حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہئے کہ مردم شماری کی منظوری اور نوٹیفکیشن میں غیرضروری تاخیر کے باعث آئینی بحران کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مردم شماری کے حتمی اعلان اور نوٹیفکیشن کے معاملات 31 مئی تک مکمل کرلئے جانے چاہئیں تھے تاکہ 15 ستمبر تک نئی حلقہ بندیوں اور اعتراضات کے امور مکمل ہوچکنے پر نومبر کے آخری ہفتے میں انتخابات ہوسکتے تھے
اس حساس آئینی معاملے کو نمٹانے کے عمل میں تاخیر کیوں برتی گئی اس کی جوابدہی بہرطور سابق حکومت کے ذمہ داران پر ہی ہے۔
الیکشن کمیشن آئینی طور پر اس امر کا پابند ہے کہ جونہی مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری ہو وہ پرانی حلقہ بندیاں منجمد کرکے نئی حلقہ بندیوں کےلئے کام شروع کردے۔ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انتخابات کا فیصلہ 2021ء میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں متفقہ طور پر کیا گیا تھا اس طور سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کا یہ کہنا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اپنے آخری دنوں میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے نئی حلقہ بندیوں پر انتخابی عمل کے انعقاد کا جو فیصلہ کرایا وہ بدنیتی پر مبنی ہے درست نہیں۔
مشترکہ مفادات کونسل کے حالیہ اجلاس میں آئینی طریقہ کار اور 2021ء میں منعقدہ اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں ہی فیصلہ کیا گیا۔ پچھلے 16 ماہ کے دوران ملک میں جس قسم کی سیاست کو پی ٹی آئی نے رواج دیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ انتخابی اصلاحات اور دوسرے معاملات پر باہمی مذاکرات کی پیشکش کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان جس حقارت کے ساتھ مسترد کرتے رہے اس سے آگے چل کر آئینی مسائل پیدا ہونے کے خطرات دوچند تھے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ خود ملک کی سب سے بڑی عدالت نے اپنے ہی دو جج صاحبان کی سفارش پر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس لینے اور پھر عدالتی سماعتوں کے دوران بھی اس اہم نکتہ کو نظرانداز کیا کہ 2023ء کے انتخابات نئی مردم شماری پر ہونا لازم ہیں۔
اس سوال کو بھی پس پشت ڈالے رکھا گیا کہ اگر 2 صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے اور بعدازاں قومی و دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر تو اس عمل کا قانونی جواز کیا ہوگا؟
مروجہ سیاست اور نظام کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آئینی امور اور ضرورتوں سے نابلد افراد ہر جگہ فائز ہیں ۔ دستور کے بنیادی تقاضوں پر ذاتی خواہشات اور مراسم کو ترجیح دینے کی سوچ نے ہی اس ملک میں جمہوری اقدار کو پنپنے دیا نہ ہی نظام میں کوئی استحکام دیکھنے میں آیا۔
گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر کی چیف جسٹس آف پاکستان سے ہوئی طویل ملاقات کے حوالے سے جو خبریں سامنے آئیں ان میں بتایا گیاکہ چیف جسٹس کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ حلقہ بندیاں، اعتراضات اور دوسرے مراحل لگ بھگ 9 دسمبر تک مکمل ہوں گے اور 14دسمبر کو نوٹیفکیشن جاری ہوسکے گا۔
اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ عام انتخابات 14 مارچ 2024ء تک ممکن ہیں۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ کی جانب سے چیف جسٹس کوبتائی گئی اس تفصیل سے یہ امر واضح ہوگیا کہ عام انتخابات 90 دن میں ممکن نہیں۔
یہاں یہ امر ذہن نشین رکھنا ہوگاکہ اس معاملے میں نگران وفاقی کابینہ کوئی فیصلہ کرنے سے اس لئے قاصر ہوگی کہ یہ اس کے دائرہ اختیار میں نہیں۔ نئی حلقہ بندیوں، اعتراضات، دیگر امور اور حتمی نوٹیفکیشن کا جو شیڈول الیکشن کمیشن نے دیا ہے اسے نظرانداز کرنا یقیناً مشکل ہوگا۔ البتہ الیکشن کمیشن کے ذرائع کے حوالے سے بعض معاصر اخبارات میں بتایاگیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کہے تو حلقہ بندیاں روک کر انتخابات کراسکتے ہیں۔
یہ خبر اگر درست ہے تو اس سے صورتحال مزید واضح ہوجاتی ہے کیونکہ الیکشن کمیشن ازخود حلقہ بندیوں کے عمل کو منجمد کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا سپریم کورٹ حلقہ بندیوں کے عمل کو منجمد کرکے گزشتہ حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا حکم دے سکتی ہے؟
قانونی ماہرین کی اس ضمن میں دو آراء ہیں ایک حلقہ کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے پر حکم امتناعی یا اسے منسوخ کرنے کا فیصلہ نہیں دے سکتی کسی قانون کی تشریح الگ معاملہ ہے آئینی اداروں کے فیصلوں پر عدالتی قدغن سے نہ صرف بحران سنگین ہوگا بلکہ فیڈریشن اور اکائیوں (صوبوں) کے درمیان بداعتمادی پیدا ہوگی۔
دوسری جانب ہر مرض کی دوا عدالتوں سے لینے کے خواہش مندوں کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ حلقہ بندیاں روک سکتی ہے۔ کیسے کیا سپریم کورٹ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کو معطل کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟
ہماری دانست میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلہ پر کونسل کے علاوہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ہی نظرثانی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ اپنایا گیا کوئی بھی طریقہ کار آئین سے ماورا ہوگا۔ اس طور ایک ایسے وقت میں جب بعض عدالتی فیصلوں کی بدولت ملک کی سب سے بڑی عدالت میں داخلی تقسیم صاف عیاں ہو کسی مخصوص بنچ کے ذریعے کوئی فیصلہ مناسب ہوگا یا مسائل پیدا ہوں گے؟
اس پر غور کرلیا جانا چاہیے۔ اس امر پر دو آراء نہیں کہ حال ہی میں رخصت ہونے والی حکومت نے مردم شماری کی منظوری اور نوٹیفکیشن کے اجراء میں غیرضروری تاخیر کی سوال یہ ہے کہ کیا اس تاخیر کو جواز بناکر حلقہ بندیوں کے آئینی عمل کو روکا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے کسی بھی ادارے اور عدالت کو بہت سوچ سمجھ کر رائے اور فیصلہ دینا چاہیے اور یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت پارلیمان بھی نامکمل ہے۔
قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی سینیٹ گو موجود ہے لیکن محض سینیٹ میں وہ فیصلے نہیں کئے جاسکتے جن کے لئے پارلیمان کے مشترکہ ایوان کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کو بھی اپنی جذباتی سیاست اور من پسند فیصلوں کے حصول کی خواہشوں سے کچھ وقت نکال کر اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر گزشتہ 16 ماہ کے دوران اس کی قیادت نے آئینی مسائل اور انتخابی اصلاحات کے ساتھ دیگر امور پر حکومت سے مذاکرات کا راستہ اپنایا ہوتا تو یہ بحرانی صورت ہرگز پیدا نہ ہوتی۔
ہم مکرر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ نگران حکومت کے پاس پالیسی سازی کے اختیارات نہیں اسی طرح کسی ادارے کو مشترکہ مفادات کونسل اور پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان کے اختیارات استعمال کرنے کا شوق پورا کرکے مسائل پیدا کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔
سیاستدانوں کی غلطیوں یا منصوبے کے تحت کئے گئے اقدام ہر دو کا بوجھ آئین پر نہیں پڑنا چاہیے۔معاملات آئینی طریقہ کار کے مطابق ہی آگے بڑھانا ہوں گے تاکہ کسی قسم کی ابتری پیدا نہ ہونے پائے۔
یہ امر اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ انتخابی عمل کے التواء سے مسائل پیدا ہوں گے فی الوقت غور طلب بات یہ ہے کہ کیا نئی حلقہ بندیوں کے عمل کو روک کر انتخابات کرانے کی طرف جانے سے آئینی بحران تو پیدا نہیں ہوگا۔
ثانیاً یہ کہ کیا نگران دور میں پالیسی سازی آئین کی روح سے متصادم تو نہیں ہوگی۔ ان امور میں جو بھی ہو آئین سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر