مظہر اقبال کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری ہمیشہ یہی رائے رہی ہے۔ کہ اگر انتخابات کے نتیجے میں واقعی کوئی تبدیلی ممکن ہوتی اور انتخابات کے زریعے ملک اور قوم کا مستقبل بہتر ہونے کا رتی برابر بھی کوئی امکان ہوتا تو اب تک ملک میں انتخابات اور ووٹ ڈالنے پر پابندی لگ چکی ہوتی۔ مگر کیونکہ ہمارے ہاں مروجہ نظام میں انتخابات ملک اور قوم کا مقدر بدلنے کے لیے نہیں بلکہ اشرافیہ کے اقتدار کی باریاں بدلنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جمہوریت کے دیدہ زیب پیرہن میں آراستہ پیراستہ انتخابات کا یہ کھیل محض اس لیے ہر چند سال بعد رچایا جاتا ہے۔ کہ اس کے زریعے اپنے من پسند کھلاڑیوں کو جتوايا اور آگے لایا جاسکے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اگر ہم ماضی میں ہونے والے انتخابات کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لیں تو صورتحال چیخ چیخ کر گواہی دے رہی ہے۔ کہ ہمیشہ انہیں لوگوں کو آگے آنے دیا گیا جنہوں نے کٹھ پتلی بن کر چلنے کی یقین دہانی کرائی۔ بد قسمتی تو یہ ہے جمہوریت کی علمبردار کوئی بھی جماعت ایسی نہیں جس نے اقتدار کی خاطر معاملات طے نہ کئے ہوں۔ امراء کا محبوب ترین یہ کھیل کروڑوں سے شروع ہوکر اربوں تک چلا جاتا ہے۔ عام آدمی تو اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ انتخابات کے اس کھیل کا حصہ بن سکے۔ اس لیے جاگیر دار ، سرمایہ دار ، صنعتکار ، پیر اور وڈیرے ہی مفادات کے اس کھیل میں عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔
اس نام نہاد جمہوریت کی سب سے بڑی تلخ حقیقت یہ ہے۔ نہ تو عوام کے ووٹوں سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی ہیں اور نہ ہی سیاست اور انتخابات کا کھیل کھیلنے والے عوام کے لیے یا عوام کی طاقت سے سیاست کرتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ لوگ عوام کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔ بلکہ ان کا تو یہ بزنس ہے۔ انتخابات میں یہ لوگ انویسٹ کرتے ہیں اور اقتدار میں آکر یہ لوگ بمہ سود اس حد تک کمائی کرتے ہیں کہ ان کی نسلیں بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ وہ کوئی اور جمہوریتیں ہونگی جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام ہوتے ہیں یہاں تو ذلالت کا ہر چشمہ عوام کے پاؤں تلے پھوٹتا ہے۔
البتہ اس خواب اور سراب نما نام نہاد جمہوریت کی ایک حقیقت یہ ہے کہ عام آدمی ووٹ کی پرچی ڈال کر اس حد تک مطمئن ضرور ہو جاتا ہے۔ کہ اس نے ملک قوم اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے ووٹ ڈال دیا ہے۔ اسی طرح ووٹ کی پرچی ڈال دینے کی سہولت میسر آنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے۔ کہ لوگ کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کے خلاف ووٹ ڈال کر دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔ مگر اب ایسا محسوس ہو رہا ہے۔ لوگوں کو دل کی بھڑاس نکالنے کی اس سہولت سے محروم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یعنی عام آدمی ووٹ کی پرچی کی جس طاقت کے زعم میں مبتلا تھا۔ نہیں معلوم کتنے عرصے تک یہ طاقت اس سے چھین لی جائے۔
کیونکہ پی ڈی ایم کی حکومت اپنی مدت پوری ہونے سے قبل 9 اگست کو ختم کر دی گئی۔ تو ایسی صورت میں آئین کے مطابق انتخابات 90 روز میں کرائے جانے تھے۔ مگر حکومت نے آخری دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری دے دی۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن ایکٹ کے تحت پرانی حلقہ بندیاں خود بخود منجمد ہوجاتی ہیں۔ اور الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرانے کا پابند ہوتا ہے۔ یہی وجہ الیکشن کمیشن نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر نئی حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ جس کے تحت حلقہ بندیوں کے لیے کمیٹیوں کی تشکیل ، تجاویز ، اعتراضات اور اعتراضات کی سماعت کے بعد حلقہ بندیوں کو حتمی شکل 14 دسمبر کو دی جائے گی اور حلقہ بندیوں کی تشکیل کے بعد الیکشن کا شیڈول جاری کیا جائے گا۔
گو کہ مردم شماری کی منظوری میں تاخیری حربے استعمال کر کے دانستہ طور پر الیکشن التوا میں ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر اب آئینی طور پر حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن ممکن نہیں۔ یہاں تک تو یہ بات درست ہے۔ مگر جس طرح کی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ اور جس طرح نگران وزیر اعظم سے لیکر نگران کابینہ تک سب فیصلے کہیں اور سے ہوۓ ہیں ایسی صورت حال میں یہ خدشات سر اٹھا رہے ہیں کہ معاملات فروری سے بھی آگے نہ چلے جائیں۔ کیونکہ اس سے پہلے 90 روز کے انتخابات کو قوم 11 سال تک بھگت چکی ہے۔ گو کہ اب وہ حالات نہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ حالات اس سے بہتر بھی نہیں۔ کیونکہ پاکستان کا المیہ یہ ہے۔ کہ جو حقیقت ہوتی ہے۔ وہ سامنے نہیں ہوتی اور جو سامنے ہوتی ہے وہ حقیقت نہیں ہوتی۔
قابل غور پہلو یہ بھی ہے۔ کہ الیکشن کمیشن نے تو مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کے التواء کا اعلان کیا۔ مگر مسلم لیگ کے عہدیدار تو اس پہلے الیکشن فروری میں کرائے جانے کا اشارہ کر چکے تھے۔ جبکہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ "بڑوں” نے الیکشن فروری میں کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ آج بڑوں نے فروری میں الیکشن کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کل کلاں اگر حالات بڑوں کی مرضی کے مطابق نہ ہوئے اور انتخابات کے اس کھیل میں پسند کے کھلاڑی نہ مل سکے تو معاملات فروری سے کہیں آگے بھی جا سکتے ہیں۔ اور اگر الیکشن آگے جاتے ہیں تو نہیں معلوم کتنا آگے جاتے ہیں۔ اور مجھے رہ رہ کر اس بات کا خیال آرہا ہے کہ اگر کبھی الیکشن کے نتیجے میں ملک و قوم کی ترقی اور عوام کی بہتری کا کوئی امکان نظر آیا تو الیکشن اور ووٹ ڈالنے پر پابندی لگا دی جائے گی۔
منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود
ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود
وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود
اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی