مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذکر شہیدِؑ کربلا کانفرنس ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چار روزہ وسیب یاترا کی سبیل ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن رحیم یار خان کے دوستوں نے فراہم کی۔ بار کے جنرل سیکرٹری سئیں احمد کانجو اور برادر عزیز جاوید خان دستی ایڈووکیٹ نے اصرار کے ساتھ ذاتی تعلق کا حق بھی استعمال کیا۔

رحیم یار خان ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے چند برس قبل ایام محرم میں ذکر شہید کربلا امام حسینؑ کے عنوان سے پہلی کانفرنس منعقد کی تو ہمارے محبِ مکرم رئیس ممتاز مصطفی ایڈووکیٹ نے کانفرنس کے محرکین، حسن معاویہ ایڈووکیٹ اور جاوید دستی ایڈوکیٹ و دہگر سے سوال کیا ’’مقرر کون ہوگا’‘‘ احباب نے ان کی خدمت میں مجھ طالب علم کا نام بطور مقرر پیش کیا تو تب رئیس صاحب نے بار کی اس وقت کی کابینہ سے کہا بلادھڑک اس مقرر کو بلالیں۔

پچھلے چند برسوں کے دوران ذکر شہید کربلا امام حسینؑ کانفرنسوں میں طالب علم کو متعدد بار بطور مقرر کانفرنس میں اظہار خیال کا موقع ملا۔ گزشتہ اور گزشتہ سے پیوستہ برس اپنی علالت کے باعث معذوری ظاہر کی اس بار بھی صحت کے مسائل احباب کی خدمت میں عرض کئے لیکن ان کے اصرار اور پھر ہمارے دوست عابد رائو کی جانب سے سفر کی صعوبتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے ہمراہ لے جانے کی پیشکش کی۔

یوں لگ بھگ چار برس بعد رحیم یارخان جانے اور کانفرنس میں اظہار خیال کے ساتھ دیرینہ تعلق داروں اور دوست احباب سے ملاقاتوں کی سعادت حاصل ہوئی۔

رحیم یارخان کے لئے سفر شروع ہوا تو میں نے عابد رائو صاحب سے کہا ’’بہت مشکل ہے کہ کانفرنس میں شرکت کرکے براہ راست لاہور واپسی ہوسکے‘‘۔ جواب ملا خیر ہے اس بہانے سرائیکی وسیب دیکھیں گے اور وسیب کے باسیوں و دوستوں سے بھی ملیں گے۔ یوں یہ وسیب یاترا پانچویں دن اختتام پذیر ہوئی۔

ذکر شہید کربلا امام حسینؑ کانفرنس میں اظہار خیال مجھ طالب علم کے لئے ہمیشہ باعث افتخار رہا۔ رحیم یار خان بار کے حضرت خواجہ غلام فریدؒ ہال میں سامعین کی خدمت میں عرض کیا کہ ’’اظہار رائے کی آزادی لامحدود نہیں ہوتی اظہار خیال کرنے والے کو اپنی حدود کے ساتھ حد ادب اور سماعت کرنے والوں کے جذبات و احساسات کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیے۔

یہ بھی عرض کیا کہ معرکہ کربلا کا حقیقی پیغام یہ ہے کہ افرادی قوت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اپنے حصہ کا سچ وقت پر بولا جائے۔

بے نوائوں کی داد رسی میں تساہل نہ برتا جائے۔ ہمہ قسم کے تعصبات میں سے کسی ایک کو اوڑھنے کی بجائے چار اور بستے لوگوں کے مسائل کے حل کے لئے آواز اٹھائی جائے۔ سماجی وحدتوں کے منافی کلام و افعال سے محفوظ رہا جائے۔

معاشرے کے کچلے ہوئے طبقات کے لئے ایثار کا مظاہرہ ازبس ضروری ہے۔

کربلا متقاضی ہے کہ عادلانہ نظام اور سماجی مساوات کو مقدم سمجھا جائے۔ مظلوم و مجبور طبقات کے لئے تو ہر عہد کربلا ہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اپنے اپنے عہد کی کربلا میں کون کتنی دیر فکری استقامت کے ساتھ ظلم و جبر اور طبقاتی استحصال کے خلاف قیام کرتا ہے۔

یہ قیام ہی حقیقت میں شخصی اوصاف کا امتحان ہے ۔ کربلا کا پیغام یہی ہے کہ نفس امارہ کی پیروی کی بجائے ہر صورت میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

اس کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانے میں عصری شعور کے ساتھ حصہ ڈالا جائے کہ معاشرے میں انصاف قائم ہو۔ محبتوں کو دوام ملے۔ علم و آگہی کا دوردورہ ہو۔

لوگ اپنی ضرورتوں اور مشکل وقت میں معاون بننے والے وسائل سے زیادہ وسائل میں تہی دستوں کو شریک کریں مگر یہ ضروری ہے کہ اس کا آغاز اپنے خاندان کے تہی دستوں سے کیا جائے۔

یہ بھی عرض کیا کہ انسانی سماج کی وحدت کی ضمانت فقط انسانیت ہے۔ یہ سوال بھی سامعین کے سامنے رکھا کہ ہمیں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ اس ملک میں 75 برسوں کے دوران انسان سازی کے لئے ایک بھی ادارہ کیوں نہیں بن سکا؟

صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوگاکہ ہمارے نصاب تعلیم اور سماجی روایات میں انسانیت، علم، اخوت، عصری شعور کے حوالے سے کچھ ہے بھی کہ یہ محض ایسا نصاب تعلیم ہے جو دفاتر میں خدمات سرانجام دینے والے لکیر کے فقیروں کا خام مال ہی تیار کرتا ہے۔

کانفرنس میں یہ بھی عرض کیا کہ کربلا متقاضی ہے کہ نور علم سے جہل کے اندھیروں کو دور کرنے میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیجئے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے معمول کی نصابی تعلیم اور علم میں موجود بنیادی فرق کو بطور خاص سمجھا جائے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بات کی گہرائی اور انسان سازی سے زیادہ بڑبولا پن اور طنز اہم ہے حالانکہ بڑبولا پن اور مسلسل طنزیہ جملے اچھالنے سے جہاں اپنی شخصیت پر بودے پن کی چھاپ لگتی ہے وہیں اس سے سماجی امن و وحدت متاثر ہوتے ہیں۔

لازم نہیں کہ اپنی رائے کے اظہار کے لئے دوسرے کے گریبان سے الجھا جائے یا دوسرے کی توہین کے پہلو کو بیانیہ بناکر پیش کیا جائے۔

کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ عرض کیا کہ کربلا قطعاً اس امر کی متقاضی نہیں کہ آپ اٹھیں ایک مسلح شکر کی صورت اپنائیں اور کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جائیں بلکہ کربلا کا تقاضا یہ ہے کہ مظلوم کی ہمنوائی اس کی ضرورت کے وقت ہو اور ظالم سے کسی قسم کی نسلی یا دوسری قرابت داری کو خاطر میں نہ لایا جائے۔

یہ بھی عرض کیا کہ ایثار ہی زندگی ہے۔ کربلا نے ہمیں سمجھا دیا ہے کہ عدو کے لشکر کی تعداد نہیں فکری استقامت کی اہمیت ہے۔ تاریخ کے اوراق میں فکری استقامت زندہ رکھتی ہے۔

طالب علم کانفرنس میں یہی عرض کرپایا کہ اگر ہم اور آپ اپنے حصہ کا سچ بولنے سے گریز کی روش اپنائیں، مظلوموں اور بے نوائوں کی مدد نہ کریں ضرورت اور مشکلات سے نجات میں معاون بننے والے وسائل سے زائد وسائل کو سماجی عدم مساوات کے خاتمے کے لئے بروئے کار لانے کا ذریعہ نہیں بناتے تو پھر ذکر شاہِ شہیداںؑ اور کربلا کے ذکر کے دعوے سے دستبردار رہنا زیاہ بہتر ہے بجائے اس کے کہ اظہار الفت تو شاہِ شہیداںؑ سے ہو اور عمل ایسے جن سے ظالموں اور استحصالیوں کی ہمنوائی ہوتی

ہو "۔

کانفرنس سے پچھلی شب رحیم یار خان پہنچنے پر میزبان احمد کانجو ایڈووکیٹ، جاوید خان دستی ایڈووکیٹ کے علاوہ قاضی شرجیل اور دیگر احباب کے ساتھ رات گئے تک خوب نشست رہی اسی دوران ہمارے بھتیجے معظم خان جتوئی اپنے دوستوں کے ہمراہ زحمت اٹھاکر خانپور سے ملنے آئے۔ معظم جتوئی سرائیکی دانشور مجاہد جتوئی کے فرزند اور مرحوم مرید حسین خان راز جتوئی کے پوتے ہیں ہمارا اس خانوادے کی تیسری نسل سے تعلق خاطر ہے۔

عزیز دوست حسن معاویہ ایڈووکیٹ سے ملاقات نہ ہوسکنے کی وجہ ان کا اپنے بھائی کے ہمراہ عمرہ پر جانا تھا۔ ہمارے یہ دوست و رفیق کچھ عرصہ سے شدید علیل ہیں۔ فقیر راحموں کہتا ہے کہ وہ بیت اللہ کے صحن میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے براہ راست گفتگو کرنے کے لئے عمرہ پر گئے ہیں۔

ہم نے عرض کیا، اللہ سائیں تو شہ رگ کے قریب ہے۔ جواب ملا بات کو گھمائو نہیں ،

سئیں رئیس ممتاز مصطفی ایڈووکیٹ، پروفیسر محسن بلوچ، شاکر سلطان دستی اور دیگر احباب سے کانفرنس سے قبل اور بعد میں خوب کچہری جمی (محفل ہوئی) طالب علم کو رحیم یارخان سے خصوصی محبت ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ جب تیسرے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے دور میں قیدو بند کی تین سال پر پھیلی صعبوتوں کو بھگت کر رہا ہوا تھا تو کوئی اخبار اور جریدہ مجھے ملازمت دینے پر تیار نہیں تھا تب روزنامہ ’’شہادت‘‘ رحیم یارخان کے پبلشر و چیف ایڈیٹر ضیاء اللہ باجوہ نے اپنے اخبار میں نہ صرف ملازمت دی بلکہ ایجنسیوں اور محکمہ اطلاعات کے ساتھ ٹائوٹوں کے دبائو کا بھی کھل کر سامنا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اب اگر کوئی ضیاء رجیم کا مخالف ہے تو اس پر روزگار کا ذریعہ بند کردینا کیسے انسانیت کہلائے گا۔

چند دوستوں بالخصوص حکیم سید خلیق الرحمن، ڈاکٹر احمد اور دیگر سے وقت کی کمی کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔ مسافروں کو کانفرنس کے بعد خانپور کیلئے روانہ ہونا تھا جہاں برادرم عبداللہ خان بلوچ کی اقامت گاہ پر لالہ ظفر اقبال جتوئی و دیگر دوست منتظر تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: