مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

افغان مسئلہ سے پیدا ہوئے عذاب ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حالیہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا میں پشاور سمیت مختلف مقامات پر سکیوٹری فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔

گزشتہ بدھ کو پشاور میں مارے گئے 2 دہشت گردوں کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی کے ایک ذیلی گروپ سے بتایا جارہا ہے۔ پشین میں گزشتہ روز مارے گئے 4 افراد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان کا تعلق کالعدم داعش کے خراسان چیپٹر سے تھا۔

ادھر اقوام متحدہ نے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کا چھوڑا اسلحہ کالعدم ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور دیگر انتہا پسند گروپوں کے ہاتھ لگنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے خطے میں دہشت گردی کے بڑھنے کے امکانات ہیں۔ افغان حکومت کو دوحا معاہدے کے مطابق اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی۔

اقوام متحدہ نے افغان سرزمین پر موجود مختلف الخیال دہشت گرد گروپوں کے ہاتھ لگنے والے جدید اسلحہ کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا وہ معروضی حالات کی روشنی میں نہ صرف درست ہے بلکہ اس سے ان خطرات و خدشات کی بھی تصویق ہوتی ہے جس پر پچھلے کچھ عرصہ سے ایران اور پاکستان کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ذمہ داران افغان عبوری حکومت کو متوجہ کرتے آرہے ہیں۔

اسی طرح یہ تلخ حقیقت بھی واضح ہے کہ گزشتہ ایک سے ڈیڑھ برس کے دوران صرف خیبر پختونخوا میں مسلح جتھوں کی کارروائیوں میں تین سو کے قریب پولیس و سکیورٹی فورسز کے اہلکاران شہید و زخمی ہوئے جبکہ دہشت گردی کی وارداتوں میں سینکڑوں شہری بھی شہید و زخمی ہوئے۔

افغان عبوری حکومت کے غیرذمہ دارانہ طرزعمل اور افغان سرزمین پر مختلف الخیال دہشت گرد گروپوں کی موجودگی کے حوالے سے ایک رائے یہ ہے کہ افغان حکومت ان گروپوں کی اپنی سرزمین پر موجودگی کو پڑوسی ملکوں کے خلاف بلیک میلنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔

بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ گروپ پڑوسی ملکوں سے افغانستان کے لئے فوری ضرورت کی اشیاء کی سمگلنگ میں معاونت کرتے ہیں اس کے بدلے میں افغان حکومت انہیں اپنی حدود میں قیام کرنے پر اولاً بازپرس سے گریز کرتی ہے ثانیاً ہرات، کابل اور قندھار میں غیرملکی اسلحہ کی منڈیوں سے انہیں جدید اسلحہ خریدنے کی سہولت بھی فراہم کرتی ہے۔

ہماری دانست میں یہ صورتحال کسی بھی طور تسلی بخش نہیں۔ گزشتہ کچھ عرصہ میں پنجاب میں گرفتار ہونے والے دہشت گردوں سے دوران تفتیش ان کے افغانستان میں قیام، تربیت اور ہدف لے کر پاکستان آنے کے حوالے سے ملنے والی معلومات پر تشویش بجا ہے۔

گو یہاں پہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ افغان عبوری حکومت دامے درمے سخنے ان دہشت گرد گروپوں بالخصوص کالعدم ٹی ٹی پی سے تعاون میں مصروف ہے لیکن ان گروپوں سے تعلق رکھنے والے شرپسندوں کی سرحد کے دونوں اطراف آزادانہ نقل و حرکت کو بارڈر سکیورٹی مینجمنٹ کے ذمہ داروں نے کیسے نظرانداز کیا۔ بالخصوص اس صورت میں جب افغان سرحد سے ملحقہ پاکستانی علاقوں میں اس آزادانہ آمدورفت کا سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ اسی سبب افغانستان سے ملحقہ دونوں پاکستانی صوبوں خبر پختونخوا اور بلوچستان میں رائے عامہ کا بڑا حلقہ افغان مہاجرین کو عالمی قوانین کے مطابق کیمپوں تک محدود کرنے اور اقوام متحدہ کے تعاون سے انکی واپسی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتا چلا آرہا ہے۔

اس ضمن میں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ افغانستان سے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا اب جب سے افغان طالبان نے دوبارہ سے عبوری حکومت کے طور پر افغانستان کا اقتدارحاصل کیا ہے تو دو طرح کے لوگ افغانستان سے مسلسل نقل مکانی کررہے ہیں اولاً وہ جن کے خلاف افغان عبوری حکومت نے کرزئی و غنی ادوار کے حکومتی امور میں شرکت کو جرم قرار دیتے ہوئے کارروائی شروع کررکھی ہے ثانیاً وہ خاندان جن میں کمانے والا کوئی بالغ مرد موجود نہیں ان خاندانوں کی کفالت کی ذمہ داری خواتین پر ہے۔

افغان عبوری حکومت نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی کے ساتھ نرسنگ کے شعبہ میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی لگائی اس کے ساتھ وہ تمام کاروبار بند کردیئے گئے جو خواتین چلارہی تھیں ان غیرمساویانہ فیصلوں اور ان پر عمل کی صورت میں ہزاروں خاندان فاقہ کشی کا شکار ہوکر اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ افغان مہاجرین کی اکثریت دیگر پڑوسی ممالک کی بجائے پاکستان ہجرت کرنے کو کیوں ترجیح دیتی ہے

اس سوال کا سیدھا سادہ جواب یہ ہے کہ افغانستان کے دیگر پڑوسی ممالک مہاجرین کے لئے موجود عالمی قوانین کے ساتھ اپنے ملکی قوانین پر سختی سے عمل کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں جبکہ پاکستان میں افغان مہاجرین کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ مرضی سے جہاں رہیں کاروباری کریں کہیں اگر اعتراض ہوا تو یہ اپنی مہاجر شناخت چھپاکر خود کو سابق قبائلی علاقوں کے باشندوں کے طور پر پیش کرتے ہیں جس کی وجہ سے نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ افغانستان سے ملحقہ دونوں پاکستانی صوبوں کی مذہبی جماعتیں اور قوم پرست اپنے اپنے مفاد کےلئے افغان مہاجرین کے معاملے پر سیاست سے نہیں چوکتے۔

ان حالات میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے بہت ضروری ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھجوایا جائے۔ نئے مہاجرین کی آمد کی اجازت نہ دی جائے۔ بارڈر مینجمنٹ کو عالمی معیار کے مطابق بنایا جائے۔

نیز یہ کہ حکومت، افغان حکام پر دوٹوک انداز میں واضح کرے کہ مختلف الخیال دہشت گرد گروپوں کی افغانستان میں موجودگی اور انہیں حاصل افغان ذمہ داروں کے تعاون سے ہی پاکستان میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

فقط یہی نہیں بلکہ افغان حکومت سے سرحد پار دراندازی روکنے کے ساتھ یہ مطالبہ بھی کیا جانا چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات نہ کرے جس سے آبادی کے مختلف طبقات کے خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوں۔ ایک مناسب ترین تجویز یہ بھی ہے کہ دہشت گرد گروپوں کے خلاف دونوں ملک مل کر کارروائیاں کریں اس سے افغان عبوری حکومت کا سچ جھوٹ بھی دنیا پر عیاں ہوجائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: