مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ: چودہویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

وہ بالکل اس شخص کی طرح ہے جسے پھانسی کا حکم سنایا جا چکا ہو، پھانسی کا تختہ سامنے دکھائی دے رہا ہو اور وہ ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا پھانسی کے تختے کی طرف بڑھے۔ کیوں کہ اسے پتہ ہوتا ہے یہ تو ہونا ہی ہے اگر وہ خود نہیں جائے گا یا جا نہیں پائے گا تو اسے اٹھا کر طاقت استعمال کر کے وہاں تک پہنچا دیا جائے گا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسی میں ثانیہ کو دوسرا حمل ہو گیا۔ دوسرے بچے کی پیدائش کے بعد اس نے ارشد کو اپنے ہی گھر کے دوسرے کمرے میں ایک مہمان عورت کے ساتھ مباشرت کرتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر وہ اپنے ہوش گم کر بیٹھی لیکن جب اس نے ارشد سے بازپرس کی تو ارشد نے اسے بری طرح جھاڑ دیا اور نقصان پہچانے کی دھمکی دی۔ اسے لگا کہ اس کے جسم میں پھر سے آگ بھڑک اٹھی ہے۔

 

ناول میں یہ واقعہ ثانیہ کے تانیثی شعور کی صورت گری کا اہم موڑ ہے۔

اس نے ارشد کو کہا کہ تو دھمکی دے رہا ہے کہ مجھے چھوڑ دے گا، میں اب خود اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی۔ ارشد کے مارنے اور دھمکانے کے باوجود وہ گھر سے نکل آئی اور کسی نہ کسی طرح بہن کے گھر کراچی پہنچ گئی۔

ارشد نے بعد میں ثانیہ کو طلاق دے کر تیسری شادی کرلی۔ کراچی میں ثانیہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے کے بعد ایک کارخانے میں نوکری کر لی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اُسے علم ہوا کہ کارخانے میں کام کرنے والی ورکروں کو مالک کی کچھ اور خواہشیں بھی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ یونس نامی مالک کی نظر ثانیہ پر پڑی اور بہت جلد دونوں کے جسمانی تعلقات استوار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں ثانیہ حاملہ ہو گئی۔ یونس کی مدد سے ہی ثانیہ نے اس حمل کو ضائع کروا دیا۔ اس کے بعد ثانیہ نے اس سے تعلقات ختم کر دیے کہ اسے ایک گھر کی خواہش ہونے لگی تھی۔

اسی اثنا میں اس نے میٹرک کر لیا اور ایک سکول میں لڑکیوں کو کٹائی سلائی سکھانے لگی۔ وہاں اس کی ملاقات نوید نامی شخص سے ہوئی اور دونوں ایک دوسری کی چاہت میں گرفتار ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد نوید امریکہ چلا گیا۔ اس کے دوست کمال نے ثانیہ کو امریکہ کا ویزا لگوانے کی آفر کی اور وہ پیسے جمع کرنے کے لیے کمال کے کہنے پر چرس ادھر سے ادھر پہنچانے لگی۔ لیکن مطلوبہ رقم جمع نہیں ہو رہی تھی۔ نوید کے پاس جلد از جلد پہنچنے کے لیے پیسے اکٹھے کرنا ضروری تھا سو اس کے لیے وہ جسم بھی بیچنے لگی۔ جسم بیچنے کا فیصلہ آسان نہیں تھا، اور ثانیہ نے اسے اپنی موت سمجھ کر قبول کیا تھا۔

جسم بیچنا اور ٹکے ٹکے کے گاہکوں کے ساتھ سونا کسی بھی عورت کے لیے آسان کام نہیں، خاندانی طوائف کے لیے بھی نہیں۔ یہ پیشہ عورت کو جہنم میں زندہ جلنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ برہنہ اور آبلہ پا چلنے پہ مجبور ہوتی ہے۔ خریدار کے لیے وہ کچھ لمحوں کے لیے خریدی ہوئی عورت ہوتی ہے جس سے وہ دل لگی کرتے ہوئے اپنے اندر کی آگ بجھا سکتا ہے۔ لیکن وہ آگ اصل میں بجھتی نہیں وہ آگ عورت میں منتقل ہو کر اس کے جسم کو ہر وقت جلاتی ہے اور اسے لمحہ لمحہ راکھ میں بدلتی رہی ہے۔

 

جسم کی اس خرید و فروخت سے ہونے والے کرب اور اذیت نے ثانیہ کے دل و دماغ کو بری طرح متاثر کیا۔ وہ زمانہ اس کے لیے ایک ایسا تاریک اور گہرا کنواں بنا جس سے نکلنے کی کوشش میں اس نے نبیل سے شادی کی۔

وہ اپنے کرب کا اظہار کرتے ہوئے اس دور کو یاد کرتی ہے۔

”میں نے سنا ہے جب کسی کو پھانسی کی سزا سنا دی جاتی ہے تو اسے ایک الگ کوٹھڑی میں بند کر دیا جاتا ہے لیکن اس کمرے میں روشن دان ضرور ہوتا ہو گا۔ ایسا روشن دان جس میں سے کسی وقت آسمان کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی دیتا ہو گا اور کبھی کبھار ہوا کا ایک جھونکا بھی آتا ہو گا۔ ممکن ہے باہر کی طرف کوئی برآمدہ بھی ہوتا ہو۔ تو جیسے ہی جیل میں بند اس آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ اس کے پاس زندگی گھنٹوں میں، دنوں میں اور لمحوں میں باقی رہ گئی ہے تو وہ سب سے پہلے روشن دان کی طرف دیکھتا ہو گا۔ روشن دان کی سلاخوں عبور کرتے ہوئے اس کی نظریں آسمان تک پہنچتی ہوں گی اس وقت اسے آسمان کیسا دکھائی دیتا ہو گا؟ شاید دنیا کی سب سے بڑی نعمت۔

 

بالکل اس طرح لگتا ہے نا جب عورت اپنے جسم کا سودا کرنے کے بعد پہلی بار کسی مرد کے ساتھ جا رہی ہوتی ہے۔ وہ چلتی ہوئی سواری میں سے باہر تیزی سے گزرتی ہوئی چیزوں اور سواریوں کی طرف دیکھتی ہے، اسے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس سے پہلی اس نے وہ چیزیں کبھی نہ دیکھی ہوں ہر چیز بالکل تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر ایک غیر معمولی احساس پیدا ہو جاتا ہے یہ غیر معمولی احساس اسے بتاتا ہے کہ تھوڑی دیر بعد ہر چیز تبدیل ہونے والی ہے جیسے تھوڑی دیر بعد ہر چیز مرنے والی ہے۔ اس دوران ایک ہاتھ رینگتا ہوا اسے چھوتا ہے اس کے جسم کے کسی بھی حصے کو لیکن وہ اس ہاتھ کو روک نہیں سکتی۔ حالانکہ وہ ہاتھ غیر ہوتا ہے اجنبی ہوتا ہے وہ اس کے لمس پر کسمساتی ہے اس ہاتھ کو جھٹکنا چاہتی ہے لیکن جھٹک نہیں سکتی۔ اسے یاد آ جاتا ہی کہ وہ یہ جسم فروخت کر چکی ہے۔ وہ اپنے خریدار کو دیکھتی ہے اس کے چہرے پر ایک غلیظ اور فحش مسکراہٹ پھیلی ہوتی ہے۔ اس مسکراہٹ کی جواب میں اسے کیا کرنا چاہیے، لہذا وہ مسکراتی ہے، ایک مردہ مسکراہٹ ایک بے جان ٹھنڈی اور کراہت بھری مسکراہٹ۔ لیکن اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ کہ وہ ابھی اتر جائے، چلتی ہوئی اس سواری سے کود جائے لیکن ایک بار پھر اس کی ضرورتیں اس کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔

اس طرح وہ کسی گھر، کسی کمرے یا کسی مکان میں پہنچ جاتے ہیں۔ اب وہ اس مرد کے رحم و کرم پر ہے اب وہ اسے بستر پر لے جاتا ہے۔ وہاں وہ اپنی زر خرید عورت پر پہلا حملہ کرتا ہے۔ اسے لپٹانا ہے چپٹا تا ہے اس سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح کرے جس طرح وہ کر رہا ہے۔ وہ کوشش کرتی ہے لیکن ظاہر ہے نہیں کر سکتی، غیر آمادہ لمس مرد کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اور تھک کر ایک طرف بیٹھ جاتا ہے۔ وہ اسے لباس اتارنے کا حکم دیتا ہے اور وہ عورت اس کے سامنے بے لباس ہونے سے انکار نہیں کر سکتی۔

وہ بالکل اس شخص کی طرح ہے جسے پھانسی کا حکم سنایا جا چکا ہو، پھانسی کا تختہ سامنے دکھائی دے رہا ہو اور وہ ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا پھانسی کے تختے کی طرف بڑھے۔ کیوں کہ اسے پتہ ہوتا ہے یہ تو ہونا ہی ہے اگر وہ خود نہیں جائے گا یا جا نہیں پائے گا تو اسے اٹھا کر طاقت استعمال کر کے وہاں تک پہنچا دیا جائے گا۔

 

بالکل اسی طرح وہ ایک ایک کر کے اپنے کپڑے اتارتی ہے اور ہر کپڑا اپنے جسم سے الگ کر کے چاہتی ہے کہ کوئی حادثہ ہو جائے، اچانک وہاں کوئی آ جائے اور اس کے بے لباس ہونے کا سلسلہ ختم ہو جائے مگر ایسا نہیں ہوتا۔

جوں جوں اس کے جسم پر لباس کم ہوتا جاتا ہے، خریدار کے چہرے پر پھیلی ہوئی وحشیانہ مسکراہٹ بڑھتی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے۔

اب آخری مرحلہ ہے اسے پھانسی کے تختے تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں چڑھنی ہیں یا چند قدم بڑھا کر بستر پر پہنچنا ہے۔ وہ ایک قدم بڑھاتی ہے اور اسے یوں لگتا ہے کہ اس کا سارا بالائی جسم بوجھل ہو رہا ہے۔ اس کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں اس کے باوجود وہ خود کو روک نہیں سکتی۔ ایک قدم، پھر دوسرا قدم، پھر تیسرا قدم اور پھر چوتھا قدم۔

 

اسے لگتا ہے کہ فاصلہ بہت طویل ہے وہ بڑھتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ پھانسی کا تختہ بالکل۔ سامنے آ جاتا ہے۔ جلاد اسے اپنے برابر بیٹھنے کی جگہ دیتا ہے، اپنے ہاتھوں کی توہین آمیز گردش سے اس کا سرد جسم بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

کون جانتا ہے کہ اس وقت وہ عورت کیا سوچتی ہے؟ پھانسی پر چڑھنے والا مرد تو سوچتا ہو گا یقیناً یہی کہ وہ اس لمحے کو ٹال سکتا تھا۔ اسے سارے اگر مگر سوجھتے ہوں گے یا ہو سکتا ہے کہ اس کا دماغ سُن ہو جاتا ہو، شدید خوف کی وجہ سے کچھ بھی سوچنے سے انکار کر دیتا ہو۔

ویسے بھی پھندا گلے میں پڑنے اور تختہ ایک بار سرکنے کے بعد سزا یافتہ باقی عمر اور اس کی اذیت سے نجات پا جاتا ہے۔ لیکن جسم فروشی کرنے والی عورت اس توہین آمیز لمس اور ذلت آمیز جملوں کے ساتھ بار بار مرتی اور زندہ ہوتی ہے۔ زندہ ہوتی ہے تاکہ مر سکے، مرتی ہے کہ زندہ نہیں رہ سکتی اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک قاتل تھک نہیں جاتا۔ جوں ہی قاتل نڈھال ہوتا ہے، مقتول نجات پا جاتا ہے لیکن تب تک مقتول کے لئے ساری دنیا، دنیا کی ہر چیز تبدیل ہو چکی ہوتی ہے اور یہ سلسلہ کسی ایک قاتل پر ختم نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: