مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شکم سے بندھے لوگ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہید سرمدؒ نے کہا تھا ’’زندگی جو دیتا ہے کہ اقرار سے زیادہ بندگی اور بندگی سے زیادہ بندوں سے محبت کی توقع کرتا ہے‘‘۔ بندوں سے محبت بارے ہی حضرت سید جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ نے کہا تھا

’’خالق کو مخلوق سے بڑھ کر کوئی پیارا نہیں جو اس کی مخلوق سے رشتہ جوڑے اسے اس کے ہاں درجوں پر درجہ ملتے ہیں۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ خالق کے ہاں بلند درجہ چاہے یا دنیا کے خودپسندوں میں شمار ہو‘‘۔

سرمد ہوں یا حضرت جلال الدین بخاریؒ یا پھر دیگر صوفیائے عظام ان میں سے ہر صاحب کمال نے خالق کی مخلوق سے محبت کو افضل ترین کیوں قرار دیا اس پر غور کرنے کی ضرورت ان کو زیادہ ہے جو انسانوں کو ذات پات، فرقے اور دوسری اقسام کی تقسیم کے دھندے میں نسل در نسل جتے ہوئے ہیں

شکم سے بندھی سوچ ہمیشہ تعصب و خودپسندی سے جنم لیتی ہے۔ ظاہر ہے تعصب کے سوتے جہل سے پھوٹتے ہیں۔

علم تو روشنی، تازگی، امید اور صراط مستقیم کی سمت رہنمائی کرتا ہے۔

بدقسمتی سے ہم ایک ایسے عہد اور سماج میں جینے پر مجبور ہیں جہاں صراط مستقیم کے معنی بدل ڈالے گئے ہیں۔ ہر طبقہ (فرقہ) اپنی اپنی صراط مستقیم لئے ہوئے ہے جو اس کے رہنما کے گھر درس یا دفتر تک محدودہے۔

جب کبھی اس دوغلے پن پر کڑھتا ہوں فقیر راحموں یہ کہہ کر دلاسا دیتا ہے ’’صراط مستقیم اقرار سے شروع ہوتی ہے‘‘ بندگی، محبت، احسان، علم، خدمت اس کے پڑائو ہیں۔ ایک سے دوسرے پڑائو یا آغاز سے اختتام تک ثابت قدمی سے چلنے اور نفرتوں کو پاس نہ پھٹکنے دینے و الے سرخرو ہوں گے‘‘۔

یہاں معاملے عجیب ہیں اپنا سچ اور دوسرے کا جھوٹ زعم یہ کہ ہم ہیں نا بس ہم ہیں اور سب ہمارے لئے ہے۔ ارے بھائی کیوں یہ سب آپ کے لئے ہوا۔ کوئی سرخاب کے پر لگے ہیں آپ میں؟

عدم نے کیا خوب تھا:

عشق کی چوٹ تو سبھی پہ پڑتی ہے یکساں

ظرف کے فرق سے آواز بدل جاتی ہے

اس لئے تو کہا گیا کہ

’’میخانہ کی دہلیز ظرف مندوں اور کم ظرفوں کا پول کھول دیتی ہے‘‘

اس پر بہت سے لوگ چیں بچیں ہوتے ہیں حالانکہ ضرورت نہیں۔ یہ اور مکتب کی باتیں ہیں۔ مکتب فرزانگی کی، دو جمع دو سے چار یا چھ بنانے اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لئے صبح سے شام کرنے والے کیا سمجھیں گے۔

شکم پرستوں نے اس مکتب کی دہلیز پر جو ہنگامے اٹھائے ہمارے عہد کے شاعر احمد فراز نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا۔

کچھ اہل ستم کچھ اہل ہشم میخانہ گرانے آئے تھے

دہلیز کو چوم کے چھوڑ گئے دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے۔

تلسی داس نے تو اس سے بھی عجیب بات کہی:

نجانے لوگ میخانہ سے مراد وہ مقام کیوں لیتے ہیں جہاں خود فراموشی سر چڑھ کر ناچتی ہے یہ تو وہ مقام ہے جہاں فکر کے نئے در وا ہوتے ہیں، اشعاروں کی اپنی دنیا ہے اس کی الف ب کو سمجھے بغیر ہائے ہو بلاسبب ہے۔

حسین لوائی نے کہا تھا میخانہ اور حرم دونوں میرے اندر آباد ہیں

’’الگ اٹھا رکھئے بڑا خشک موضوع ہے حالانکہ ’’یار‘‘ کے کوچہ کی راہ یہیں سے نکلتی ہے۔ سمجھنے والوں کے لئے اسمیں بہت کچھ ہے اور جو نہ سمجھنا چاہیں ان کے لئے جلاپے کی آگ جس میں وہ عمر بھر جلتے رہتے ہیں۔

حافظ شیرازیؒ نے کہا تھا ’’مجھے میخانہ میں ڈوب کر سراغ زندگی ملا‘‘ وہ شیرازی تھے جنہیں سراغ زندگی مل گیا یہاں اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ ایک ایسا مقام جو آدمی کو زندگی اور ہوش سے توڑ لیتا ہے ایسا ہے نہیں۔

اقرار کا نغمہ الاپنے کے لئے جس فرزانگی کی ضرورت ہے وہ بازار میں بھائوتائو سے ملتی تو سمجھئے کیا ہوتا۔ فرزانگی کی بکل اوڑھنے کے لئے قربانیاں دینا پڑتی ہیں نا تمامی سے تمامی تک کا سفر آدمی کو کبھی سولی چڑھواتا ہے اور کبھی جلاد کی تلوار کے نیچے سر رکھنے کی منزل پر ہر دو مقام کے فاتح ظرف مند ہی ہوتے ہیں۔

کم ظرف اس راہ پر دو قدم نہیں چل سکتے۔ لکھنے والا کیا محض اپنے لئے لکھتاہے برسوں پہلے یہ سوال ہمارے عہد کو اپنی دانش کے چراغ سے روشن کرنے والے نابغہ روزگار سید سبط حسن کی خدمت میں عرض کیا تھا۔ جواب ملا ’’خودستائی کے لئے لکھنے والے اپنی تحریروں کی قید میں دفن ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کے لئے لکھا جائے اور ایک بھی آدمی پالینے کی بے خودی کو محسوس کرلے تو حق ادا ہوجاتا ہے۔

مطلب یہ ہوا کہ تحریر میں چھپا پیغام ایک بھی قلب پر دستک دے جائے تو محنت وصول اور لکھنے والے کیا چاہتے ہیں۔

چند برس ادھر برادرم توقیر احمد نے لکھا ’’ایک صوفی آپ کے اندر چھپا ہوا ہے‘‘ کسی توقف کے بنا عرض کیا طالب علم ہے بے چین طالب علم اوریہ صوفیائے عظام کے قدموں سے اٹھی دھول کی برابری کا دعویدار بھی نہیں۔

کیسے سمجھ میں آئے گا کہ حضرت سید عبداللہ شاہ بخاری المعروف بابا بلھے شاہؒ نے کیوں کہا تھا ‘‘گرانے کا سودا سر میں سماجائے تو مسجد، مندرسمیت جو گراسکتے ہو گرائو لیکن انسان کا دل توڑنے سے پہلے یہ سو بار سوچناکہ رب العالمین اس دل میں رہتا ہے‘‘

وہ تو شکر ہے کہ شاہؒ اب نہیں ورنہ ملا اور پنڈت مشترکہ فتوئوں کی چاند ماری کرتے دیکھائی دے رہے ہوتے ویسے فتووں کا سامنا تو شاہ کو اپنی زندگی میں کرنا ہی پڑا تھا ۔

حضرت خواجہ غلام فریدؒ یاد آئے۔ فرماتے ہیں

’’فضیلت یہ ہے کہ اپنے حصے میں بے نوا کو شریک کرے۔ اپنوں پر شفقت تو ہر کوئی کرلیتا ہے اس کے اصل حقدار وہ ہیں جن کا کوئی نہ ہو‘‘

عجیب بات یہ ہے کہ جنہیں نماز عشق کی انتہا معلوم نہیں وہ عشق پر کلام کرتے ہیں۔ نماز عشق سر سجدہ میں اور گردن قاتل کے کند خنجر کے نیچے پھر کہیں حق بندگی ادا ہوتا ہے۔

صوفیا نے جس میخانے کی بات کی ہے وہ دارووں والا اڈہ ہے نہ یورپ میں قدم قدم پر کھلے ’’پب‘‘۔ یار کے کوچہ میں وہی جاتا ہے جو سر ہتھیلی پر رکھنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ ہمارے چار اور تو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے شوقینوں کا ہجوم ہے۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں کے لئے برادر زادوں کو روندتے بھاگتے کیا سمجھیں گے۔

ورنہ حضرت سعدیؒ تو بہت پہلے کہہ گئے تھے

’’میرے کریم، میرے گناہوں اور معاملات کی بنیاد پر نہیں اپنے محبوب کی شفقت اور اپنے کرم کے حساب سے حساب کرنا‘‘ حضرت سعدیؒ کا نام آتے ہی احترام میں گردنیں جھک جاتی ہیں طالب علموں کی ۔

لیکن درعلم کے اس فقیر کا ایمان اس پر قائم ہے کہ ’’دوستوں میں حساب کیسا اسے تو فقط یہ دیکھنا ہے کہ حق دوستی ادا ہوا کہ نہیں‘‘۔

باردیگر عرض ہے کہ ’’نئے اسلوب سے بات ہونی چاہئے فقط یہی نہیں بلکہ اپنے عہد کے مسائل کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش اچھی لگنی چاہئے ‘‘ طالب علم اپنے پڑھنے والوں کا ہمیشہ سے سپاس گزار ہے۔

ہمیں تعصب و تنگ نظری اور سماج بیزاری کے امراض کا علاج ڈھونڈنا ہے تو ان صادق و عہد ساز اہل دانش کی طرف رجوع کرنا ہوگا جن کے ہاں محبت اور انسان دوستی سے سیراب ہونے کے لئے ذات پات اور مذہب و عقیدے کی کوئی پابندی نہیں۔

’’سرمدی نغمہ الاپنے کے لئے بھی تو ظرف درکار ہے۔

شاہ نے (شاہ عبداللطیف بھٹائی) نے کہا تھا ’’سرمدی نغمہ کی الاپ گردن اتر جانے کے بعد بھی سنائی دیتی رہتی ہے اور یہی سچائی کا ثبوت ہے‘‘۔

کالم کے دامن میں گنجائش کم ہوتی جارہی ہے۔ حافظ شیرازیؒ یاد آرہے ہیں مگر ایک لمحہ کو رک کر عمر خیام کی سن لیجئے

’’دوئی کو پاٹنے کےلئے گردن اتروانے کا حوصلہ ہو تو اس راہ پر آئو۔ کم حوصلہ لوگوں کو تو سات کوس دور سے راستہ بدل لینا چاہیے‘‘۔

حافظ شیرازیؒ نے کہا کہ ہمارے میخانہ میں فرزانگی کے جام پئے جاتے ہیں‘‘ فرزانگی یہ ہے کہ طلب دنیا کے لئے نہیں بلک حسن زندگی کے لئے قربان ہونے کا حوصلہ ہو‘‘

حضرت سچل سرمتؒ سے کسی نے دریافت کیا تھا حضور حسن زندگی کیا ہے؟ مسکراتے ہوئے فرمایا

’’زندوں کے درد و الم کو محسوس کرکے مداوے کے لئے اپنی قربانی میں پہل کرنا۔

اب یہاں کتنے لوگ ہیں جو پہل کرپائیں گے قربانی میں؟ ہم تو دوسروں کی قربانیوں پر اپنا سکہ چلاتی مخلوق ہیں۔

اپنے بچوں کے سکھ کے لئے دوسروں کے بچوں کو بلی چڑھانے والوں سے پوچھ لیجئے سب سمجھ میں آجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: