دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس ( وسیب یاترا آخری قسط ) ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امڑی سینڑ کے شہر ملتان جنت نشان میں برادرِ عزیز ریحان عباس کھوکھر کی جانب سے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس میں شرکت اور اظہار خیال کے لئے طالب علم کو دعوت اعزاز سے کم نہیں تھی ان کے محبت بھرے اصرار کی بدولت انکار کی کوئی صائب وجہ بھی تو نہیں تھی۔ شاہ شمس کانفرنس کا انعقاد رائل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (رمز) ملتان کے آڈیٹوریم میں کیا گیا تھا۔

ملتانی منڈلی کے ” پایہ تخت ” برادرم ملک خاور شفقت حسنین بھٹہ کے دفتر سے وسیب یاترا پر نکلے دونوں مسافر ہم اور عابد راو صاحب دیئے گئے وقت پر ہی کانفرنس ہال پہنچ گئے۔

عزیزم عامر شہزاد صدیقی سمیت بہت سارے ملتانیوں کی زیارت نے تازہ دم کردیا۔ کانفرنس کی صدارت پروفیسر سید اخلاق شمسی نے کی جبکہ مہمان خصوصی سابق وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ تھے۔

میزبان ریحان عباس کھوکھر کے برادرم ملک اظہر عباس کھوکھر اس انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ہیں۔ ہر دو برادران نے مہمانان خاص و شرکا کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ محبت و توجہ جس کا اعتراف کانفرنس میں شریک ہر شخص کو تھا

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ، ان کے عہد، شخصیت، تعلیمات پر یہ اپنی نوعیت کی پہلی کانفرنس تھی۔

اس اولین کانفرنس میں جو کمی کوتاہی ہوئی یقیناً کانفرنس کے میزبان اگلے برس کی کانفرنس میں بہتر انداز کے ساتھ بنیادی لوازمات پر توجہ مرکوز کریں گے۔ کانفرنس کے مقررین کے خیالات سے جس طرح شرکا نے حظ اٹھایا اس سے یک گو نہ مسرت ہوئی کہ اس عہد نفساں میں بھی بزرگوں کی تعلیمات سے استفادے کا نہ صرف چلن موجودہے بلکہ اگر اظہار خیال کرنے والے احباب حاصل مطالعہ میں شرکا کو کھلے دل سے شریک کریں تو سامعین دانش کے موتیوں سے دامن بھرنے میں بخیلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔

ہماری دانست میں چونکہ یہ پہلی کانفرنس تھی اس لئے بعض کوتاہیوں پر میزبانوں پرچیں بچیں ہونے کی ضرورت نہیں البتہ یہ عرض کرنا ضروری ہے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کی شخصیت، افکاروتعلیمات، ان کی ملتان آمد اور قیام اور پھر قیام ملتان کے اس خطے پر اثرات ایسے ضروری موضوعات تھے جن پر طویل نہ سہی مختصر مقالہ جات ضرور پڑھے جانے چاہئیں تھے۔ بہرطور میزبان برادران کا وعدہ یہ رہا کہ آئندہ برس کی کانفرنس میں نہ صرف ان چیزوں کا بطور خاص خیال رکھا جائے گا بلکہ کوشش کی جائے گی کہ وقت کی افراتفری سے کانفرنس کا ماحول بھی متاثر نہ ہونے پائے۔

پروفیسر سید اخلاق شمسی نے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کی شخصیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے اپنی تالیف کی روشنی میں بات کی۔

میری رائے میں اظہار خیال کرنے والے دوستوں کو اولاً تو صوفی باصفا اور پیر کا فرق ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا۔ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اصلاح پسند صوفی تھے پیر مغاں ہرگز نہیں۔

ثانیاً یہ کہ پیروں کے ساتھ جو دیومالائی قصے منسوب ہوتے ہیں انکے ذکرواذکار سے محض عقیدت مندوں کا لہو تو گرمایا جاسکتاہے طالبانِ علم کی رہنمائی نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی ضروری تھا کہ اس عہد (ان ماہ و سال) کے معروضی حالات زمینی حقائق اس سے کچھ عرصہ قبل ملتان پر افغان حکمران محمود غزنوی کے حملے اور اس کے پس منظر پر بات ہوتی۔

ایسا کیا جانا اس لئے ضروری تھا کہ اگر تاریخ کے اس حصے پر گفتگو ہوتی تو پھر وضاحت کے ساتھ سامعین کے سامنے یہ بات رکھی جاسکتی تھی کہ جناب شاہ شمس سبزواریؒ جب ملتان آئے تو تب یہاں کے معروضی حالات کیا تھے۔

مقررین کی اکثریت کا زور ان دیومالائی قصوں کو بیان کرنے پر ہی رہا جیسا کہ ’’کشتی، دودھ کا پیالہ، پیالے میں پھول رکھنا، گوشت کی بوٹی بھوننے کے لئے سورج کو اپنے مقام سے نیچے لے آنا‘‘۔

ایک طالب علم کے طور پر مطالعے نے کم از کم مجھے یہ سمجھا دیا ہے کہ اس طرح کی باتیں عقیدت و وفا کے اظہار میں سبقت لے جانے کے خواہش مند مرید اور عقیدت مند آگے بڑھاتے ہیں۔

اس پر بات ضرور ہوئی کہ شاہ شمس تبریز اور شاہ شمس سبزواریؒ حقیت میں ایک ہی شخصیت ہیں اور مولانا روم کے مرشد گرامی کے طور پر شناخت رکھنے والے شاہ شمس تبریزؒ یہی بزرگ ہیں جو ملتان میں مدفون ہیں مگر اس امر کا خیال نہیں رکھا گیا کہ محض سینہ گزٹ کے طورپر صدیوں سے آگے بڑھتی بڑھائی جانے والی باتوں روایات اور عقیدتوں کی دنیا اور ہے اور تحقیق و آگہی یکسر دیگر چیز۔

تاریخی مغالطوں کو دور کرنے کے لئے جس تحقیق و جستجو کی ضرورت ہوتی ہے اسے ہمارے ہاں بھاری پتھر سمجھا جاتا ہے۔ محض یہ کہہ دینا کہ ملتان والے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ ہی مرشد مولانا رومؒ ہیں یا کہ ایک ہی نام کی ایک عہد میں چار شخصیتیں موجود تھیں کافی نہیں۔

ماہ و سال کے حساب اور دلیل سے اپنے موقف کی عمارت اٹھانے کی ضرورت ہمیشہ ہوتی ہے۔

مثلاً تین بزرگ شخصیات سیدناصرالدین قاچارؒ، سید شاہ شمس سبزواریؒ، سید عثمان علی مروندیؒ المعروف شہباز قلندر کے حوالے سے ایک متھ یہ بھی ہے کہ تینوں بزرگ اس وقت اس خطے میں تشریف لائے جب یہاں اسماعیلی فہم روبہ زوال آئی۔

مثال کے طور پر ایک رائے یہ ہے کہ ملتان پر محمود غزنوی کے حملے سے قبل ملتان ایک اسماعیلی مسلم ریاست کے طور پر وجود رکھتا تھا۔ مولانا نور احمد خان فریدیؒ نے بعض ان روایات کو آگے بڑھایا جس میں کہا گیا کہ محمود غزنوی کے ملتان پر حملہ کی وجہ ملتان ایک قرامطی ریاست تھی۔ ڈاکٹر حیدر سیال مرحوم، حفیظ خان اور دوسرے مقحقین تاریخ ملتان اس متھ سے اتفاق کرتے دیکھائی نہیں دیتے ۔

بار دیگر عرض ہے کہ اس موضوع پر یعنی شاہ شمس سبزواریؒ کی شخصیت، ملتان آمد، آمد سے قبل کے حالات، ان کے قیام کے عرصے کے واقعات وغیرہ پر ازسرنو تحقیق ہونی چاہیے۔ سید ناصرالدین قاچارؒ، سید شاہ شمس سبزواریؒ اور سید عثمان علی مروندی المعروف شہباز قلندر (سید ناصرالدین قاچارؒ کا مزار ضلع چترال میں ہے) ان تین شخصیات کے حوالے سے ایک متھ یہ بھی ہے کہ تینوں اسماعیلی داعی تھے۔

سید ناصرالدین کے اسماعیلی داعی ہونے پر اب بھی اتفاق ہے البتہ شاہ شمس سبزواریؒ اور شہباز قلندرؒ کے حوالے سے دو آراء ہیں۔ اولاً اسماعیلی داعی والی اورثانیاً اثناعشری جعفری ہونے کی۔ حضرت شاہ شمس سبزواریؒ کے معاملے میں اس قدیم متھ کو تقویت قیام پاکستان کے بعد سر آغا خان سوئم جوکہ اس وقت اسماعیلی مسلم جماعت کے سربراہ (امام) تھے کی جانب سے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شاہ شمس سبزواریؒ کا مزار اسماعیلی جماعت کی تحویل میں دینے کے لئے رجوع کئے جانے کو ایک حوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

حضرت شاہ شمس سبزواری کے ایک پوتے سید حسین دریاؒ بعض کتب میں ان کا نام سید حسین صدرالدین دریاؒ بھی لکھا گیا ہے ( شمسی سادات انہیں ثانیء حیدر بھی کہتے ہیں ) کا مزار اوچ شریف شہر سے باہر واقع ہے۔ اس مزار کی انتظامی کمیٹی اسماعیلی مسلم جماعت کی ہے۔ اسے بھی بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ پہلی شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس میں اہتمام کے ساتھ ان سینہ گزٹ متھوں، روایات ، تاریخی مغالطوں کا جس فہمی انداز میں جواب دیا جانا چاہیے تھا اس کی تشنگی رہی۔

اسی طرح شاہ شمس سبزواریؒ اور شاہ شمس تبریزؒ مرشد مولانا رومؒ کو ایک شخصیت قرار دینے وا لوں نے دلیل پر لفاظی کو حجت سمجھا جبکہ ضروری یہ تھا کہ جس نے بھی اس موضوع پر اپنی بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت محسوس کی وہ دلیل و شواہد بھی کانفرنس کے شرکا کے سامنے رکھتا۔

پروفیسر سید اخلاق شمسی نے اپنی کتاب (یہ کتاب انہوں نے حضرت شاہ شمس سبزواریؒ پر تصنیف کی ہے) کے حوالے سے جتنی گفتگو کی اس کا 80 فیصد سے زائد حصہ روایتی عقیدت سے عبارت سنیہ گزٹ متھوں پر مشتمل تھا۔ جبکہ کانفرنس میں ترتیب وار ان سنیہ گزٹ متھوں کے ساتھ موجود سوالات پر بھی بات ہونا ضروری تھی۔

مثلاً چترال کی اسماعیلی جماعت کی اہم شخصیت اوردانشور صاحب داد خان (طالب علم کی ان سے 1999ء میں ملاقات ہوئی) اپنی تحقیق کے موجب اس امر کے دعویدار تھے کہ سیدناصرالدین قاچارؒ، سید شاہ شمس سبزواری اور سید شاہ شمس تبریزؒ ( مرشد مولانا روم) تینوں چچازاد بھائی ہیں

انہوں نے حسب وعدہ اپنا مقالہ طالب علم کو بھجوادیا ہوتا تو ہم اس کالم میں اپنے موضوع پر مزید وضاحت کےساتھ بات کرسکتے تھے۔

بہرطور چند کمیوں کوتاہیوں اور سینہ گزٹ متھوں کی تکرار کے باوجود حضرت سید شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔

امید ہے کہ اگلے برس جب کانفرنس ہوگی تو اولاً وقت کی کمی نہیں ہوگی ثانیاً حضرت سید شاہ شمس سبزواریؒ کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے ساتھ اس عہد کے معروضی حالات پر بھی نہ صرف بات ہوگی بلکہ سنیہ گزٹ متھوں اور ان پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب بھی سننے والوں کے سامنے رکھا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author