رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحران اُمڈ آئیں تو وطنیت اور قوم پرستی کا جذبہ پیدا ہونا فطری بات ہے مگر اس کا ایک منفی اور خطرناک پہلو بھی ہے جس پر پریشانیوں میں گھری کوئی بھی قوم غور وفکر کرنے کے لیے تیار نہیں دیکھی۔ ان کی انگلی کسی دوسرے ملک‘ اس کی سازشوں‘ منافقت اور دشمنی کی طرف اٹھتی ہے۔ ایسا جذبہ ابھارنے والوں کے سامنے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ اندرونی حالات سے لوگوں کی توجہ باہر کی دنیا کی طرف موڑنا اور بحرانوں کے ذمہ دار عناصر کو کھلی چھوٹ دے کر سطحی اور جذباتی عوامل پر بیان بازی کرنا۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جو کئی ممالک کے حوالے سے دی جا سکتی ہیں۔ ہماری اپنی داستان تو ایسی فرضی کہانیوں سے بھری پڑی ہے۔ خود سوچیں کہ مشرقی پاکستان کے سیاسی بحران اور پھر وہاں عوام کے خلاف طاقت آزمائی کا ذمہ دار کوئی اور تو نہیں تھا۔ ہماری سیاسی اور غیرسیاسی قیادت کی محدود سوچ اور مفاد پرستی کے علاوہ اور کیا تھا۔ تب ایسی بات کرنے کی اجازت تک نہیں تھی۔ ملک بحران کا شکار ہوگا اور جو دشمن ہم نے بنائے ہیں‘ یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر بنے ہوئے ہیں وہ بے وقوف اور نکمے ہوں گے کہ ہمارے داخلی انتشار اور خانہ جنگیوں سے فائدہ نہ اٹھائیں۔ کچھ عقل مندی اور بصیرت ہو تو حقیقی وجوہات کا تعین کرکے آئندہ کے لیے ایسے حالات پیدا کرنے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ اگر عقل طویل رخصت پر ہو بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہہ کر اپنے ٹھکانے پر نہ آئے تو ہم جیسے بحرانوں میں گھرے رہتے ہیں اور اندر دیکھنے کے بجائے وجوہات کہیں اور تلاش کرتے ہیں‘ ہمیشہ ان میں گھرے رہیں گے۔
یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ ہماری پالیسی نے جہاں دیگر زمین ہلا دینے والے فیصلے کیے ہیں‘ یہ بھی کرڈالا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو بلاتفریق یکم نومبر تک رضاکارانہ طور پر ملک سے نکل جانا چاہیے بصورت دیگر انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔ اچھی بات ہے۔ ملک میں کوئی بھی غیرقانونی طور پر آجائے تو اس کے خلاف مقامی قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔ اس سخت‘ فوری اور اچانک فیصلے کے لیے جو جواز دیا جارہا ہے اس سے اختلاف کرنا آسان نہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ریاست جب اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے ڈٹ جائے تو اس کے سامنے کوئی زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکتا۔ گزارش صرف اتنی ہے کہ اس سلسلے میں قدرے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک انسانی المیہ ہے اور اس کو پیدا کرنے میں ہماری ماضی کی پالیسیوں کا بھی حصہ ہے۔ بنیادی طور پر ذمہ داری تو افغانستان کے حکمران ٹولوں اور ان کی خانہ جنگیوں‘ کرپشن اور باہمی لسانی اور سیاسی رقابتوں کی ہے مگر ان کی اندرونی تقسیم اور دھڑے بندی سے ہر علاقائی ریاست اور بڑی طاقتوں نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ ہمیں برطانیہ کی طرح ہمیشہ خطرہ اور خوف محسوس ہوتا رہا ہے کہ اگر افغانستان پر کوئی ایسا ملک حاوی ہوگیا جو اس کی سرزمین کو ہمارے قومی مفاد اور داخلی امن کے خلاف استعمال کرے گا تو مشکلات بڑھ جائیں گی۔ ہماری کوشش رہی ہے کہ وہاں استحکام ہو۔ افغانستان میں کوئی بھی حکومت ہو‘ پرانے تاریخی معاملات کو ہمارے لیے دردِ سر نہ بنائے‘ نہ ہی سرحدی علاقوں کے پشتونوں کو ہلہ شیری دے کر ہمارے خلاف استعمال کرے۔ افغانستان کے حوالے سے ہماری پالیسیاں جوہری اعتبار سے برطانیہ کی ”بفر‘‘ حکمت عملی سے زیادہ مختلف نہیں رہیں۔ کہنے کی بات ہے کہ اگر افغان مہاجرین دس پندرہ لاکھ کے لگ بھگ اور تقریباً اتنے ہی غیردستاویزی طور پر ہماری اجازت اور ویزے کے بغیر موجود ہیں تو اس میں بڑا ہاتھ ہمارا ہی ہے۔ افغانستان میں تقریباً چالیس سالہ بیرونی مداخلت اور اس سے پیدا ہونے والے اثرات اور جنگوں کی تباہی کے نتیجے میں افغان باشندوں نے ہمارے ملک کی طرف نقل مکانی کی ہے تو اس تمام صورتحال کو بیک جنبش قلم کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
میں انسانی المیے کا شاہد ہونے کے ناتے یہ سطور تاریخی گواہی کے لیے آپ کی نذر کررہا ہوں۔ میں نے افغان مہاجرین کے بارے میں بہت باتیں سنی ہیں۔ بہت کچھ اخباروں میں ان کے بارے پڑھا ہے۔ تقاریر کی شعلہ بیانی کبھی تھمی نہیں۔ بالکل اسی طرح کی باتیں ہمارے ملک سے جانے والے تارکین وطن کے خلاف امریکہ اور یورپ میں ہوتی رہتی ہیں۔ خاص طور پر جب وہاں معاشی بحران جنم لیتے ہیں۔ افغانوں کے بارے میں تاریخی پہلو سامنے رکھیں۔ یہ اس نوعیت کی تارک الوطنی نہیں جو تیسری دنیا سے مغرب کی طرف ہورہی ہے۔ یہ جنگوں اور طالبان جیسی حکومتوں کے خوف کے مارے اور تباہی اور بربادی کے خوف سے پناہ لینے والے افراد ہیں۔ ہم نے انہیں فراخ دلی سے پناہ دی‘ جو میزبانی کر سکتے تھے وہ ہم کرتے رہے مگر وہ کبھی ہماری معیشت پر بڑا بوجھ نہیں بنے۔ انہوں نے محنت مزدوری کی‘ تجارت اور سروسز کے شعبے میں اپنا روزگار خود کمایا۔ کچھ لوگ شاید اس بات سے اتفاق نہ کریں مگر میرا اپنا مشاہدہ یہی ہے۔ 1984ء کے اوائل میں جب افغانستان کی جنگ پر تحقیق کا آغاز کیا تو پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں مہاجرین کے کیمپوں میں کئی بار گیا۔ کئی افغان دانشوروں اور مجاہدین رہنماؤں سے کئی سال تک انٹرویو کا سلسلہ جاری رہا۔ تب تقریباً ملک کی نصف آبادی سوویت یونین کی اندھا دھند بمباری سے بچنے کے لیے سرحدیں پار کرکے قافلوں کی صورت پاکستان اور ایران میں آچکی تھی۔ ہم چونکہ افغانستان پر سوویت یونین کا قبضہ چھڑوانے کے لیے فرنٹ لائن ریاست کا کردار ادا کررہے تھے اور ساری دنیا کی حمایت ہمیں حاصل تھی‘ افغان مہاجرین کو ہم کھلے دل سے خوش آمدید کہتے رہے۔ جب بھی حالات وہاں قدرے بہتر ہوئے‘ اکثریت واپس چلی گئی۔ یا پھر جنہیں موقع ملا‘ وہ یورپ اور امریکہ کی طرف کوچ کر گئے۔ ایک زمانے میں یہاں تقریباً پینتیس لاکھ مہاجرین تھے۔ اب اس کے نصف سے بھی کم رہ گئے ہیں۔ لاکھوں افغان بچوں نے یہاں تعلیم حاصل کی ہے‘ اردو سیکھی ہے‘ کرکٹ کھیلنے کا شوق پالا ہے‘ اور ان کی نوکرشاہی سے لے کر تجارتی حلقوں میں اچھی خاصی تعداد ہے۔
افغانستان میں جا کر دیکھا ہے کہ عام لوگ مہاجرین کی حد تک ہمارے کردار کے معترف ہیں۔ وہاں حکومتوں اور پشتون قوم پرستوں کے بیانیے ان کی سیاسی مجبوری ہیں۔ انہیں بھی معلوم ہے کہ نہ کبھی سرحد تبدیل ہوگی اور نہ ہی وہ اس قابل ہیں کہ تاریخ کے دھارے کو اپنی طرف موڑ سکیں۔ عرض یہ ہے کہ جو خیر سگالی اور نیکی ہم نے افغان مہاجرین کو پناہ دے کر کمائی ہے‘ اسے جذبات میں آکر ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ دہشت گرد ہمارے دشمن ہیں اور اُن کا صفایا کرنا ہماری قومی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں ہماری افواج کے جوان اور ہر صوبے کی پولیس جو قربانیاں دے چکی ہے اور ہر روز دے رہی ہے‘ وہ ہمارے اوپر قرض ہیں کہ ہر صورت اور ہر قیمت پر دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا آخری حد تک پیچھا کریں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حالیہ واقعات میں بقول نگران وزیر داخلہ‘ افغان باشندے ملوث ہیں مگر فوری اور اجتماعی سزا افغان مہاجرین کو نہیں ملنی چاہیے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ انہیں موقع دیا جائے کہ وہ خود کو بطور مہاجرین رجسٹر کروائیں۔ ہماری ضلعی حکومتیں ایسا کرنے میں متحرک ہوں۔ لاکھوں افغان بچے سکولوں میں ہیں۔ انہیں بے دخل کرنے سے سوائے رسوائی اور بدنامی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر