حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کے جو حالات ہیں ان میں ایک نئی اور موثر سیاسی جماعت کے قیام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ٹی وی پروگرام میں یہ بھی کہا کہ 35 برسوں سے مسلم لیگ (ن) میں ہوں مگر آج میرے پاس لوگوں کے سوالات کا جواب نہیں ہے۔
اپنے مرحوم والد کی سیاسی حیثیت کی وراثت سنبھال کر مسلم لیگ (ن) میں اہم جماعتی منصبوں اور اس کے مختلف ادوار میں وفاقی وزیر رہنے کے علاوہ شاہد خاقان عباسی 2017ء میں پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم بنائے گئے
2018ء میں اپنے آبائی حلقہ انتخاب سے شکست سے دوچار ہوئے (ن) لیگ کے ٹکٹ پر ہی متبادل نشست سے کامیاب ہوئے۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ان کی دوریاں بظاہر سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنائے جانے پر شروع ہوئیں
اس پر انہوں نے پارٹی کے سینئر نائب صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہیں موجودہ حالات میں ایک نئی اور موثر سیاسی جماعت کے قیام کے واضح امکانات دیکھائی دے رہے ہیں یقیناً یہ "بلاوجہ” دیکھائی نہیں دے رہے ہوں گے۔
گزشتہ ڈیڑھ پونے دو برسوں سے وہ اپنی جماعت کی سیاسی حکمت عملیوں ا ور فیصلوں سے اختلاف کرتے سنائی دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خاتمہ پر پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی مخلوط حکومت میں وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے کے خواہش مند تھے مگر ان کی یہ خواہش دو جوہات کی بنا پر پوری نہ ہوپائی
اولاً پی ڈی ایم کی ایک بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی جسے پی ڈی ایم کے سیکرٹری جنرل کے طور پر انہوں نے اتحاد سے نکال باہر پھینکا تھا میاں شہباز شریف کا نام اتحادی حکومت کے وزیراعظم کے طور پر پیش کرچکی تھی۔
ثانیاً 2018ء کے انتخابات کے بعد ان کی اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعدد ملاقاتیں ہیں، پارٹی کے اندر اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی تھیں نیز یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بالخصوص شریف برادران یہ سمجھتے ہیں کہ مفتاح اسماعیل کا اپنی جگہ اسحق ڈار کو وزیر خزانہ بنائے جانے کے فیصلے کی عوامی سطح اور میڈیا پر مخالفت کے پیچھے بھی شاہد خاقان عباسی ہی تھے۔
سیاسی جماعتوں کے اندر جماعتوں کےبانی خاندانوں اور دیگر رہنمائوں کے درمیان اختلاف رائے نظریاتی بہرطور نہیں ہوتا یہ اختلافات عموماً شخصی انا اور مفادات سے جنم لیتے ہیں۔
شاہد خاقان عباسی کا موقف ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ان کی ملاقاتیں پارٹی قیادت کی اجازت سے ہوئیں میں نے اجازت لینا اس کے باوجود ضروری سمجھا کہ میرے ان سے خاندانی مراسم تھے۔
عمومی رائے یہ ہے کہ ناراضگی دوریوں اور تنقیدی بیانات کےساتھ مفتاح اسماعیل کی پیٹھ تھپکے جانے کی وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ عباسی پارٹی میں خود کو نظرانداز کئے جانے پر رنجیدہ تھے۔
ان کا خیال تھا کہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) میں دوریاں ختم کرانے اور مراسم کے نئے دور کی بنیاد رکھنے کے صلے میں پارٹی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہیں مخلوط حکومت کا وزیراعظم نامزد کرے گی۔
نہ صرف یہ کہ انہیں وزیراعظم نہیں بنایا گیا بلکہ وفاقی کابینہ میں ان کی تجویز کردہ پانچ میں سے صرف ایک مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنایا گیا
پھر انہیں بھی سبکدوش کرکے میاں نوازشریف کے سمدھی سینیٹر اسحق ڈار وزیر خزانہ بنادیئے گئے۔
جہاں تک نئی سیاسی جماعت کے امکانات کا تعلق ہے تو اسے یکسر رد نہیں کیا جاسکتا۔ سیاسی جماعتوں کے قیام پر کوئی پابندی ہے نہ ہی قیام کے لئے خاص معروضی حالات متقاضی ہیں۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا نئی سیاسی جماعت رائے عامہ کے بڑے یا ایک خاص حصے کو متاثر کرپائے گی؟ بظاہر اس وقت جو صورتحال ہے اس میں مسلم لیگ (ن) کے چند ناراض رہنما اور پیپلزپارٹی کے بعض سابقین مشترکہ طور پر پچھلے ایک برس سے چاروں صوبوں کی مختلف الخیال سیاسی شخصیات سے رابطوں کے ساتھ آئین و جمہوریت اور انسانی حقوق کے عنوانوں سے سیمیناروں کا انعقاد کرتے رہے ہیں۔
سیاسی جماعت کی تشکیل میں فی الوقت اہم ترین چیز سرمایہ ہے اور وسیع یا کسی حد تک حاصل عوامی تائید اور سکورٹی اسٹیٹ میں سیاست کرنے کے لوازمات ۔
شاہد خاقان عباسی کے ساتھ پچھلے ایک برس سے رابطہ مہم میں شریک سیاسی شخصیات میں سے صرف عباسی ہی حلقہ ہائے انتخاب رکھتے ہیں دوسری شخصیات اپنی سماجی حیثیت میں ضلع کونسل کا انتخاب جیتنے کی پورزیشن میں بھی نہیں اس صورتحال میں نئی سیاسی جماعت کا قیام تجربہ تو ہوسکتا ہے یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ ’’وہ آئے اور چھاگئے‘‘
فوری طور پر اس تاثر سے اتفاق یا تردید ممکن نہیں کہ مسلم لیگ و پیپلزپارٹی کے حاضر و سابق بعض اصلاح پسندوں اور دیگر شخصیات کو ملاکر نئی سیاسی جماعت بنانے کی کوششوں کے پیچھے کوئی خاص قوت یا گروپ ہے۔
سیاسی آزادی رائے سازی اور سیاسی جماعت کے قیام کے معاملات کو آگے بڑھانا ہر کس وناکس کا حق ہے۔ اصل سوال یہ ے کہ اگر نئی سیاسی جماعت بنتی ہے تو اس کی قیادت انتہاہوں میں تقسیم سماج میں اپنا حصہ کیسے نکال پائے گی؟
رہی بات یہ کہ میں 35 برسوں سے مسلم لیگ (ن) میں ہوں مگر آج میرے پاس لوگوں کے سوالات کا جواب نہیں تو یہ بات خود اپنا مذاق اڑانے جیسی ہی ہے۔
شاہد خاقان عباسی متعدد بار وفاقی وزیر اور پھر وزیراعظم رہے پارٹی کی تنظیم میں بھی ان کے پاس ہمیشہ اہم عہدہ رہا وہ پارٹی کے پالیسی سازوں میں شمار ہوتے رہے انہیں پارٹی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی ساجھے داری کا بوجھ اٹھاکر لوگوں کے سوالات کا جواب دینا چاہیے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں نظریاتی بنیادوں پر سیاسی جماعتوں کی تشکیل کم ہی ہوتی ہے زیادہ تر سیاسی جماعتیں شخصی اختلافات اور ذاتی خواہشات کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر بنتی ہیں۔
عباسی اور انکے ساتھی اس وقت کس مقام پر کھڑے ہیں اس پر تبصرے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کیا وہ اور ان کے ابھی تک کے ساتھی اپنی سابق جماعتوں کے ووٹ بینک میں سے حصہ لے سکیں گے؟
بادی النظر میں یہ خاصا مشکل ہے اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہ ہے کہ مروجہ سیاست میں ووٹ بینک جماعتوں اور نظریات کا نہیں بلکہ شخصیات کا ہے یا تعصب کا۔
شخصیات کا ووٹ بینک سیاسی جماعتوں کے پاس ہے اور تعصبات کا ووٹ بینک مختلف مسالک کی سیاسی جماعتوں کے پاس۔
شاہد خاقان عباسی اوران کے رفقا تجربہ کار انقلابی بہرطور نہیں بلکہ مروجہ سیاست کے ایسے کردار ہیں جنہیں خاندانی پس منظر اور سرمایہ سیاسی جماعتوں میں اہمیت دلواتا ہے لیکن کیا یہ دونوں ’’خوبیاں‘‘ نئی سیاسی جماعت کی تشکیل اور عوامی پذیرائی میں معاون بن سکتی ہیں،
یہ وہ سوال ہے جس سے شاہد خاقان عباسی اور ان کے رفقاء آنکھیں نہیں چراسکتے بلکہ انہیں اس سوال کا جواب دینا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر