نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مجرم کون ہے عمران یا اسٹیبلشمنٹ۔۔؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ درست ہے کہ عمران خان کی سیاست اوئے توئے، تو چور، ڈاکو فلاں فلاں، تمہاری مونچھیں اکھاڑدوں گا تمہیں اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا وغیرہ وغیرہ اور اس جیسی بڑھکوں سے عبارت تھی اور ہے۔ وہ وزیراعظم بہت بعد میں 2018ء میں بنائے گئے لیکن ان کی شخصیت سازی کا کام بہت پہلے شرع ہوگیا تھا۔ ایک طرح سے شوکت خانم ہسپتال کی چندہ مہم شخصیت سازی کا حصہ تھی۔

جب عمران خان شوکت خانم کینسر ہسپتال کےلئے چندہ مہم پر نکلے تو ذرائع ابلاغ کے ذریعے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا میں اپنی نوعیت کا پہلا کینسر ہسپتال بنانے کی مہم پر ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ ہی تھا کہ شوکت خانم ہسپتال پہلا کینسر ہسپتال ہوگا۔ حکومتی سطح پر انمول اور چند دوسرے کینسر ہسپتال پہلے سے ہی موجود تھے لیکن چونکہ پہلے کینسر ہسپتال کی کہانی آئی ایس پی آر کے کہانی بازوں نے گھڑی تھی سو بڑے بڑے دھانسو مجاہدین یہی لقمہ چباتے رہے۔

انہیں ایک مسیحا دیوتا اور بیباک رہنما کے طور پر پیش کر کے آگے بڑھایا گیا۔ ایک ایسا آدمی جو جھوٹ نہیں بولتا حالانکہ ان کا پہلا جھوٹ یہ تھا کہ میں سیاست میں آکر دو دو ٹکے کے آدمی سے ووٹ کیوں مانگوں۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کا بندہ لاتی ہے جو اس کے پیچھے دم ہلاتا رہے۔ وہ سیاستدان بھی بنے، دو دو ٹکے کے لوگوں سے ووٹ بھی مانگے اور اسٹیبلشمنٹ کے ’’وفادار‘‘ کے طورپر بھرپور کردار بھی ادا کیا

لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ایک کوڑھ مغز غبی اور ذات کے اسیر شخص کو نفرتوں کی سیاست کا دیوتا بناکر پیش کرنے، آگے بڑھانے اور پھر ایک دن وزیراعظم بنانے والی اسٹیبلشمنٹ کو ہم سب کیوں بھول جاتے ہیں۔

عمران خان اگر مجرم ہے تو اسٹیبلشمنٹ سادھو کیسے؟

اصل مجرم تو یہ خودساختہ مالکان ہیں ان کا خیال تھا کہ دو جماعتی نظام میں جماعتوں کےباہمی مفادات کے ٹکرائو کے باوجود کسی دن سیاسی عمل کے حوالے سے سمجھوتہ ہوسکتا ہے اس لئے تیسری جماعت کا ہونا ازبس ضروری ہے۔

تیسری جماعت کیوں ضروری ہے اس کے خدوخال کیا ہوں اور اٹھان کی بنیاد کیا اس پر غوروفکر کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے جو پہلی غیراعلانیہ مگر باضابطہ کمیٹی بنائی اس کے سربراہ جنرل مجیب الرحمن تھے۔ تیسرے فوجی دور کے سیکرٹری اطلاعات ایک مرحلہ پر انہیں کام سے روک کر یہ ضرور سوچا گیا کہ کیوں نہ سابق آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کو آزمایاجائے۔ چند دن بعد اس غوروفکر کو ایک ٹرنک میں یہ کہہ کر بند کردیاگیا کہ انہیں عوامی قبولیت نہیں مل پائے گی کیونکہ وہ مہاجر ہیں۔

ایک بار پھر اپنی جماعت کے منصوبے کی فائل کھولی گئی بہت غوروفکر اور بڑی تسلی کےبعد عمران خان کے نام پر اتفاق رائے ہوگیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب ان کے دو ماتحت محکموں میں بالادستی کی جنگ جاری تھی اس جنگ کے بیچوں بیچ ایک محکمے نے اپنے ذرائع استعمال کئے اور انہیں میڈیا کی ڈارلنگ بنوادیا۔

اسی دور میں نجی ٹی وی چینل آئے تھے اہتمام کےساتھ ان چینلوں پر عمران خان کی شخصیت سازی کی گئی ایسا بھی ہوا کہ کبھی ایک ہی. دن میں شام کے وقت کسی چینل پر ان کی ریکارڈنگ (پروگرام یا انٹرویو کی) نشر ہورہی ہوتی اور کہیں وہ خود جلوہ افروز ہوکر گفتگو کررہے ہوتے۔

ریاست اپنا دیوتا سمان لیڈر لانچ کرنے جارہی تھی اس لئے ہر وہ طریقہ اپنایا گیا جو مارکیٹ میں دستیاب تھا۔ جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کےبعد ریاستی محکمے نے کھلم کھلا اپنی سیاسی جماعت کے سربراہ کی سرپرستی شروع کردی پہلے اگر کوئی پردہ رکھ کر وسیلوں سے بات آگے بڑھائی جاتی تھی تو اب ایسا نہیں تھا۔

جنرل شجاع پاشا کے ماتحت باضابطہ احکامات دیا کرتے تھے اسی دور میں کرائے کا وہ لشکر تیار کیا گیا جسے آگے چل کر ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کہا گیا۔ اس لشکر نے سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ شروع کیا اسی اثنا میں ٹی وی چینلوں کے سیاپا فروش اینکروں نے ایک طرف تو ہر برائی سیاستدانوں اورسیاسی جماعتوں کے گلے ڈال کر دوسری طرف دو چورن اہتمام کے ساتھ فروخت کئے گئے ایک یہ کہ یہ ملک صرف اور صرف فوج کی وجہ سے قائم ہے، فوج نہ ہوتی تو سیاستدان ملک کو بیچ کر کھاگئے ہوتے۔

اس سوچ کے دیوانے صوبہ پنجاب میں وافر تعداد میں مل گئے یہ دیوان گان اصل میں ان خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے جو 1947ء کے بٹوارے میں مشرقی پنجاب اور ملحقہ علاقوں سے نقل مکانی کرکے پاکستان کے پنجاب میں آن بسا تھا۔ یہ خاندان بٹوارے کے وقت سے فوج کو مسیحا سمجھتے تھے۔

ہم یہاں اس پر بحث نہیں اٹھارہے کہ بٹوارے کے وقت لاہور اور راولپنڈی وغیرہ میں جو فساد ہوئے اس فساد کے خالق ہندوستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بعض مسلم کردار تھے۔

فساد کروانے کے پیچھے نفرتوں بھری سیاست اور فضا میں پالیسی سازی پر کامل گرفت رکھنے کی سوچ کارفرما تھی۔ ہماراموضوع فقط یہ ہے کہ عمران خان نفرتوں اور عدم برداشت کی جس سیاست کے علمبردار بن کر میدان میں اترے اس میں یقناً کچھ نہ کچھ دخل ان کی ذاتی شخصیت کابھی تھا لیکن 95فیصد عمل دخل سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی اس خواہش کا تھا کہ ہماری اپنی پارٹی کا ہونا بہت ضروری ہے

یہ اپنی پارٹی بنانے کے جنون کا ہی معاملہ تھا کہ اکتوبر 2011ء میں عمران خان نے مینار پاکستان پر جو جلسہ کیااس جلسہ میں کینٹ کے مخصوص علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد اہلخانہ سمیت ایک حکم کے تحت شریک ہوئی۔

یہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ہی تھی جو اپنے تخلیق کردہ مسیحا و دیوتا کو بتاتی رہی کے اس ملک میں صرف تم ایک اکیلے ایماندار باکردار بہادر اور محب وطن ہو باقی سارے سیاستدان دھرتی پر بوجھ ہیں اس بوجھ کے خاتمے کےلئے ریاست تمہارے ساتھ کھڑی ہے۔

صرف اس انداز میں ذہن سازی ہی نہیں ہوئی بلکہ جنرل پاشا کے دور میں سوشل میڈیا کے لئے تیار کردہ پروپیگنڈہ لشکر بھی اس کی شخصیت سازی کے لئے وقف کردیا گیا نجی چینلوں کے مالکان اور ’’مجاہدین‘‘ کی اتنی اوقات نہیں تھی کہ وہ آبپارہ اور آئی ایس پی آر سے آئے حکم سے انحراف کرتے۔

دیکھتے ہی دیکھتے ایک انقلابی شخصیت تعمیر ہوگئی۔ سول ملٹری بیوروکریسی کے طوطے کہلانے والوں نے میثاق جمہوریت کو ریاست اور فوج کے خلاف قرار دیا یہ باور کروایا گیا کہ میثاق جمہوریت کے پیچھے بھارت اور امریکہ ہیں۔

آپ اندازہ کیجئے 1997ء اور پھر 2002ء کے انتخابی نتائج سے عوامی مقبولیت کا 2008ء میں موصوف اے پی ڈی ایم کا حصہ تھے بائیکاٹ پر رہے 2013ء میں ایک صوبے کا اقتدار دیا گیا۔ اگلے پانچ سال اس صوبے خیبر پختونخوا کو پاکستانی میڈیا میں سوئٹزرلینڈ بناکر پیش کیا گیا اور عمران خان کو مستقبل کے لئے نجات دہندہ

اس کے لئے مکمل انتظام و اہتمام تھا لیکن 2013ء کے انتخابات سے قبل اس نے بھارتی اینکر کرن تھاپر کو دیئے گئے انٹرویو میں مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کی توقع کے خلاف باتیں کہہ دیں۔ بہرحال 2018ء میں دیوتا فاتح ہوا تین صوبوں اور وفاق میں اقتدار مل گیا۔

خان اٹھتے بیٹھتے فضائل آرمی چیف و اسٹیبلشمنٹ بیان کرتا تھا۔ مخالفین کو روند ڈالنے کی باتیں عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ نے اس سے دو کام لینے تھے ایک کشمیر پر منہ بسورنے والی پالیسی تک محدود رہنا ثانیاً سیاستدانوں کو گالی بنادینا، دونوں کام خوش اسلوبی سے ہوئے ۔

عمران اور باجوہ نے امریکی صدر ٹرمپ کو مقبوضہ کشمیر کے لئے بھارتی پالیسی (5 اگست 2019ء والی) کے لئے رضامندی دیدی اسی خدمت پر باجوہ کو توسیع ملی تھی پھر مفادات کا ٹکرائو ہوا بات بڑھتی گئی۔

داخلی اور خارجہ پالیسیوں کے بونگے پن اور ناکام معاشی پالیسیوں نے دیوتا پر چڑھایا گیا سونے کا پانی اتار پھینکا۔

پھر یہ ہوا کہ خان نے ہر وہ گالی اور بات اسٹیبلشمنٹ کی خدمت میں پیش کی جو قبل ازیں وہ اپنے سیاسی مخالفوں کو دیتا تھا۔ مکرر عرض ہے خان آج جہاں کھڑا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے۔ ملک میں جو سیاسی عدم استحکام ، عدم برداشت اور نفرت کا دوردورہ ہے اس کی تمام تر ذمہ داری اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

باجوہ رجیم نے اپنے ’’لطف ‘‘ کے لئے ہر چیز تہس نہس کروادی اس لئے صرف عمران کو مجرم سمجھنا، کہنا درست نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author