے سے روکنے کی ہمت نہیں چھ بہنوں میں۔ تو اجنبی گھروں میں جا کر کیسے سر اٹھا کر بات کر سکو گی تم؟ کیسے آپ کا حق لے سکو گی تم جب باپ سے نہیں لے سکتیں؟ اور باپ کو دیکھیے، چھ بیٹیوں کی موجودگی میں ان کی ماں کی ذات کے چیتھڑے اُڑا کر اپنے آپ کو مرد سمجھنا۔ تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو۔ اور پھر بیٹیوں کے احتجاج کو زیرو کرنے کا بیوقوفانہ حربہ۔ میں کچھ کر لوں گا۔ بخدا ہمارے ابا نے اگر زندگی کو جہنم بنایا ہوتا جس میں ہم کسی اجنبی گھر کے خواب اس آس میں دیکھ رہے ہوتے کہ جان چھوٹے گی تو ابا سے ہی کہہ دیتے۔ بہت ہو گئی، کر لیں ابا جو بھی کرنا ہے۔ چت بھی میری اور پٹ بھی، والا کھیل ہمارے ساتھ کھیلنا بند کریں۔

 

ایک اور بچی کا پیغام پڑھیے ؛ ”شادی کر کے بہت برا پھنس گئی میں۔ میرا تو کوئی گھر ہی نہیں رہا۔ یہ لوگ ہر روز احساس دلاتے ہیں کہ یہ میرا گھر نہیں۔ بہت افسوس ہوتا ہے کہ پڑھائی کیوں نہیں کی؟ شادی کیوں کر لی؟ سارا دن سب کا کام کرتی ہوں۔ ایک پل بھی نہیں میرا۔ اگر ذرا سا کوئی کام بھی رہ جائے تو انتہا درجے کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کوئی عزت نہیں میری۔ شوہر کچھ نہیں بولتا، بہت منافق ہے۔ ویسے کہتا ہے کہ بہت محبت ہے لیکن اگر میں ساری رات بھی پاس بیٹھ کر روتی رہوں تو منہ موڑ کر سوتا رہے گا۔ امی ابو بالکل سپورٹ نہیں کرتے۔ انہیں معاشرے کی باتوں کا بہت ڈر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، بیٹی گھر آ گئی۔ میں بہت ڈپریسڈ ہوں۔ کیا میں روٹی کپڑا مکان کے عوض ساری عمر یہ ذلت سہوں گی۔ اتنا ذہنی ٹارچر ہے کہ دل کرتا ہے مر جاؤں“

یہ ہے ہمارے معاشرے کا تانا بانا، جہاں مرد اپنے گھر کی عورت کو چین نہیں لینے دیتا چاہے وہ کسی بھی رشتے میں ہو۔ باپ سے متنفر ایک بیٹی فرار کا راستہ شادی میں ڈھونڈ رہی تو دوسری شادی کے بعد موت میں، اور لاہور جنرل ہسپتال میں کود جانے والی نے تو فیصلہ سنا کہ اس زندگی سے موت اچھی۔ ہماری یہ بات سن کر بہت سے مرد بھٹی میں بھنتے دانوں کی طرح اچھلتے ہیں۔ کیا لکھ دیا آپ نے؟ مرد دشمن، نہیں ہیں ہم ایسے۔ عورت کی بہت عزت ہے ہمارے دل میں۔ اچھا بھئی مان لیا وہ آپ نہیں، آپ جیسا کوئی اور ہے۔ سو اگر آپ وہ نہیں تو چپ کر کے بیٹھے رہیے، جب آپ کی بات ہی نہیں تو اچھلتے کیوں ہیں؟ چور کی داڑھی میں تنکا والا حساب نہ کریں۔

ہم ان کے لیے لکھتے ہیں جن کی وجہ سے بائیس سالہ لڑکی ہسپتال کی تیسری منزل سے چھلانگ لگاتی ہے۔ ہم ان کا نوحہ پڑھتے ہیں جن کے باپ انہیں خوشی کے رنگ نہیں دے سکتے۔ ہم ڈاکٹر سدرہ کا غم مناتے ہیں جو باپ کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔ ہم ڈی جی خان میں مردوں کے ہاتھوں سنگسار ہونے والی عورت کے لیے روتے ہیں۔ ہم سوات کے چوک میں پڑی اس لاش کے لیے افسردہ ہوتے ہیں جو بچوں کا رزق کمانے گھر سے نکلی تھی اور شوہر کے پستول سے نکلی گولی نے بیچ بازار عورت ہونے کا خراج لے لیا۔ بیٹیوں سے یہ کہنا ہے کہ حق لینا آسان نہیں لیکن اس کے لیے ہمت کی ضرورت ہے۔ آئینہ دکھانے کی ہمت تاکہ ظالم اور غاصب کو اس میں اپنا چہرہ نظر آ سکے چاہے وہ باپ ہو، بھائی یا شوہر!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: