اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارے وسیب کے مسائل کا حل ……..!!||آفتاب نواز مستوئی

برادران محترم ۔! ۔آپکا نکتہ نظر آپکے خیال میں درست ہوگا مگر میری رائے میں پاکستان کے موجودہ چار صوبوں کی صورتحال حجم یا جغرافیہ کے لحاظ سے کچھ اس طرح ہے جیسے کار کے تین پہیوں کے ساتھ روسی ٹریکٹر کا پچھلا پہیہ لگا ہوا ہو اس لئیے جغرافیائی و انتظامی اور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کی تقسیم اب انتہائی ضروری ہے ۔

آفتاب نواز مستوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برادرم میاں محمد افضل ڈاہا صاحب ہمارے وسیب کی نامور کاروباری سیاسی وسماجی شخصیت ہیں اور مسلم لیگ ن سے وابستگی رکھتے ہیں ہمارے سکول فیلو اور بچپن سے اب تک کے نہ صرف پیارے دوست ہیں بلکہ ان سے بھائیوں جیسا رشتہ ہے ۔ اسی طرح عزیزم آصف علی تھہیم بھی ایک باشعور تعلیم یافتہ سیاسی وسماجی کارکن ہیں اور پیپلز پارٹی سے رکھتے ہیں یہ بھی انتہائی عزیز اور چھوٹے بھائی ہیں ۔
سرائیکستان صوبہ کے قیام کے مطالبہ پر مبنی میری ایک پوسٹ پر دونوں کا تبصرہ کومنٹس کی شکل میں یہ تھا کہ ” جاگیردارانہ نظام مزید مضبوط ہوگا ‘ عام آدمی پر مظالم بڑھ جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سال ہمارے انتہائی محترم مہربان و شفیق دوست رکن جماعت اسلامی پاکستان مولانا صدیق الرحمان جھانب صاحب نے بھی اسی طرح کے ملتے جلتے جملہ ہائے معترضہ پر مبنی ایک پوسٹ کی تھی جسکا جواب بندہ ناچیز نے اس وقت بھی یہی دیا تھا جو اب ذیل میں پیش خدمت ہے۔یہاں غور طلب امر یہ بھی ہے کہ ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں ( جماعت اسلامی ‘ مسلم لیگ ن ‘ اور پیپلز پارٹی ) کا منشور یا کوئی اور نکتہ آپسمیں ملتا ہو یا نہ ملتا ہو مگر ان تینوں جماعتوں سے ” پکے ٹھکے ” وابستہ میرے انتہائی قابل احترام اور عزیز القدر احباب کے سرائیکی صوبہ کے قیام بارے ملتے جلتے خیالات ان تینوں جماعتوں کی سوچ اور فکر کی عکاسی ضرور کرتے نظر آرہے ہیں اور بادی النظر میں یہ رائے قائم کرنے میں قطعی کوئی باک نہیں رہ جاتی کہ ” تخت لہو ر ” کا سحر یا جادو ” بزعم خود ” بڑی سیاسی جماعتوں پر پوری آب وتاب سے طاری ہے کیا کمال دوہرے معیار ہیں ان جماعتوں کے ایک طرف ” جنوبی پنجاب ” کے متنازعہ و سرائیکی عوام کے ناپسندیدہ نام سے اپنی تنظیمیں بنا رکھی ہیں دوسری جانب سرائیکی صوبہ یا سرائیکستان کے نام پر ایک ” لولی لنگڑی سی دلیل ” پیش کروا دی جاتی ہے کہ جاگیردار چھا جائیں گے ۔! کوئی ان جماعتوں سے پوچھے تو صحیح کہ جناب یہی خان وڈیرے سردار جاگیردار سرمایہ دار آپکی جماعتوں میں مرکزی اور صوبائی عہدیدار نہیں ہیں ؟ ہر الیکشن میں آپکے امیدوار یہی نہیں ہوتے ؟
بہرحال ہر ایک کا اپنا نکتہ نظر ہے سرائیکی صوبہ کے قیام بارے چند معروضات پیش کرنے کی کوششش ہم نے بھی کر ڈالی ہے باقی تجزیہ یا موازنہ قارئین پر ۔

برادران محترم ۔! ۔آپکا نکتہ نظر آپکے خیال میں درست ہوگا مگر میری رائے میں پاکستان کے موجودہ چار صوبوں کی صورتحال حجم یا جغرافیہ کے لحاظ سے کچھ اس طرح ہے جیسے کار کے تین پہیوں کے ساتھ روسی ٹریکٹر کا پچھلا پہیہ لگا ہوا ہو اس لئیے جغرافیائی و انتظامی اور آبادی کے لحاظ سے پنجاب کی تقسیم اب انتہائی ضروری ہے ۔
۔2.سرائیکی ایک قدیم ترین زبان ہے جسکا اپنا کلچر اپنی روایات و رسوم و رواج ہیں اور الحمد اللہ سرائیکی وسیب ہی پاکستان کا محافظ ‘ دین اسلام کا مرکز ‘ اولیائے اللہ اور صوفیائے کرام کا مسکن پرامن اور محبتوں بھرا خطہ ہے ۔
3.پاکستان کی معیشت کا دارومدار زراعت پر زیادہ ہے پورے پاکستان کا ریونیو ریکارڈ ملاحظہ فرما لیں سب سے زیادہ کاشتکاری اسی دھرتی میں ہی ہوتی ہے اور یہی علاقہ سب سے زیادہ کپاس ۔گندم اور دیگر اجناس پیدا کرتا ہے مصدقہ معلومات کے مطابق صرف ” تمباکو ” کی فصل کی مد میں حکومت پاکستان کو سب سے زیادہ ٹیکس سرائیکی وسیب ( جام پور جسے ضلع نہیں بننے دیا جارہا ) سے ملتا ہے ۔۔
4۔.آپ کو مجھ سے زیادہ علم ہوگا کہ پنجاب حکومت کے ظالمانہ نام نہاد انٹری ٹیسٹ کے نفاذ سے پہلے آپ ہی کی وسیب کے بچے اپنی صاحیتوں کے بل بوتے پر میرٹ پر ڈاکٹرز اور انجینئرز بنتے تھے جس پر ” تخت لہور ” نے گھبرا کر اس نام نہاد ٹیسٹ کا نفاذ کر دیا اور اب ریکارڈ ملاحظہ فرما لیں کہ اپر پنجاب کی نسبت آپکے کتنے بچے بچیاں یہ ٹیسٹ پاس کرپاتے ہیں ذہن میں رہے کہ وجہ یہ نہیں کہ ہمارے بچے محنت نہیں کرتے یا ذہین نہیں بلکہ دورن پردہ صورتحال یہ کہ انٹری ٹیسٹ کے حوالے سے جو سہولتیں لہور فیصل آباد ‘ گوجرانوالہ وغیرہ کے بچوں کو حاصل ہیں وہ سرائیکی وسیب کے بچوں کو حاصل نہیں آپ اندازہ کریں کہ صرف لہور میں 20 سے زائد یونیورسٹیاں ہیں جبکہ ہمارے پورے وسیب میں صرف چار ۔وہاں میڈیکل کالجز کی بھر مار ہے اور یہاں پورے. سراِئیکستان میں دو بڑے ( بہاولپور ۔ملتان ) اور دو چھوٹے ( رحیم یار خان ڈیرہ غازیخان ) میڈیکل کالجز ہیں ۔صحت کی سہولتیں دیکھ لیں صرف لہور میں کتنے ہسپتال ہیں اور آپکے پاس ( جہاں کینسر ‘ ہیپاٹائٹس ‘ یرقان ‘ گلہڑ ‘ دمہ ‘ تپ دق جیسے موذی امراض کی بہتات ہے ) کتنا ہسپتال ہیں ؟
صرف لہور میں کتنا پارکس اور گرین بیلٹ ہیں اور آپکے پاس اس ضمن میں کیا ہے ؟ لہور کا رنگ روڈ بن سکتا ہے میٹرو اور اورنج ٹرین چل سکتی ہے جبکہ پاکستان کے قیام کو 76 برس گزر جانے کے باوجود آپکا مظفر گڑھ علی پور روڈ ‘ مظفر گڑھ میانوالی روڈ ‘ ڈیرہ غازیخان راجن پور روڈ ( جوکہ قاتل روڈ کہلاتے ہیں ) آج تک نہیں بن سکے ؟
مری ڈویلپمنٹ اتھارٹی تو بن سکتی ہے مگر مری سے بھی زیادہ صحت افزاء اوع ٹھنڈا مقام ” ماڑی ” کسی کو نظر نہیں آتا ۔
لہور میں ہر جگہ اوور ہیڈ برج بن سکتے ہیں ہمارے وسیب سے گزرنے والے دریائے سندھ پر جام پور جتوئی اور لیہ تونسہ کے سامنے پل نہیں بن سکتے ۔
اپر پنجاب میں ننکانہ صاحب ‘ حافظ آباد ‘وزیر آباد ‘ قصور جیسے علاقے اضلاع اور گجرات ڈویژن بن سکتے ہیں ہمارے جام پور’ علی پور ‘ لیاقت پور’ خان پور احمد پور شرقیہ ‘ حاصل پور ‘ چشتیاں وغیرہ اضلاع اور لیہ رحیم یار خان ڈویژن کیوں نہیں بن سکتے ؟
5.اب آجائیں سول سروسز ۔پاک آرمی ۔عدلیہ ۔ تو مجھے بتائیں ان اداروں میں سرائیکی وسیب کی کتنا نمائندگی ہے ؟
6.ایک نظر قومی اسمبلی اور سینیٹ کی نشستوں پر ڈال لیں باقی تین صوبوں کی نشستیں ملا کر بھی پنجاب کی زیادہ بنتی ہیں اور ہمیشہ اقتدار کی جنگ پنجاب سے شروع ہوکر پنجاب سے ہی ختم ہوتی ہے روڈز ‘ پل ‘ موٹر ویز الغرض دنیا جہان کی تمام سہولتیں جو اپر پنجاب میں حاصل ہیں سرائیکی وسیب کو ان کا پانچ فیصد بھی حاصل نہیں ۔۔
8.ہر سال دریاوں اور پہاڑوں سے آنے والے سیلاب ہمارے ہی وسیب کو تباہ و برباد کر جاتےہیں ہر ضلع میں ڈیزاسسٹر منیجمنٹ فنڈ مختص ہوتا ہے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئیے جدید ترین مشینری و ضروری انتظامات موجود ہوتے ہیں زہادہ دور نہ جائیں صرف وسیب کے اپنے ہی دو بد نصیب اضلاع ( ڈیرہ غازیخان ۔راجن پور ) دیکھ لیں آج تک ان سیلابوں سے نمٹنے کیلئیے کیا ٹھوس اقدامات ہوئے ؟ اور پورے سرائیکی وسیب کے ڈیزاسسٹر منیجمنٹ کیلئے مختص فنڈز ہر سال اوائل جون میں ہی ( جب مالی سال اختتام پذیر ہو رہا ہوتا ہے ) کہاں چلے جاتے ہیں ؟
8. خیال تھا کہ اپنے دلائل مختصر رکھونگا مگر مجبوری ہے کہ وسیب کے دکھ اور محرومیاں اتنا ہیں کہ جنہیں سماعت کرنے کی تاب آپ سمیت کوئی بھی نہیں لا سکے گا پھر بھی۔
@ شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات کے مصداق
اپنا موقف یا نکتہ نظر آپ جیسی محترم اور صاحب علم شخصیات کے گوش گزار کرنے اور آپکی وساطت سے دوسروں تک پہنچا نے کی ایک کوشش کی ہے
9.بہاولپور کے سکونتی و رہائشی لوگوں کی اکثریت سرائیکی صوبہ کی حامی ہے اس نگری پر جبری مسلط کیئے گئے آبادکار ” رنجیت سنگھ ” کی نسل کے چند مفاد پرست بلکہ لالچی عناصر جو ” روہی چولستان ” کی زمینوں پر قبضہ برقرار رکھنے یا مزید اراضی ہتھیانے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہی سرائیکی صوبہ کی تحریک اور جدوجہد کو نقصان پہنچانے کیلیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں( جن کی تعداد پانچ فیصد بھی بمشکل ہوگی ) ورنہ کوئی اور بات نہیں ہے ۔
10.۔آپ نے فرمایا بلوچ سرداروں کو سرائیکی ووٹ دیتے ہیں تو قبلہ عرض ہے کہ محترم حاجی عاشق حسین ڈراجہ ہی کی تحقیق کے مطابق بلوچ کوئی قوم یا قبیلہ نہیں بلکہ ایک تعزیرات ہے جو انگریز نے نافذ کی تھی اور کو ہ سلیمان کے درہ جات کے راستے ہمارے وسیب پر اپنی حکمرانی کیلئیے کچھ ” طاقتور یا زور آور ” لوگوں کوخریدا گیا انہیں مراعات دی گئیں اور ہمارے پہاڑی علاقہ کو 9 حصوں میں تقسیم کر کے ہر حصے کا ” تمن دار ” مقرر کیا گیا اس پر پھر کبھی سہی
قصہ مختصر سرداری اور تمن داری نظام آخری سانسیں لے رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب یہ دھڑام کے ساتھ زمیں بوس ہوجائے گا اگر آج یہ لوگ اسمبلیوں میں ہیں تو اسکی بھی دو وجوہات ہیں
نمبر 1.مسلسل اقتدار میں رہنے کی وجہ سے انہوں نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقے من مرضی کے ساتھ اور بڑے بڑے بنوا رکھے ہیں اپر پنجاب کا صرف قومی اسمبلی کا ایک حلقہ آپکے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے بھی چھوٹا ہے ۔
نمبر 2..پاکستان کے واحد دو اضلاع راجن پور ڈیرہ غازیخان ( سرائیکی وسیب) ہیں جہاں کوہ سلیمان سے لیکر دریائے سندھ تک اسمبلیوں کے زگ زیگ حلقے ہیں اور جسکی بنیاد پر یہ لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں میرا چیلنج ہے آج کوہ سلیمان کی ڈیرہ ‘ راجن پور کی صرف ایک ایک تحصیل کونسل ( جو حال ہی میں انتظامی بنیادوں پر تشکیل دی گئی ہیں ) کو موجودہ حلقہ بندیوں سے الگ کر دیا جائے پھر دیکھئیے گا ان میں سے کتنے سردار اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں ۔؟
قصہ مختصر یہ گھبراہٹ آپ سمیت ہر وہ بندہ ذہن سے نکال دے جس کا خیال ہے کہ سرائیکی صوبہ بن جانے سے یہی سردار چھا جائیں گے یہ استدلال میں اس لیے بھی تسلیم نہیں کرتا کہ میرے پاس ایک ٹھوس دلیل یہ بھی ہے کہ جب مشترکہ ضلع ڈیرہ غازیخان تھا تو اس خطے کی سیاست صرف لغاری گروپ اور مزاری گروپ کے نام سے چلا کرتی تھی ( بے شک اپنے کردار کے بل بوتے پر شہید ڈاکٹر نذیر احمد نے ان کو شکست فاش سے دو چار کیا تھا مگر اس مرد قلندر کو بہت جلد راستے سے ہٹا تو دیا گیا مگر ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور آج کم تعداد میں صحیح ہر طرف آپکو جماعت اسلامی کا جھنڈا ضرور نظر آئے گا ) جب ضلع راجن پور بنا تو دریشک گروپ کھوسہ گروپ سامنے آئے پھر لنڈ ‘ قیصرانی ‘ بزدار ‘ گورچانی ‘ یعنی یہی لوگ ہی تقسیم ہوئے پہلے ان کے اتحاد و اتفاق کی مثالیں ہوا کرتی تھیں اب اللہ کے فضل سے خود ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں پہلے ان کے کاردار مینیجر ” گودے کا سنہیا ” پہنچا دیا کرتے تھے یا ” ٹبھوں ” جسے آپ اردو میں ایک چٹ کہہ سکتے ہیں بھیج کر ووٹ حاصل کرتے تھے اب انہیں در در گلی گلی ہر دیہات میں ووٹ کی خاطر جانا پڑتا ہے ووٹر کی قدرو منزلت بڑھی ہے تو سیلاب متاثرین ” ان کی خدمت ” کر رہے ہیں ( 2022کے سیلاب کے دوران حکومتی وزراء کے ساتھ عوام کا جارحانہ رویہ )
ایک آخری دلیل ہم سرائیکستان کہتے ہیں جبکہ تخت لہور نے ہمیں جنوبی پنجاب کا نام دے رکھا ہے اور اسکے مطابق جماعت اسلامی سمیت ہر سیاسی جماعت نے ” جنوبی پنجاب ” کے نام سے الگ تنظیمیں بنا دی ہیں اور یہی تو نوشتہ دیوار ہے کہ اس خطے کی حیثیت تو تسلیم کی جارہی ہے مگر نام بگاڑ کر ۔۔۔۔۔۔
میرے محترم ” آخری بند تے دعا ” کے طور پر عرض خدمت ہے کہ ہم آئین پاکستان کے تحت پرامن رہتے ہوئے پانچویں وفاقی اکائی مانگ رہے ہیں کوِئی جرم نہیں کر رہے ۔ ویسے یہی ریاست گلگت بلتستان کے نام سے الگ انتظامی یونٹ چلا رہی ہے جس پر آپ سب کی جماعتوں پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہاں حصول اقتدار کی جنگ میں سب برسر پیکار ہیں ۔۔
۔جناب والا ! الگ صوبہ بننے سے پاکستان کا جغرافیائی حجم متوازن ہو جائے گا صوبائی خود مختیاری کے اصول کے تحت سرائیلی صوبہ کو بھی برابری کی بنیاد پر وساِئل میسر آجائیں گے نئے صوبہ کے قیام سے نئے اضلاع بنیں گے نئی حلقہ بندیاں بنیں گی اور اس طرح یہ ” گودے گندرے ” ان شا اللہ کھڈے لائن لگ جائیں گے فکر نہ کریں اپنے خیالات پر نظر ثانی فرمائیں ہمارا ہماری نئی نسل کا مستقبل ( ٹانک ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ) 23 اضلاع پر مشتمل الگ صوبہ سرائیکستان کے قیام سے ہی وابستہ ہے ۔شکریہ

آفتاب نواز مستوئی کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: