حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چترال سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پاک افغان سرحدی علاقے میں جدید ترین ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں کے ایک بڑے گروپ نے پاک فوج کی 2 چوکیوں پر حملہ کیا۔ سکیورٹی فورسز کی مزاحمت اور دفاعی کارروائی میں 4 جوان شہید ہوئے جبکہ 12دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق دہشت گردوں کو پسپا کردیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں حملہ آور زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق افغان صوبوں کنٹر اور نورستان کے علاقوں گووار دیش، پتیگال برگ، متل اور بتاش کے علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور ان کے ارتکاز کی سرگرمیوں کے بارے میں افغان حکومت کو پیشگی آگاہ کردیا گیا تھا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے ہمیں ایک آدھ بلکہ چند دن پیچھے جانا ہوگا تاکہ صورتحال وضاحت کے ساتھ سمجھ سکیں۔
افغان صوبے کنٹر سے متصل چترال کی تحصیل لوئر چترال کے سرحدی علاقوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کے اکٹھے ہونے کی مصدقہ اطلاعات کی تصدیق ضلعی پولیس آفیسر دیر بالا کی جانب سے ماتحت عملے کو لکھے گئے اس مراسلے سے بھی ہوتی ہے جس میں ملحقہ افغان علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کے باعث چوکنا رہنے کی ہدایت کی گئی۔
ڈپٹی کمشنر لوئر چترال نے ارسون گدی بارڈر کے قریبی علاقوں میں مشکوک افراد دیکھے جانے کی اطلاع پر فوراً اضافی نفری کی تعیناتی کے احکامات جاری کئے اور ان پر بڑی تیزی کے ساتھ عمل بھی ہوا۔
خیبر پختونخوا کے آئی جی پولیس اختر حیات گنڈاپور نے ایک نیوز ویب سائٹ کے نمائندے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’’افغان صوبے نورستان کی طرف سے بارڈر سے ملحقہ علاقوں میں دہشت گردوں کی نقل و حرکت کی اطلاع پر ایلیٹ فورس، پولیس اور سی ٹی ڈی کے اہلکار ملحقہ علاقوں میں تعینات کردیئے گئے ہیں ان کے مطابق کوئیک رسپانس فورس کا دستہ بھی چترال کے سرحدی علاقوں میں بھیجا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں گزشتہ روز یا گزشتہ سے پیوستہ روز سے قبل کی ہیں۔ ان کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ یہ معاملات لگ بھگ بارہ پندرہ دنوں سے ’’علم‘‘ میں تھے اور جوابی انتظامات کئے جارہے تھے۔
ہم اس حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے دعوےاور بعض ذرائع سے ان کے اصل مقصد و حقیقی منزل پر بات کرتے ہیں مگر اس سے پہلے یہ جان لیجئے کہ اپر دیر میں سکیورٹی کے حالات کے پیش نظر دیربالا پولیس نے بھی پاک افغان سرحد اور سوات سے متصل پہاڑی علاقوں میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کیا تھا (یہ ہفتہ بھر قبل کی بات ہے) لوئر چترال پولیس کے ترجمان نے چند دن قبل تحصیل دروش کے سرحدی علاقوں سوئر اوسون اور اروند میں سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشن کی تصدیق کی اس آپریشن میں سی ٹی ڈی، چترال سکائوٹس، پولیس، سپیشل برانچ اور ایلیٹ فورس کے جوانوں نے حصہ لیا۔
یہ بھی ہفتہ دس دن قبل کی بات ہے۔ آئی ایس پی آر کے حکام نے دو باتیں کیں اولاً گزشتہ روز کی جھڑپ اس کے پس منظر طرفین کے جانی نقصان ثانیاً یہ کہ اس صورتحال سے پیشگی افغان حکام کو آگاہ کردیا گیا تھا۔
گزشتہ روز ہوئے دہشت گردوں کے حملے میں جدید ترین اسلحہ استعمال ہوا۔
ان سطور میں افغانستان سے امریکہ و نیٹو کے انخلا کے وقت مسلسل اور بعدازاں کئی بار عرض کرچکا کہ امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ دہشت گرد گروپ استعمال کررہے ہیں۔ امریکی اس کی گول مول تردید کرتے رہے ہم نے اس جدید اسلحہ کی تین بڑی افغان منڈیوں ہرات، قندھار اور کابل کے حوالے سے عرض کیا تھا کہ ان منڈیوں سے مختلف الخیال دہشت گرد گروپ اسلحہ خرید رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے اقوام متحدہ نے اس بات کی تصدیق کی کہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا ہوا اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ گیا ہے اور وہ اسے اپنی مذموم کارروائیوں میں استعمال کررہے ہیں۔
بارِدیگر عرض کردوں کہ اسلحہ میدان اور سڑک پر پڑا دہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگ گیا ہے بلکہ اسلحہ منڈیوں سے خریدا گیا ان ناجائز اسلحہ منڈیوں میں افغان طالبان کی عبوری حکومت کی نگرانی میں کاروبار جاری ہے۔
بدھ کو امریکی حکام نے پہلی بار اس معاملے پر لب کشائی کرتے ہوئے کہا کہ
’’ہم انخلا کے وقت اسلحہ فورسز کے حوالے کرکے آئے تھے‘‘
کون سی فورسز کے۔ سابق افغان حکومت کی فوج یا طالبان؟ حقیقت یہ ہے کہ ناجائز اسلحہ کا کاروبار افغان عبوری حکومت کا کاروبار ہے۔
ہم واپس اصل موضوع کی طرف پلٹتے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے 16 سو ارکان چترال کی حدود میں داخل ہوچکے ہیں ٹی ٹی پی کیلاش کے علاقے میں دوردراز کی چند بستیوں پر قبضے کا دعویٰ بھی کررہی ہے۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے دارالفتاوہ نے حال ہی میں دو مسلمان مسلکوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے۔ ٹی ٹی پی کے ذرائع فتوے کی تو تصدیق نہیں کرتے لیکن جس انداز سے وہ چترال میں اپنی کارروائیوں اور موجودگی کا اظہار کررہے ہیں ان سے لگتا ہے کہ معاملات اتنے سیدھے سادھے ہرگز نہیں جیسے دیکھائی دے رہے ہیں ۔
کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر وسیع تائید نہ مل سکنے پر اس فرقہ وارانہ کشیدگی کا فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنالی ہے (اس کشیدگی کو عمومی طور پر شیعہ سنی تنازع کا نام دیا جاتا ہے) یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی چترال کے راستے بلتستان میں داخل ہونا چاہتی ہے جہاں پچھلے ڈیڑھ ہفتے سے کالعدم سپاہ صحابہ کے ہم خیال اور شیعہ مسلمان ایک دوسرے کے خلاف میدان لگائے ہوئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کے اس دعوے پر کہ اس کے 16سو جنگجو چترال میں داخل ہوئے اور کیلاش کی متعدد بستیوں پر ہمارا قبضہ ہے کو بطور خاص دیکھنے کی ضرورت ہے۔ چترال شیعہ اسماعیلی مسلک کے مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ ہے۔ کیا شیعہ جعفری و شیعہ اسماعیلیوں کی اکثریتی آبادی والے وہ علاقے جو سی پیک روٹ کے ساتھ پاک چین تعلقات میں خصوصی اہمیت رکھتے ہیں سی پیک منصوبے پر دوبارہ سے سرگرمیاں شروع ہونے کے بعد فرقہ وارانہ اختلافات کو بھڑکا کر ’’میدان لگوانے‘‘ اور اب ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کا چترال میں داخل ہونے کا دعویٰ کسی عالمی سازش کا حصہ ہے؟
ایسا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ امریکی کیمپ کی طرف سے کوشش ہوسکتی ہے۔
افغان عبوری حکومت والے طالبان اس وقت خود کو سیاسی و سفارتی طور پر چینی کیمپ کا حصہ بتاجتلارہے ہیں۔ اگر یہ تاثر حقیقت ہے تو پھر اس طویل پٹی میں جو پاک چین تعلقات میں خصوصی اہمیت رکھتی ہے کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو داخل ہونے کے لئے معاونت فراہم کرکے افغان عبوری حکومت کی بارڈر مینجمنٹ کس کا کھیل کھیل رہی ہے۔
یہاں یہ سوال اہم ہے کہ کیا واقعی ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی منزل گلگت بلتستان ہے اور وہ افغان سرحد سے براستہ چترال بلتستان تک اپنے جنگجوئوں کے لئے نقل و حمل کا مربوط نظام بنارہے ہیں؟
یہ وہ سوالات ہیں جن پر نہ صرف بات ہونی چاہیے بلکہ حکومت بھی عوام کو درست صورتحال کے حوالے سے اعتماد میں لے۔ اڑھائی ہزار مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے والے چترال کے دوردراز کے علاقوں میں بالخصوص افغان حدود سے ملحقہ علاقوں میں کم آبادی والی بستیاں اگر دہشت گردوں کی مہم جوئی سے متاثر ہوئیں تو انہیں ان علاقوں میں محفوظ ٹھکانے قائم کرنے کا موقع ملے گا۔
کہا جارہا ہے کہ حالیہ سرگرمیوں میں کالعدم ٹی ٹی پی کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم جنداللہ کے دہشت گرد مشترکہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
یہ اگر درست اطلاع ہے تو پھر اسے گلگت بلتسان سے ملحقہ چیلاس و کوہستان کے علاقوں میں ایک کالعدم تنظیم کے حالیہ اجتماعات اور سرگرمیوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔
گو آئی ایس پی آر نے صورتحال کنٹرول میں ہے کی بات کی ہے لیکن دوسری طرف کالعدم تنظیموں کے دعوے بھی ہیں انہیں بھی یکسر نظرانداز کرنا ازبس مشکل ہے۔
ٹی ٹی پی کا 16سو دہشت گرد چترال میں داخل ہونے کا دعویٰ صورتحال کی نزاکت اور آنے والے دنوں میں پیدا ہوتی سنگینی ہر دو کی نشاندہی کرتا ہے۔
ان حالات میں دہشت گردوں کے خلاف جہاں سخت گیر جوابی کارروائی کی ضرورت ہے وہیں ایسے سماجی اتحاد کی بھی جو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے عزائم کو ناکام بنانے میں مدد دے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر