رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں سارا زور اس بات پر لگایا تھا کہ بینظیر بھٹو اور آصف زرداری نے 1994ء کی پاور پالیسی میں بجلی سرمایہ کاروں کو جو ٹیرف دیا تھا وہ ڈالروں میں تھا۔ انہیں یہ بھی سہولت دی گئی تھی کہ وہ جتنی بجلی پیدا کریں گے وہ ساری خریدی جائے گی چاہے وہ استعمال ہو یا نہ ہو۔ یہ پاکستان میں پہلی دفعہ ہو رہا تھا کہ حکومت کے بجائے پرائیویٹ پاور پلانٹس نے بجلی پیدا کرنی تھی اور انہیں فی یونٹ ریٹ بھی ڈالروں میں ملنا تھا۔ 19کے قریب پاور پلانٹس لگائے گئے جن کے مہنگے ریٹس پر اس وقت بھی شور ڈالا گیا تھا۔ زرداری صاحب پر سنگین الزامات بھی لگے لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایک بات ہے کہ زرداری صاحب کو کبھی اپنے امیج کی فکر نہیں رہی‘ نہ انہوں نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر اسلامی ٹچ دے کر خود کو نیک ثابت کرنے کی کوشش کی۔ وہ جیسے ہے‘ جہاں ہے کی بنیاد پر یقین رکھنے والے عملی انسان ہیں۔ ان کے نزدیک لوگوں کی رائے سے زیادہ پیسہ کمانا اہم تھا۔ ہو سکتا ہے کہ بینظیر بھٹو نے کچھ مزاحمت کی ہو لیکن زرداری صاحب نے یہ کہہ کر ساری بات ختم کر دی تھی کہ محترمہ اگر نواز شریف کا سیاست میں مقابلہ کرنا ہے تو پھر ان کے جتنی دولت بھی کمانا ہو گی۔ بغیر دولت سیاست نہیں کی جا سکتی اور اپنی جیب سے کوئی پیسہ لگا کر سیاست نہیں کرتا۔ یوں پھر یہ سلسلہ شروع ہو گیا۔
بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بینظیر بھٹو پر جنیوا میں نیکلس کا مقدمہ بنا جس پر بعد میں عالمی ریڈ وارنٹ بھی نکلے تو زرداری صاحب پر 60ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا کیس بنا جسے بعد میں پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو سے اس وعدے کیساتھ بند کرایا کہ پیپلز پارٹی الیکشن کے بعد پرویز مشرف کو دوبارہ صدر بنائے گی اور امریکن فارمولے کے تحت پاور شیئرنگ ہو گی۔ نواز شریف کو لگا کہ کامیاب بزنس مین تو وہ کہلاتے ہیں لیکن اصل چونا زرداری صاحب لگا رہے تھے۔ باقی سب بزنس مین پاکستانی روپوں میں کما رہے تھے لیکن زرداری صاحب نے پاور پلانٹ کے نام پر ڈالروں کا لمبا کھیل کھیلا تھا۔ نواز شریف نے ان پلانٹس کو بنیاد بنا کر زرداری صاحب اور بینظیر بھٹو کے خلاف بیانیہ بنا کر الیکشن جیتا۔
شہباز شریف زرداری صاحب کو لاڑکانہ کی گلیوں میں گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر سارا لوٹا ہوا پیسہ‘ جو ان کے بقول سوئس بینکوں میں پڑا ہوا تھا‘ نکلوانے کے نعرے لگانا شروع ہو گئے لیکن ڈالروں میں کمائی کے خیال نے شریفوں کو بھی اس لائن میں کھڑا کر دیا کہ اب موٹر وے کے بجائے پاور پلانٹس لگائیں۔ جب نواز شریف 2013ء میں وزیراعظم بنے تو چین کیساتھ انرجی کے معاہدوں کے نام پر وہی کھیل کھیلنے کی تیاری پکڑ لی جو زرداری صاحب اور بینظیر بھٹو نے کھیلا تھا۔ اب ڈالروں میں سودے ایسے ہونے لگے جیسے یہ امریکی نہیں بلکہ پاکستانی کرنسی تھی اور اسے چھاپنے کا کام امریکی مرکزی بینک نہیں بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس تھا لہٰذا ہر بندے کو جو بھی ڈیل مل رہی تھی‘ وہ اب ڈالروں میں تھی۔
پاور جنریشن پالیسی کے نام پر 2015ء میں ایک ڈاکیومنٹ تیار کیا گیا جس نے آنے والے برسوں میں پاور سیکٹر کو مکمل طور پر ڈالر پر منتقل کرنا تھا۔ قوم ابھی تک صرف بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب کی 1994ء کی پاور پالیسی کے نتائج بھگت رہی تھی کہ اب میاں نواز شریف نے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اس پالیسی کے تحت اب جو بھی نئے آر ایل این جی‘ کوئلے اور فیول پلانٹس لگنے تھے ان کی تمام ادائیگیاں بھی ڈالروں میں ہونی تھی۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نام پر اس پالیسی میں منظوری دی گئی کہ حکومتِ پاکستان ان پلانٹس کو سب ادائیگیاں ڈالروں میں کرنے کی پابند ہو گی۔ اگر روپے کے مقابلے میں ڈالر ریٹ اوپر نیچے ہوا تو جتنا فرق پڑے گا وہ بھی سارا حکومت دے گی۔ حکومت نے عام لوگوں کے بجلی کے بلز میں یہ فرق ڈال کر وصول کرنا تھا۔ ایسے منصوبوں کی بھی منظوری دی گئی کہ حکومت خود یہ پاور پراجیکٹس بنا کر پرائیویٹ پارٹیوں کو بیچ سکتی ہے۔ مطلب اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے سیاستدان خود وہ پلانٹس خرید سکتے تھے۔ حکومت نے اس پاور پالیسی میں لکھ کر دیا کہ وہ ان پاور پلانٹس سے ساری بجلی خریدے گی چاہے وہ استعمال ہو یا نہ ہو۔ ان پلانٹس کو بغیر بجلی بنائے بھی ڈالروں میں پیسہ ملے گا۔ ساتھ میں آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اور صوبائی حکومتوں کو بھی پابند کر دیا گیا کہ وہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔ یہ بھی ضمانت دی گئی کہ وہ ان پارٹیوں کے روپوں کو ڈالروں کی شکل میں کنورٹ کریں گے۔ اس پالیسی کے تحت ہی میاں نواز شریف کی حکومت نے ان پلانٹ مالکان کو انکم ٹیکس معاف کیا بلکہ باہر سے امپورٹ کی گئی مشینری پر بھی ڈیوٹی میں رعایت کرکے صرف پانچ فیصد کر دی۔
اب جو کرشمہ دکھانا تھا وہ ساہیوال میں لگنے والے کول پلانٹ پر دکھانا تھا۔ دوسرا کوئلہ پلانٹ پورٹ قاسم پر لگنا تھا۔ جب ان دونوں پلانٹس کا کچھ عرصے بعد ریویو کیا گیا تو بڑے خوفناک انکشافات سامنے آئے۔ ساہیوال پلانٹ کی مشینری نئی تھی لیکن جو پورٹ قاسم پر پلانٹ لگا اس کی مشینری پر شک تھا۔ ان دونوں پلانٹس میں سرمایہ کاری چینی دوستوں کی دکھائی گئی تھی لیکن اس کے پیچھے شریف لوگ تھے۔ اکثر کوئلے کے پلانٹ ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئلے کا پلانٹ انسانی آبادی کے قریب یا زرعی زمینوں کے درمیان لگایا جائے۔ لیکن جو شریف لوگ اس وقت ان سب معاملات کو دیکھ رہے تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ ہر قیمت پر ایک پلانٹ پنجاب میں لگنا چاہیے تاکہ اپنی اونر شپ کا احساس رہے اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال میں آسانی رہے۔ اگرچہ اس پر شور مچا کہ یہ پلانٹ انسانی جانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا لیکن شریف لوگوں کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے پر تیار نہ تھے۔ انہیں علم تھا کہ اس کوئلے کے پلانٹ کے لیے انہیں کوئلہ باہر سے ڈالرز دے کر منگوانا پڑے گا اور ڈالرز کے ریٹ اوپر نیچے ہونے سے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کے ریٹس بھی اوپر جائیں گے اور ملک کا زرِمبادلہ بھی متاثر ہوگا۔ لیکن کوئی نہ مانا اور پلانٹ ساہیوال میں ہی لگایا گیا۔ جب اس کا ٹیرف لینے کا وقت آیا تو اس وقت نیپرا میں بیٹھے وفادار افسران کے علاوہ دو ذاتی وفادار بیوروکریٹس کی ڈیوٹی لگی کہ وہ مرضی کا ٹیرف منظور کرائیں۔ نیپرا کو جو ٹیرف کے لیے پلان دیا گیا اس میں جان بوجھ کر پلانٹ کی قیمت زیادہ دکھائی گئی اور ساتھ بتایا گیا کہ یہ پلانٹس 48ماہ میں مکمل ہوگا اور انہیں بینکوں کو 48ماہ تک مارک اَپ دینا ہوگا جو اس ٹیرف میں طے ہونا تھا۔ نیپرا افسران کو علم تھا کہ اس پراجیکٹ کے پیچھے شریف لوگ تھے لہٰذا جو کچھ مانگا گیا وہی ٹیرف ڈالروں میں دیا گیا۔ اب کرتب یہ ہوا کہ اس پلانٹ کو 26ماہ میں مکمل کر لیا گیا۔ پراجیکٹ کی لاگت 32ارب روپے سے زیادہ دکھائی گئی جسے ٹیرف میں ایڈجسٹ کر کے عوام سے وصول کرنا تھا۔ پراجیکٹ کو 48ماہ کے نام پر مہنگا ٹیرف لینے کے بعد صرف 26ماہ میں مکمل کر لیا گیا لیکن نیپرا سے ٹیرف 48ماہ کا بشمول بینک مارک اَپ لیا گیا۔ دو چار ماہ کا فرق سمجھ آتا ہے لیکن نیپرا دو سال کے فرق کو کیسے نہ جانچ سکا۔ پورٹ قاسم پلانٹ میں 20ارب تو ساہیوال پلانٹ میں 12ارب کا چھکا لگایا گیا۔ 32ارب‘ یہ تو ایک دفعہ کا کھیل تھا‘ جو نیپرا افسران کی مدد سے اس کے علاوہ ہیر پھیر ہوئی‘ اس کے مطابق اگلے تیس برسوں میں کوئلہ پلانٹ کو 291ارب روپے کی ادائیگی زیادہ کرنی تھی جو بلوں میں ڈالی جانی تھی۔
یہ تو tip of the iceberg تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے بڑے بم شیل وزیراعظم عمران خان کے پاس جمع کرائی گئی آج کے نگران وزیر برائے انرجی محمد علی کی سیکرٹ لیکن خوفناک رپورٹ میں موجود تھے۔ (جاری)
بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بینظیر بھٹو پر جنیوا میں نیکلس کا مقدمہ بنا جس پر بعد میں عالمی ریڈ وارنٹ بھی نکلے تو زرداری صاحب پر 60ملین ڈالرز کی منی لانڈرنگ کا کیس بنا جسے بعد میں پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو سے اس وعدے کیساتھ بند کرایا کہ پیپلز پارٹی الیکشن کے بعد پرویز مشرف کو دوبارہ صدر بنائے گی اور امریکن فارمولے کے تحت پاور شیئرنگ ہو گی۔ نواز شریف کو لگا کہ کامیاب بزنس مین تو وہ کہلاتے ہیں لیکن اصل چونا زرداری صاحب لگا رہے تھے۔ باقی سب بزنس مین پاکستانی روپوں میں کما رہے تھے لیکن زرداری صاحب نے پاور پلانٹ کے نام پر ڈالروں کا لمبا کھیل کھیلا تھا۔ نواز شریف نے ان پلانٹس کو بنیاد بنا کر زرداری صاحب اور بینظیر بھٹو کے خلاف بیانیہ بنا کر الیکشن جیتا۔
شہباز شریف زرداری صاحب کو لاڑکانہ کی گلیوں میں گھسیٹنے اور پیٹ پھاڑ کر سارا لوٹا ہوا پیسہ‘ جو ان کے بقول سوئس بینکوں میں پڑا ہوا تھا‘ نکلوانے کے نعرے لگانا شروع ہو گئے لیکن ڈالروں میں کمائی کے خیال نے شریفوں کو بھی اس لائن میں کھڑا کر دیا کہ اب موٹر وے کے بجائے پاور پلانٹس لگائیں۔ جب نواز شریف 2013ء میں وزیراعظم بنے تو چین کیساتھ انرجی کے معاہدوں کے نام پر وہی کھیل کھیلنے کی تیاری پکڑ لی جو زرداری صاحب اور بینظیر بھٹو نے کھیلا تھا۔ اب ڈالروں میں سودے ایسے ہونے لگے جیسے یہ امریکی نہیں بلکہ پاکستانی کرنسی تھی اور اسے چھاپنے کا کام امریکی مرکزی بینک نہیں بلکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس تھا لہٰذا ہر بندے کو جو بھی ڈیل مل رہی تھی‘ وہ اب ڈالروں میں تھی۔
پاور جنریشن پالیسی کے نام پر 2015ء میں ایک ڈاکیومنٹ تیار کیا گیا جس نے آنے والے برسوں میں پاور سیکٹر کو مکمل طور پر ڈالر پر منتقل کرنا تھا۔ قوم ابھی تک صرف بینظیر بھٹو اور زرداری صاحب کی 1994ء کی پاور پالیسی کے نتائج بھگت رہی تھی کہ اب میاں نواز شریف نے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ اس پالیسی کے تحت اب جو بھی نئے آر ایل این جی‘ کوئلے اور فیول پلانٹس لگنے تھے ان کی تمام ادائیگیاں بھی ڈالروں میں ہونی تھی۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے نام پر اس پالیسی میں منظوری دی گئی کہ حکومتِ پاکستان ان پلانٹس کو سب ادائیگیاں ڈالروں میں کرنے کی پابند ہو گی۔ اگر روپے کے مقابلے میں ڈالر ریٹ اوپر نیچے ہوا تو جتنا فرق پڑے گا وہ بھی سارا حکومت دے گی۔ حکومت نے عام لوگوں کے بجلی کے بلز میں یہ فرق ڈال کر وصول کرنا تھا۔ ایسے منصوبوں کی بھی منظوری دی گئی کہ حکومت خود یہ پاور پراجیکٹس بنا کر پرائیویٹ پارٹیوں کو بیچ سکتی ہے۔ مطلب اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے سیاستدان خود وہ پلانٹس خرید سکتے تھے۔ حکومت نے اس پاور پالیسی میں لکھ کر دیا کہ وہ ان پاور پلانٹس سے ساری بجلی خریدے گی چاہے وہ استعمال ہو یا نہ ہو۔ ان پلانٹس کو بغیر بجلی بنائے بھی ڈالروں میں پیسہ ملے گا۔ ساتھ میں آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان اور صوبائی حکومتوں کو بھی پابند کر دیا گیا کہ وہ اس پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے۔ یہ بھی ضمانت دی گئی کہ وہ ان پارٹیوں کے روپوں کو ڈالروں کی شکل میں کنورٹ کریں گے۔ اس پالیسی کے تحت ہی میاں نواز شریف کی حکومت نے ان پلانٹ مالکان کو انکم ٹیکس معاف کیا بلکہ باہر سے امپورٹ کی گئی مشینری پر بھی ڈیوٹی میں رعایت کرکے صرف پانچ فیصد کر دی۔
اب جو کرشمہ دکھانا تھا وہ ساہیوال میں لگنے والے کول پلانٹ پر دکھانا تھا۔ دوسرا کوئلہ پلانٹ پورٹ قاسم پر لگنا تھا۔ جب ان دونوں پلانٹس کا کچھ عرصے بعد ریویو کیا گیا تو بڑے خوفناک انکشافات سامنے آئے۔ ساہیوال پلانٹ کی مشینری نئی تھی لیکن جو پورٹ قاسم پر پلانٹ لگا اس کی مشینری پر شک تھا۔ ان دونوں پلانٹس میں سرمایہ کاری چینی دوستوں کی دکھائی گئی تھی لیکن اس کے پیچھے شریف لوگ تھے۔ اکثر کوئلے کے پلانٹ ساحلی علاقوں میں لگائے جاتے ہیں اور کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئلے کا پلانٹ انسانی آبادی کے قریب یا زرعی زمینوں کے درمیان لگایا جائے۔ لیکن جو شریف لوگ اس وقت ان سب معاملات کو دیکھ رہے تھے‘ وہ چاہتے تھے کہ ہر قیمت پر ایک پلانٹ پنجاب میں لگنا چاہیے تاکہ اپنی اونر شپ کا احساس رہے اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال میں آسانی رہے۔ اگرچہ اس پر شور مچا کہ یہ پلانٹ انسانی جانوں کے لیے نقصان دہ ہوگا لیکن شریف لوگوں کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے پر تیار نہ تھے۔ انہیں علم تھا کہ اس کوئلے کے پلانٹ کے لیے انہیں کوئلہ باہر سے ڈالرز دے کر منگوانا پڑے گا اور ڈالرز کے ریٹ اوپر نیچے ہونے سے کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کے ریٹس بھی اوپر جائیں گے اور ملک کا زرِمبادلہ بھی متاثر ہوگا۔ لیکن کوئی نہ مانا اور پلانٹ ساہیوال میں ہی لگایا گیا۔ جب اس کا ٹیرف لینے کا وقت آیا تو اس وقت نیپرا میں بیٹھے وفادار افسران کے علاوہ دو ذاتی وفادار بیوروکریٹس کی ڈیوٹی لگی کہ وہ مرضی کا ٹیرف منظور کرائیں۔ نیپرا کو جو ٹیرف کے لیے پلان دیا گیا اس میں جان بوجھ کر پلانٹ کی قیمت زیادہ دکھائی گئی اور ساتھ بتایا گیا کہ یہ پلانٹس 48ماہ میں مکمل ہوگا اور انہیں بینکوں کو 48ماہ تک مارک اَپ دینا ہوگا جو اس ٹیرف میں طے ہونا تھا۔ نیپرا افسران کو علم تھا کہ اس پراجیکٹ کے پیچھے شریف لوگ تھے لہٰذا جو کچھ مانگا گیا وہی ٹیرف ڈالروں میں دیا گیا۔ اب کرتب یہ ہوا کہ اس پلانٹ کو 26ماہ میں مکمل کر لیا گیا۔ پراجیکٹ کی لاگت 32ارب روپے سے زیادہ دکھائی گئی جسے ٹیرف میں ایڈجسٹ کر کے عوام سے وصول کرنا تھا۔ پراجیکٹ کو 48ماہ کے نام پر مہنگا ٹیرف لینے کے بعد صرف 26ماہ میں مکمل کر لیا گیا لیکن نیپرا سے ٹیرف 48ماہ کا بشمول بینک مارک اَپ لیا گیا۔ دو چار ماہ کا فرق سمجھ آتا ہے لیکن نیپرا دو سال کے فرق کو کیسے نہ جانچ سکا۔ پورٹ قاسم پلانٹ میں 20ارب تو ساہیوال پلانٹ میں 12ارب کا چھکا لگایا گیا۔ 32ارب‘ یہ تو ایک دفعہ کا کھیل تھا‘ جو نیپرا افسران کی مدد سے اس کے علاوہ ہیر پھیر ہوئی‘ اس کے مطابق اگلے تیس برسوں میں کوئلہ پلانٹ کو 291ارب روپے کی ادائیگی زیادہ کرنی تھی جو بلوں میں ڈالی جانی تھی۔
یہ تو tip of the iceberg تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی چھوٹے بڑے بم شیل وزیراعظم عمران خان کے پاس جمع کرائی گئی آج کے نگران وزیر برائے انرجی محمد علی کی سیکرٹ لیکن خوفناک رپورٹ میں موجود تھے۔ (جاری)
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر