مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امی کی سلائی مشین!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

امی اس وقت تک کپڑے سیتی رہیں جب تک ان کی نظر اور کمر نے ساتھ دیا شاید پینسٹھ چھیاسٹھ کی عمر تک۔ سولہ برس کی لڑکی نے پچاس برس تک یہ اننگ کھیلی اور وہ بھی بلا معاوضہ۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

” امی میں چاہتی ہوں کہ ایک سلائی مشین خرید لوں۔ کئی کپڑے پہن کر ٹھیک نہیں لگتے، جی چاہتا ہے میں اپنے لباس کی کتر بیونت اپنی مرضی سے کیا کروں“

مغرب میں تیز رفتار زندگی کے ساتھ بھاگنے دوڑنے والی بیٹی کا خیال سن کے ہم ہک دک تھے۔ کیا یہ کوئی آواگون کا مسئلہ ہے؟

ہم نے متعجب ہو کے سوچا اور یادوں کے دبستان میں برسوں پہلے کی ایک دلگداز آواز کی گونج سنائی دی۔ ”سنیے مجھے سلائی مشین لا دیجیے، مجھے اپنے کپڑے خود سینے ہیں“ ۔

یہ کہانی ان دنوں کی ہے جب ایک نوعمر لڑکی بیاہ کے اپنے گاؤں سے شہر آئی۔ وقت اور رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی اور سولہ برس کی عمر میں بیاہ کے رخصت کر دیا گیا۔ اجنبی شہر، نہ میکہ نہ سسرال، سو دونوں میاں بیوی زندگی سہل کرنے کے طریقے خود ہی سوچتے۔ چونکہ پاؤں فوراً بھاری نہیں ہوا تھا سو فرصت ہی فرصت۔ دو فرد، ایک دفتر گیا دوسرا حد سے زیادہ پھرتیلا اور گھر کا مختصر کام۔ نمٹانے کے بعد کیا کرے؟

ہمیں یہ علم نہیں کہ شادی سے پہلے امی کے کپڑے کون سیتا ہو گا لیکن پنڈی میں امی کے کپڑے درزی سے سلوانے شروع کیے گئے۔ بائیس برس کے ابا درزی کو کپڑے سلنے کو دے آتے، پھر لاتے اور سولہ برس کی امی پہن کر اٹھلاتیں۔ گاؤں سے آنے والا نیا شادی شدہ جوڑا، انیس سو انچاس کا پنڈی اور درزی سے سلے ہوئے کپڑے، حیران کن تو ہے۔

فراغت جب امی کے سر پہ کچھ زیادہ سوار ہو کر ناچنے لگی تو دماغ ان کی مدد کے لیے لپکا۔ بات سن بچی، یہ جو شلوار قمیض سل کر آئی ہے نا تیری کل ہی درزی سے، دیکھ کیسے سیا گیا ہے اسے؟ امی نے الٹ پلٹ کر دیکھا تو سمجھ نہیں آیا کہ کیسے کٹائی ہوئی اور کیسے سلائی؟ گھر میں فالتو کپڑا بھی نہیں کہ کچھ کاٹ پیٹ کر کے دیکھوں۔ کیا کروں؟ سوچنے بیٹھیں تو سامنے پڑے اخبار پر نظر پڑی۔ چلو اخبار کاٹ کر دیکھتی ہوں اس ناپ کا۔ اخبار میز پر بچھا کر اس کے اوپر قمیض۔ قمیض کے سائز کا اخبار کٹ تو گیا لیکن کچھ ٹھیک نہیں لگا۔ بازو اور قمیض کے درمیان کے جوڑ کا کیا کروں؟ سر گزارنے کا سوراخ اور بازو گھسانے کا سوراخ کیسے بناؤں؟ کتنا کاٹوں؟ سب کیسے ہو گا؟ اچھا چلو ایسا کرتی ہوں یہ قمیض ادھیڑ دیتی ہوں۔

ادھیڑ دوں نئی قمیض؟

کہیں وہ ناراض نہ ہو جائیں؟ اتنی مہنگی سلائی اور میں کھول کر رکھ دوں۔ کہیں گے ایسے ہی نئی قمیض کا ستیاناس مار دیا۔

ایک بار اس ناپ کا کاٹ کر پھر جوڑ دوں گی قمیض۔ سلائی کے نشان تو باقی رہیں گے نا۔
سیو گی کیسے؟
مشین تو ہے نہیں؟
بھئی سوئی دھاگہ ہے نا بس اسی سے سی لوں گی۔

لیجیے جناب، قمیض ادھیڑی گئی، اگلا حصہ، پچھلا، بازو، کندھے، دامن۔ سب علیحدہ ہو گئے تب استری پھیر کر انہیں سیدھا کیا گیا۔ اب اخبار کی باری تھی۔ اخبار کے اوپر ہر ٹکڑا رکھ کے اخبار کاٹا گیا۔ گلے کی تراش خراش کی گئی، کندھے کی گولائی ناپ کر کاٹی گئی۔ کاغذی خاکہ تیار ہوا تو سوچا اسے جوڑ کر بھی دیکھا جائے۔ سوئی دھاگے سے سیلی ہوئی اخبار کی قمیض تیار۔ الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ٹھیک ہے لیکن کچھ کمی لگتی ہے ابھی۔ چلو دوسرا اخبار کاٹ کر دیکھتی ہوں۔

ابا کے گھر لوٹنے تک پانچ چھ کاغذی پیراہن تیار ہو چکے تھے۔ ابا نے حیرت سے دیکھا، امی ہنس دیں۔ فارغ تھی سوچا، پریکٹس کرتی ہوں۔ اگلے دن یہ سب کچھ پھر سے دہرایا گیا۔ کٹائی، سلائی اور نقص دور کرنے کی کوشش۔ تین دن بعد امی نے ابا سے فرمائش کی کہ انہیں کپڑا چاہیے۔ ابا بھانپ تو چکے تھے کہ امی کچھ دنوں سے سلائی سکول کھول کر بیٹھی ہیں سو اگلے دن ہی بازار سے کپڑا آ گیا۔ اب فائنل امتحان تھا کپڑے پر۔ امی نے کپڑا کاٹا، ہاتھ سے سیا اور جب قمیض شلوار پہن کر خود کو دیکھا تو آئینے نے فوراً تھپکی دی۔ بنا کسی استاد کے۔ اچھے بھئی بہت اچھے۔ حوصلہ بڑھ گیا۔ ایک دو اور سی کر دیکھتی ہوں۔ اور کپڑا، کٹائی، سوئی دھاگے سے سلائی اور پھر آئینے کی تھپکیاں۔ جس دن آئینے نے کہا واہ استاد، مان گئے۔ اسی دن ابا نے امی کو جاپان کی بنی ہوئی سنگر سلائی مشین لا دی کہ اب بیوی کی انگلیوں پہ سوئی سے ہونے والی مشقت نظر آتی تھی۔

امی خوشی سے نہال، کس کے کپڑے سئیں اب؟ بچے تو ہیں نہیں، خاندان قریب ہے نہیں۔ کام آئیں سہیلیاں اور محلے والے جنہیں امی نے پکڑ پکڑ کر کہا کہ اب درزی سے سلوانے کی ضرورت نہیں۔ مشین بھی ہے اور فراغت بھی، بلا معاوضہ سئیوں گی تم سب کے کپڑے۔

امی کی یہ فراخدلانہ آفر محدود مدت کے لیے نہ رہی۔ زندگی میں بچے شامل ہوئے، بڑے بھی ہو گئے، مگر امی کا سلائی کا شوق اور دوسروں کو سی کر دینے کی خواہش ختم نہ ہوئی۔ سلوانے والوں کو اور کیا چاہیے تھا بھلا؟ کپڑے تو سلائی ہوتے ہی، سہ پہر میں گپ شپ کے ساتھ چائے اور پکوڑے بھی ملتے جو امی کی بیٹیاں ان لوگوں کے لیے بناتیں جو کپڑوں کی ایک گٹھڑی باندھ کر امی کو دینے آتے۔

گرما کی طویل دوپہریں۔ ٹائلز والے برآمدے، اماں مشین رکھ لیتیں اور اس وقت تک کپڑے سیتی رہتیں جب تک شام کا اندھیرا دستک نہ دینے لگے۔ ابا مغرب کی نماز کے لیے مصلا برآمدے میں ہی بچھا لیتے، انہیں امی کی اس ایکٹوٹی پہ کبھی کوئی اعتراض نہ ہوا۔

سہ پہر میں اماں کی سہیلیاں، دور پار کے رشتے دار آنے لگتے۔ خالہ جی میرا سوٹ سل گیا جو پرسوں دیا تھا؟
آنٹی میری میکسی اور فلیپر؟
آپا جی، میں نے آج دو سوٹ اور خرید لیے۔ سی دو گے نا جلدی؟
ہاں ہاں کیوں نہیں؟

دوپہر کے بعد فارغ ہوتی ہوں۔ مشین پہ بیٹھ جاتی ہوں۔ امی اتنی پھرتی سے کپڑے سیتیں کہ سب حیران رہ جاتے۔ شلوار کے پائنچے پہ ایسی سیدھی سلائی کہ ہم جو پاس بیٹھے دیکھ رہے ہوتے، پوچھ بیٹھتے، امی آپ اتنی تیزی سے مشین چلاتی ہیں، سلائی ٹیڑھی کیوں نہیں ہوتی؟ وہ ہنس کر کہتیں، اب اگر بیس تیس برس کے بعد بھی سلائی ٹیڑھی ہو تو کیا فائدہ اس ہنر کا؟

سلائی میں اس قدر صفائی اور خوبصورتی کہ مانو عام سے کپڑوں میں جان پڑ جاتی۔ ان کے ہاتھ سے سلا ہوا پہن کر کسی ماہر سے ماہر درزی کے ہاتھ کا سلا ہوا جوڑا پسند نہیں آ سکتا تھا آپ کو۔

امی کے ہنر کا سب سے زیادہ فائدہ ہم نے اٹھایا کہ شوقین بہت تھے۔ ہمارا یہ حال کہ آج کپڑا خریدا گیا ہے، کل پہننا ہے اور ڈیزائن بھی کوئی ایسا ویسا نہیں۔ میگزین کھول کھول کر ہم امی کو دکھاتے، دیکھیے امی گلا ایسا، بازو ایسے۔ بٹن یہاں پر، لیس اس طرح سے۔

امی غور سے دیکھتیں، کچھ حساب کتاب لگاتیں، قینچی پکڑتیں اور لیجیے کٹائی سلائی شروع۔ کچھ ہی دیر میں آواز لگاتیں، میں نے قمیض کھڑی کر دی ہے، پہن کر دکھاؤ پھر فائنل کروں۔

ہم نے تمام عمر ایسے ایسے ڈیزائن کے کپڑے پہنے کہ میڈیکل کالج میں لڑکیوں کو پوچھنا پڑتا کس درزی سے سلواتی ہو تم؟ اس قدر خوبصورتی سے سلا ہوا، نفاست کا شاہکار اور ڈیزائن بوتیک جیسا۔ ہماری عادات ایسی بگڑیں کہ ہمیں بہت کم کسی درزی کی سلائی پسند آتی۔ ذرا سا نقص ہوتا، فوراً بھانپ جاتے، تیرہ بڑا بنایا تم نے، کندھے کی موری کی گولائی ٹھیک نہیں، گلے کی پائپنگ کھینچ کر لگی ہے۔ کل پہننا ہے سوٹ سو آج سی دو۔ سوچیے اتنی مین میخ اور اتنے نخرے کون سا درزی برداشت کرتا؟

امی اس وقت تک کپڑے سیتی رہیں جب تک ان کی نظر اور کمر نے ساتھ دیا شاید پینسٹھ چھیاسٹھ کی عمر تک۔ سولہ برس کی لڑکی نے پچاس برس تک یہ اننگ کھیلی اور وہ بھی بلا معاوضہ۔

آج اس سوال کا جواب ہمیں نہیں ملتا کہ کیوں؟ اپنے اور بچوں کے کپڑے سینا تو اور بات تھی لیکن سالہا سال تک سہلیوں، محلے داروں اور رشتے داروں کے ہر موسم کے ڈھیروں کپڑے بلا معاوضہ سینا جس کے لیے دھاگے بھی وہ اپنے پلے سے منگواتیں۔ کیوں آخر؟

ایک بات ہی سمجھ میں آتی ہے کہ امی اپنے ہنر اور اپنی فیاضی کے رنگ دنیا کو دکھانا چاہتی تھیں۔ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ کچھ لوگ اسی بے لوثی سے دنیا میں دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

لگے ہاتھوں سن لیجیے کہ ہم تینوں بہنوں نے امی سے باقاعدہ طور پہ کچھ نہیں سیکھا مگر تینوں سلائی میں طاق ہیں۔ ہمیں کپڑے سینے کا موقع تو نہیں ملتا مگر ریڈی میڈ کپڑوں کی کتر بیونت تو کر ہی لیتے ہیں۔ ہاں البتہ آپریشن کرتے ہوئے سوئی دھاگے سے کھیلتے ہوئے ہم امی کو بار بار یاد کرتے ہیں کہ اگر امی سرجن ہوتیں تو کیسی خوبصورت سلائی کرتیں؟

امی کی سنگر مشین آج بھی ہمارے پاس ہے۔ ہماری ہنرمند ماں کی محبت! اور اب نواسی ایک سلائی مشین خریدنا چاہتی ہے کہ اپنے کپڑوں کی کتر بیونت خود کرے۔

آواگون پہ ہمیں یقین تو نہیں مگر۔ ۔ ۔
سالگرہ مبارک، امی!

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: