مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بہاولپور میں محفلِ دوستاں (وسیب یاترا 7) ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائیکورٹ بہاولپور بنچ کی عمارت کے باہر عزیزم شہزاد شفیع ہمارے (تحریر نویس اور عابد رائو صاحب کے ) منتظر تھے۔ میزبان میاں کاشف ایڈووکیٹ سے اجازت لے کر دونوں مسافر شہزاد شفیع کے ہمراہ چل دیئے۔ ہماری اگلی منزل سئیں ذوالقرنین جتوئی کی اقامت گاہ تھی۔

جتوئی سئیں سے برسوں قبل فیس بک کے توسط سے ہی تعارف ہوا تھا۔ اکثر وسیبی دوست ہم دونوں کا مشترکہ اثاثہ ہیں۔ آفیسر کالونی میں ان کی اقامت گاہ پر صہیب گورمانی کو منتظر پایا۔ تھکاوٹ دور کرنے کے لئے ٹرک مارکہ چائے نوش کرتے ہوئے شہزاد شفیع کے سوالات کے جواب میں پاکستانی تاریخ کے مختلف ادوار کے یادداشتوں میں محفوظ اوراق الٹے۔

اسی دوران اس نے سوال کیا شاہ جی، نصف صدی کی تاریخ سطر بہ سطر لکھنے میں رکاوٹ کیا ہے۔

وہ سب لکھ دیجئے جو آپ کی آنکھوں نے دیکھا پڑھا۔ عرض کیا امر مانع کچھ نہیں ماسوائے روزانہ کی بنیاد پر روزی روٹی کے لئے حیلہ کرنے اور پھر روایتی سستی کے جس کے لئے ہم سرائیکی جگ مشہور ہیں۔

تاریخ کے حال احوال کے درمیان ہی ہماری بہاولپوری شام کے میزبان پرانے دوست پیپلز پارٹی کے مقامی صدر اور قوم پرست رہنما ملک امتیاز چنڑ نے ٹیلیفون پر دو سے زائد بار دریافت کیا، مرشد میرے ہاں کب پہنچیں گے؟

اس کے ساتھ اطلاع بھی دی کہ انہوں نے چند دوستوں کوبھی مدعو کیا ہے شام کی محفل میں تبادلہ خیال کیلئے ہم دو مسافر کچھ دیر آرام کے بعد شہزاد شفیع کی رہنمائی میں ملک امتیاز چنڑ کی قیام گاہ جاپہنچے۔ یہاں پہنچ کر پروگرام میں صرف اتنی تبدیلی ہوئی کہ قیام شب جتوئی سئیں کی اقامت گاہ کی بجائے چنڑ ہائوس میں ہوگیا۔

ملک امتیاز چنڑ ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں صاحب مطالعہ وسیع دوستوں کا حلقہ ترقی پسند سیاسی کارکن اور قوم پرست ہیں اس کے ساتھ پیپلزپارٹی کے عشق میں بھی قدیم زمانے سے گرفتار بھی لیکن ان کی اصل شہرت یہ ہے کہ وہ وسیب زادوں سے دکھ سکھ کی سانجھ رکھتے ہیں اور اس سانجھ کو نبھانے کے لئے کسی چیز کی پروا نہیں کرتے۔

ان دنوں ملک امتیار چنڑ چولستان واسیوں کا مقدمہ اٹھائے ہر اس دروازے پر دستک دیتے پھر رہے ہیں جو ان کی بات سنے اور آواز سے آواز ملائے۔

ملک سئیں ایچ آر سی پی کے پیلٹ فارم پر بھی فعال ہیں ان کی کوشش اور محنت سے ہی انسانی حقوق کمیشن نے چولستان واسیوں کے مقدمے کو انسانی حقوق کی بنیادوں پر آگے بڑھایا۔ چولستان واسیوں کا مقدمہ بہت سیدھا سادہ ہے۔

پہلے ان کے ہاں غیرمقامی طاقت ور افراد کے ساتھ ریٹائر فوجی و غیرفوجی بابوں کو اراضی الاٹ ہوتی تھی۔ سول ملٹری اشرافیہ ریاست کی طاقت سے زمین کا قبضہ لیتی رہی اور غیرمقامی افراد چیمہ خاندان کے تعاون سے زمینوں پر قبضہ کرتے رہے بلکہ اب بھی کررہے ہیں۔

کبھی اگر تحقیقات ہوں تو پتہ چلے گا طارق بشیر چیمہ کے خاندان کے تعاون سے پچھلے چالیس برسوں میں فیصل آباد، ساہیوال، گوجرانوالہ، گجرات، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ سے کتنے ہزار خاندان منصوبہ بندی کے تحت بہاولپور ڈویژن میں لابسائے گئے اور یہ خاندان انتظامیہ و چیمہ برادران کے تعاون سے زمینوں پر کیسے قابض ہوئے۔

ملک امتیاز چنڑ کی قیام گاہ پر تبادلہ خیال کی نشست میں سئیں ذوالقرنین جتوئی، شہزاد شفیع، صہیب گورمانی، سید امجد بشیر، شاہ خضر حسن، عبدالقیوم ملک اور میزبان کے علاوہ ڈیرہ پھلاں دا سہرہ سے جماندرو تعلق رکھنے والے ہمارے برادر عزیز و دوست وسیم حسن بھی شریک ہوئے۔

وسیم حسن ان دنوں روزگار کے سلسلے میں بہاولپور میں مقیم ہیں انہیں جونہی ہماری بہاولپور آمد کی خبر ملی سب کام چھوڑ چنڑ ہائوس کی طرف دوڑے چلے آئے۔

بہاولپور میں سمجھ لیجئے کہ ایک ہی محفل دو حصوں میں برپا ہوئی۔ ابتدائی حصہ سئیں ذوالقرنین جتوئی کی اقامت گاہ پر اور دوسرا چنڑ ہائوس میں، دونوں جگہ شہزاد شفیع کے نہ ختم ہونے والے سوالوں کے درمیان فقیر راحموں لائبریری سے کتابوں کی ڈکیتی کرنے کی میٹھی میٹھی دھمکیاں بھی جاری رہیں۔

چنڑ ہائوس میں برپا ہوئی مجلس رات گئے تک چلی اس میں عصری سیاست کے مختلف ادوار کی باتوں کے ساتھ سرائیکی وسیب میں پیپلزپارٹی کے مستقبل پر بھی کھلی ڈلی باتیں ہوئیں۔ دوستوں کی خدمت میں عرض کیا کہ سرائیکی قوم پرستوں کو اس بار 2018ء جیسا تجربہ کرنے کی بجائے اپنے پائوں مضبوطی کے ساتھ اپنی دھرتی پر جماکر وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں سے بات چیت کرنا ہوگی۔

یہ بھی ازحد ضروری ہے کہ قوم پرست جماعتیں اپنے قائدین کی شخصی انا کو بالائے طاق رکھ کر وسیع البنیاد اتحاد کی طرف بڑھیں تاکہ ایک مضبوط پریشر گروپ معرض وجود میں آئے۔ اتحاد کی طاقت سے اگر وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں سے بات چیت ہوئی تو یہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

اتحاد نہ ہوا تو ماضی کے انتخابات کی طرح کے معاملات ہوں گے۔ ایک سوال یہ تھا کہ کیا قوم پرستوں کو خود انتخابی عمل کے میدان میں نہیں اترنا چاہیے؟

عرض کیا اتحاد کی صورت میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے چند حلقوں کا انتخاب کرلیں اس پر اپنا مقدمہ وسیب زادوں کے سامنے رکھیں اس کے درمیان اگر وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں سے بامقصد بات چیت ہو اور یہ بات چیت کسی نتیجہ پر پہنچے تو ان جماعتوں کے حق میں دستبردار ہونے کی بجائے ان سے انتخابی عمل میں اشتراک عمل کیا جائے اس اتحادی سیاست کا خود قوم پرستوں کو بھی فائدہ ہوگا۔

پیپلزپارٹی کے سرائیکی وسیب میں مستقبل کے حوالے سے دریافت کئے گئے سوال پر عرض کیا، پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت سے تو پوچھ لیجئے کہ وہ وسیب زادوں میں سیاست کرنے کی خواہش مند ہے یا گیلانی و مخدوم ہائوس اور دولتانہ ہائوس کے وسیع لانوں میں لگائی جانے والی حاضریوں پر ہی اکتفا کرنے کا پروگرام رکھتی ہے۔

2018ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کو برے حالات میں بھی سرائیکی وسیب سے قومی اسمبلی کی 6 نشستیں ملیں۔ سولہ ماہ کے اتحادی اقتدار میں ان چھ ارکان قومی اسمبلی کی معرفت وسیب یا خود ان کے حلقوں کو کیا ملا؟

یہ بھی عرض کیا کہ وسیب میں تو لوگ کہتے ہیں پیپلزپارٹی کا سرائیکی وسیب یونٹ، مُلیر پھپھیر پارٹی ہے (سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود کے رشتوں کے حوالے سے کہی جاتی ہے یہ بات)

وسیب یاترا کے دوران پیپلزپارٹی کے کچھ دوستوں نے عبدالقادر شاہین کے بعض معاملات پر بھی بات کی لیکن ان کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ پی پی پی کااندرونی معاملہ ہے البتہ سرائیکی وسیب میں یہی لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی ٹھیکیداری نظام کی طرح چلائی جارہی ہے۔

گیلانی، مخدوم اور دیگر چند بڑے اپنی ہی جماعت کے کارکنوں سے بھٹہ خشت کے مالکان جیسا رویہ اپنائے رکھتے ہیں جیسے ورکر ورکر نہ ہو پتھیرا ہو۔

ملک امتیاز چنڑ نے حسب دستور مہمان دوستوں کے سامنے چولستان واسیوں کا مقدمہ رکھا۔ اس حوالے سے کچھ تفصیلات وسیب یاترا کی گزشتہ اقساط میں عرض کرچکا۔ تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ جس طرح چولستان کی زمین ہتھیائی جارہی ہے اس سے چولستان واسی آنے والے برسوں میں ریڈ انڈین بن کر رہ جائیں گے۔

لاکھوں ایکڑ پر پھیلی چراگاہ ریاستی زرعی کاروبار کے لئے جس طرح برباد کی گئی اس سے مستقبل میں موسمیاتی مسائل کا بھی سامناکرنا پڑے گا۔

بہاولپور میں شب بھر کے قیام دو حصوں میں منعقد ہوئی ایک محفل دوستاں اور اس سے قبل میاں کاشف ایڈووکیٹ سے جمی نشست کی یادیں لے کر اگلی صبح بہاولپور سے امڑی سینڑ کے شہر ملتان کیلئے روانہ ہوئے جہاں ملتانی منڈلی تو منتظر تھی ہی اس کے ساتھ برادر عزیز ریحان عباس کھوکھر کی دعوت پر منعقد ہونے والی حضرت سید شاہ شمس سبزواریؒ کانفرنس میں شرکت مقصود تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: