مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! پندرہویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ کی یہ خود کلامی اس عورت کی آہ و بکا ہے جو جسم فروشی کے کاروبار میں جھونک دی جاتی ہے اور ساری عمر جیتے اور مرتے گزار دیتی ہے۔ مشہور افسانہ و ناول نگار حسن منظر  ایسی ہی ایک عورت کی داستان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ”وہاں ٹربیونل کے سامنے مجھ سے ایسے سوال کیے گئے جن میں سے اکثر میری سمجھ سے باہر تھے۔ مثلاً قوانین اور شرع کے بارے میں، میں کہنا چاہتی تھی مجھے یہ سب نہیں پڑھایا گیا۔

 

اور جہاں میں پلی بڑھی وہاں نہ کوئی دانش کدہ تھا نہ کوئی دانش گاہ، نہ کتب خانہ نہ خانہ فرہنگ۔ وہاں پڑھے لکھے اور مذہبی غیر مذہبی انسان صرف آتے جاتے تھے۔ ٹھہرنے اور بسنے کے لئے نہیں محض مہمان کی حیثیت سے۔ انہیں میں سے بعض جو ہماری زبان سے واقف نہیں ہوتے تھے یعنی دوسری کشوروں سے آنے والے، ایسے جملوں میں اوپر آنے کا سیدھا راستہ پوچھتے تھے جو ہم جیسے جاہل بھی جانتے تھے، انہوں نے دینی مدارس میں بچپن میں پڑھے یا رٹے ہوں گے۔

لیکن اب وہ اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھے ہم پر ہنستے ہوں گے۔ تعجب یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ علاقہ جب بھی بنایا گیا ہو گا صرف آ کر چلے جانے والوں کے لئے بنایا گیا ہو گا اور یہاں کوئی آ کے رہ نہیں سکتا ہو گا پھر بھی یہاں کی آبادی برابر بڑھتی رہی۔ یہ لڑکیاں پھر کون تھیں؟ آسمان کی بیٹیاں؟ یہ سوال میں بارہا اپنے آپ سے پوچھ چکی تھی کہ میری کوئی مرضی ہے یا مجھے بغیر مرضی عطا کیے ہوئے، خدا تشکیل کر بیٹھا ہے“ امریکہ جانے کے لیے پیسے اکٹھے کرنے میں ثانیہ نہ جانے کتنی بار مری اور کتنی بار زندہ ہوئی مگر آخر کار اس نے مطلوبہ رقم جمع کر ہی لی۔

 

وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔ لیکن اس بار اس نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر جلاد کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رسی کا وہ پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔ اس نے فیملی پلاننگ میں ملازمت کر لی جہاں نبیل سے ملاقات ہوئی۔

وہ پہلے ہی ذلت کے اس کھیل میں مر مر کر جینے اور پھر مرنے سے تنگ آ چکی تھی سو اس نے سوچا کہ کبھی کسی کے ساتھ سونے اور الٹے سیدھے دھندے کرنے سے بہتر ہے کہ ایک کی ہو کر رہے۔ نبیل نے اس کی نوکری چھڑوا دی جو اس نے ہنسی خوشی چھوڑ دی۔ لیکن نبیل کو کما کر گھر چلانے میں کوئی دل چسپی نہیں تھی، گھر میں دال روٹی کی بجائے فلسفہ اور شاعری پکنے لگی۔ بہت جلد اسے علم ہوا کہ شوہر کو بھی اسے ہی پالنا پڑے گا۔ نبیل مرد تو تھا لیکن اس میں مردوں والی غیرت نہیں تھی، اسے ثانیہ کی ضرورتوں کا کبھی خیال نہیں آیا، الٹا وہ ثانیہ پر بوجھ بنتا چلا گیا۔

پھر امثال سے ملاقات ہوئی اور اس کی شاعری اور باتوں میں آ کر ثانیہ نے نبیل سے طلاق لے کر امثال سے شادی کرلی۔ اب وہ شاعر بھی بن چکی تھی اور شاعروں کا بوجھ بھی اسی پر تھا۔ کسی کے پاس سگریٹ نہیں، کسی کے پاس گھر کا کرایہ نہیں، کسی کے پاس روٹی نہیں۔ امثال کے ساتھ بھی نہ نبھ سکی۔ اب وہ فیصلہ کر چکی تھی کہ وہ حاملہ نہیں ہو گی سو اس نے دو بار بچہ ضائع کروایا۔ لیکن ان تمام حالات سے گزرنے کے بعد اس کی ذہنی حالت ابتر ہو گئی۔

”مجھے خواہش ہوتی ہے کہ ایک نہیں دو تین مرد مجھے بری طرح تھکائیں۔ ہر انٹر کورس کے بعد مجھ پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے کیونکہ میں مرد کو محسوس کرنا چاہتی ہوں تاکہ مجھے بھی پتہ چلے کہ میں ہوں لیکن مجھے پتا ہی نہیں چلتا کہ میں کہاں ہوں۔ میں مر چکی ہوں۔ اب مجھے پتا چلا کہ مرد اور عورت میں کیا فرق ہے؟ ہم عورتیں مرد کا جسم محسوس کر کے خود کو، اپنے ہونے کو محسوس کرتی ہیں اس لیے اب میں مردوں کو خریدنے لگی ہوں۔

مجھے ان کو خریدنے اور ان پہ احسان کرنے میں مزا آتا ہے۔ میں ایک دن میں کئی کئی مردوں سے ملتی ہوں لیکن جسم کی بھوک نہیں مرتی۔ میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ جب بھی یہ کیفیت ہوتی ہے، مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو گئی ہوں۔ کاش میں ایک کتیا ہوتی اور جس طرح کتیا کے جسم سے خارج ہونے والی بو پر کتے اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اس طرح میرے جسم سے بھی بو خارج ہوتی اور مردوں کے گروہ میرے پیچھے پیچھے بھاگتے“ ۔ اس کے بعد ثانیہ کی حالت بگڑتی چلی گئی اور ایک دن انتیس برس کی عمر میں اس کا بے جان جسم ٹرین کی پٹری پر مردہ حالت میں پایا گیا۔ ناول میں یہ طے نہیں کیا گیا کہ خود کشی کی گئی یا قتل ہوا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: