رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کن رنگوں کی بات کریں‘ ہر روز دنیا کرشماتی انداز میں اپنا رنگ بدلتی ہے۔ یہ سب جدید علوم‘ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہے۔ انسان کی فطری صلاحیتوں کو سائنس جلا بخشتی ہے۔ میں نے سائنسی دنیا اپنے سامنے بدلتے دیکھی ہے۔ بہت کچھ صرف گزشتہ پچاس سال سے بھی کم عرصہ میں ہوا ہے۔ آج ہر طرف غریب‘ امیر اور یہاں تک کہ بے روزگاروں کو بھی ہاتھ میں فون تھامے ہر وقت باتیں کرتے‘ سکرینوں پر نظر جمائے‘ پیغام رسانی کرتے دیکھتا ہوں تو ان کی حالت پر جہاں ترس آتا ہے وہاں میرا دھیان اُن وقتوں کی طرف جاتا ہے جب کسی کو یہ سہولت میسر نہیں تھی۔ میں اور میرے دوست جب غیر ملکی جامعہ میں پڑھتے تھے تو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ٹائپ کرنا تھا۔ سوائے لیبیا کے ایک دوست کے‘ کسی کے پاس ٹائپ رائٹر نہیں تھا۔ لائبریری میں لائن میں کھڑے ہو جاتے اور جب کوئی جگہ خالی ہوتی تو ہم اپنا کام ٹائپ کرتے۔ میرے خیال میں1980ء کی بات ہے کہ ایپل کمپیوٹر کی پہلی ایجاد نے علمی حلقوں میں دھوم مچا دی۔ یہ آٹھ انچ سکرین کا کمپیوٹر تھا جس کی میموری صرف بارہ کے بی تھی‘ یعنی دو تین صفحے۔ وہی لیبیا والا دوست خرید لایا تو ہم حسرت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے۔ اس سے ورڈ پراسیسنگ کا آغاز ہوا۔ سائنسی دنیا میں کئی کمروں پر محیط کمپیوٹر عرصہ سے کام کررہے تھے۔ اس کے بعد ایپل کا کلاسک کمپیوٹر آیا جس کی ہارڈ ویئر ڈرائیو صرف ایک میگا بائٹ کی تھی‘ اور یہ میں نے 1991ء میں نیویارک میں خریدا جو ابھی تک میرے پاس موجود ہے۔ میرے پیشے میں اس مشین سے بہتر تب کوئی اور کمپیوٹر نہیں تھا۔ یہ کمپیوٹر اب پرانے سائنسی نوادارت میں شمار ہوتا ہے اور اس کی قیمت اس وقت اصل قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔ موازنے کے لیے میں نے اس وقت زیر استعمال میک بک کھول کر چیک کیا تو اس کی میموری آٹھ گیگا بائٹ ہے۔ یہ تقریباً دس سال پرانی ہے‘ اور اس وقت جو میک بک آرہی ہیں‘ ان کی میموری کئی گنا زیادہ ہے اور یہ کئی گنا برق رفتار ہیں۔ 1993ء میں پہلی بار سنا کہ ای میل متعارف ہورہی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی نیویارک میں تھا تو اُنہوں نے ہمارا اکاؤنٹ بنایا‘ اور ہم حیران کہ کس طرح پیغامات آ جا رہے تھے۔ اس وقت تک صرف پیغام رسانی ہی ہوتی تھی۔ اب تو کمپیوٹر کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔
یاد ہوگا کہ کسی زمانے میں فیکس ہوا کرتے تھے۔ وہ بھی حیران کن چیز تھی کہ کس طرح کاغذات ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیے جاتے۔ اور پھر برقی ٹائپ رائٹرز بھی آئے جو کبھی ہمارے پاس بھی تھا‘ اور جس نے انگریزی کالم لکھنا بہت آسان کردیا تھا۔ آج سب ماضی کی زینت بن کر کباڑ خانوں میں پڑے ہیں۔ چالیس سال قبل امریکہ نے اس ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کرلی تھی۔ جس علاقے کو اب کیلیفورنیا میں ”سلیکون ویلی‘‘ کہتے ہیں‘ وہاں کمپنیوں پہ کمپنیاں بنتی چلی گئیں۔ سائنسی شعبوں میں فارغ التحصیل گریجوایٹس کو دھڑا دھڑا بھرتی کیا جا رہا تھا۔ میری جامعہ میں بھارت سے کثیر تعداد میں طلبہ اپنے ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ سے ڈگری لے کر داخل ہوتے۔ دو سال میں ایم ایس سی کرتے اور فوراً ہی ساٹھ‘ ستر ہزار ڈالرز سالانہ پر نوکری شروع کر دیتے۔ ان میں سے اکثر غریب اور زیریں متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ اچھی تعلیم نے اُن کی دنیا ہی بدل دی اور ہم خود ان میں شامل ہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستان سے نہ ہونے کے برابر طلبہ وہاں آتے تھے۔ کمپیوٹر میں چپس ٹیکنالوجی کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس وقت چپس میں تائیوان دنیا کا سب سے بڑا پروڈیوسر تھا۔ اب امریکہ اس میدان میں سرمایہ کاری کرکے اپنی استعداد بڑھانے کی فکر میں رہتا ہے۔ کاش ہمارے ہاں بھی ایسی لیڈر شپ پیدا ہو سکتی‘ کوئی وژن ہوتا‘ کوئی سمت ہوتی۔ لیڈری کے نام پر جو زبردستی میدان میں آئے‘ ان میں نہ تعلیم تھی نہ علم و فراست‘ صرف اپنی جیبیں گرم کرنا آتا تھا۔ لوٹ مار میں مقابلہ بازی تھی کہ باری لگے تو اگلے والوں کو دکھائیں کہ ہم نے کتنا ہاتھ مارا ہے۔ ہم بھی تو انسان ہیں‘ ہم میں بھی تو صلاحیتیں ہیں مگر جن کی عقلوں پر اتنا پردہ ہو کہ اربوں روپوں کے لیپ ٹاپ درآمد کر کے مفت تقسیم کریں اور کہیں کہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ اربوں روپے مستحق طلبہ کو وظائف کی صورت دے کر اُنہیں بہترین جامعات میں پڑھنے کا موقع دیا جاتا۔ پھر سرکاری شعبے میں کتنی ہماری جامعات ہیں جن کا معیار بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے مقابلے میں آ سکتا ہے؟ اس میدان میں انہوں نے سرمایہ کاری کی تو آج اُن کے ہزاروں کی تعداد میں سائنس دان مغربی دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
چند سالوں میں ہماری انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برآمدات چند سو ملین ڈالر سے تقریباً ڈھائی ارب ڈالر تک پہنچی ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ دوست بتا رہے تھے کہ یہاں ہماری کمپنیوں کو ہر سال ایک لاکھ گریجوایٹس کی ضرورت ہے۔ اس وقت سرکاری اور نجی شعبوں کی جامعات کے کل ملا کر صرف پچیس ہزار کے قریب سالانہ گریجوایٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ کام کے قابل ان میں سے دو سے تین ہزار کے درمیان ہوتے ہیں۔ باقیوں کے پاس ڈگری ہے‘ مگر اہلیت نہیں۔ ہم ابھی زرعی انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں‘ دنیا نجانے کیا کیا رنگ تبدیل کرکے اپنی قومی دولت میں اضافہ کررہی ہے۔ ناروے ہمارے مقابلے میں آبادی‘ رقبے اور وسائل کے اعتبار سے بہت چھوٹا ملک ہے۔ وہاں کی ایک کمپنی نے ایک دوائی بنائی جس کی دھوم ساری مغربی دنیا میں مچی ہوئی ہے۔ ان گولیوں سے لوگ اپنا موٹاپا کم کر سکتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوا ساز کمپنی کی قدر پانچ سو ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ پھر ہم میں کیا کمی ہے۔ ہماری پسماندگی کے ذمہ دار کون لوگ ہیں؟ یہی تو ہیں جو آپ پر حکمرانی کرتے نہیں تھکتے اور آپ اور ہم اتنے کمزور ہیں کہ ان سے نجات کا کوئی راستہ تلاش نہیں کر پاتے۔
آج کل امریکہ میں گوگل (یہ نام اب کسی تعارف کا محتاج نہیں) کے خلاف اجارہ داری قائم کرنے کے حوالے سے مقدمے کی تیاری ہو رہی ہے۔ جس جج کے پاس مقدمہ ہے‘ وہ انڈین امریکی ہے۔ گوگل سے اس سوال کا جواب مانگا گیا ہے کہ گوگل‘ جس کی دولت کا تخمینہ پونے دو کھرب ڈالر ہے‘ نے یہ دولت اجارہ داری قائم کرکے تو حاصل نہیں کی؟ رواں سال بھارت کی سافٹ ویئر ایکسپورٹ کا اندازہ دو سو تیس ارب ڈالر سے بھی زیادہ لگایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ رقم کمپنیوں نے اپنے پاس تو نہیں رکھنی‘ یہ حصہ داروں اور اس شعبے سے وابستہ افراد میں تقسیم ہوگی۔ حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں آمدنی ہو گی۔
76سال بعد ہمیں بہت سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم صرف پیچھے نہیں‘ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ دوسرے ممالک کے لیڈر سامنے ہیں۔ ہمارے اُوپر رنگے رنگیلے‘ اَنا اور حرص کے مارے مسلط کیے گئے ہیں۔ کوئی ملے تو پوچھتا ہے کہ کیا ہو گا؟ کل کیا ہونے والا ہے؟ انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ معیشت میں بہتری کب آئے گی؟ آپ خود ہی سوچیں کہ کیا جواب بنتا ہے؟ آخری بات لیڈر عوام سے اٹھتے ہیں‘ ان پر مسلط نہیں ہوتے۔ اور اگر وہ ناکام ہو جائیں تو دوسرے عوام کی تائید سے آجاتے ہیں۔ اس طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر