حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز کے کالم ’’فرقہ واریت کم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی‘‘ پر بعض اہلِ درد نے اپنی رائے سے نوازتے ہوئے تحریر کو بروقت و درست قرار دیا۔ چند احباب نے کہا ’’اس کی ضرورت نہیں تھی، توہین کے قانون میں ترمیم کا جو بل منظور ہوا وہ درست ہے۔ ایک اسلامی ملک میں مقدس شخصیات کی توہین نہیں ہونی چاہیے‘‘۔ طالب علم کے لئے دونوں آراء سر آنکھوں پر، میری طرح ہر شخص کو اپنی رائے بنانے اور اس کے اظہار کا حق ہے۔
البتہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم کس سمت ہانکے جارہے ہیں اور کیا اس ملک میں باقی سارے کام ہوگئے۔
بیروزگاری، غربت، مہنگائی کا خاتمہ ہوگیا۔ عدالتوں میں انصاف ملنے لگا۔ ریڈر نے اگلی پیشی دینے کا نذرانہ لینا چھوڑدیا۔ تھانوں میں دادرسی کے لئے آنے والے شہریوں سے توتڑاخ سے بات کرنا ترک کردیا گیا ۔ ملاوٹ شدہ سامان ملاوٹ کرنے والوں نے خود کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا؟
نہیں نا سب کچھ جوں کا توں ہی ہے۔ اچھا ساعت بھر کے لئے رکئے ذرا صفائی نصف ایمان ہے والی حدیث مبارکہ پر روح کی سرشاری کے ساتھ عمل کے مظاہروں کا ایک طائرانہ جائزہ تو لیجئے کسی دن۔
ہم کچھ دیر کے لئے پچھلی کی آخری دہائی میں چلتے ہیں پیپلزپارٹی کے 1993ء سے 1997ء والے دور میں جب پنجاب میں صوبائی اتحاد بین المسلمین امن کمیٹی کے سربراہ اس وقت کے صوبائی وزیر رانا اکرام ربانی تھے۔ ان کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا
اس صوبائی امن کمیٹی کے ایک اجلاس میں ایک فرقہ پرست تنظیم کی جانب سے پیش کی گئی متنازعہ کتب کی فہرست پر پابندی لگانے کی تجویز پیش ہوئی اور چند منٹوں میں یہ تجویز منظور کرلی گئی۔ اس پابندی کی زد میں امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے خطبات و اقوال اور خطوط پر مشتمل سید محمد رضیؒ کی مرتب شدہ کتاب ” نہج البلاغہ‘‘ بھی آگئی۔
پنجاب امن کمیٹی کے چند ارکان نے اجلاس دوبارہ بلانے کی درخواست دی۔ یہ اجلاس دوبارہ ہوا نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ پر پابندی ختم کردی گئی لیکن پابندی کے چند دنوں میں پولیس نے مذہبی مخبروں کے کہنے پر جو ستم ڈھائے وہ اب تاریخ کا حصہ ہیں۔
اس اتحاد بین المسلمین امن کمیٹی کے دوبارہ اجلاس سے قبل صوبائی وزیر رانا اکرام ربانی نے جن چند دوستوں اور احباب کو صلاح مشورے کے لئے اپنی قیام گاہ پر دعوت دی ان میں یہ تحریر نویس بھی شامل تھا۔ میں نے رانا اکرام ربانی سے پوچھا آپ نے صرف مولوی اعظم طارق کی پیش کردہ فہرست کتب پر آنکھیں بند کرکے پابندی کی منظوری کیوں دیدی جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ آپ صوفی سنیوں (بریلویوں) اور اہل تشیع کے نمائندوں سے بھی رائے لیتے لیکن وہ تو ہنگامی اجلاس میں موجود ہی نہیں تھے۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہنگامی اجلاس بلوانے کے پیچھے سازش کارفرما تھی۔
صوبائی حکومت کا امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی کتاب اور امام زین العابدینؑ کی دعائوں کے مجموعہ ’’صحیفہ کاملہ‘‘ پر پابندی کے مثبت نہیں منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ میری اور دوسرے احباب (ان میں ایک دو قانون دان تھے دو مولوی صاحب اور چند دیگر) کی باتیں سن کر رانا اکرام ربانی بولے، وہ لوگ ( مولانا اعظم طارق اور اس کے حامی) یہ کہہ رہے تھے کہ دونوں کتابیں چار ساڑھے چار سو سال بعد مرتب ہوئی ہیں ان کا حضرت علیؑ اور حضرت زین العابدینؑ سے کوئی تعلق نہیں۔
میں نے عرض کیا اگر صدیوں بعد مرتب کی گئی کتب پر اس اعتراض کو درست مان لیا جائے تو پھر صرف قرآن مجید ہی رہ جائے گا مسلمانوں کے پاس باقی ساری مقدس کہلاتی کتب اسی اصول کی بنیاد پر پابندی کی زد میں آجائیں گی۔
اس ملاقات اور تبادلہ خیال کا فائدہ یہ ہوا کہ رانا اکرام ربانی کو ایک تو کئی سوالات کے جواب مل گئے نیز انہوں نے یہ اعتراف بھی کیاکہ مذہبی اور بالخصوص مکتب امامت اور مکتب خلافت کی تاریخ سے عدم آگاہی کے نتیجے میں، میں اجلاس میں کتب پر پابندی کی تجویز پیش کرنے اور اس کے حق میں دلائل دینے والوں کے موقف کو درست سمجھ بیٹھا تھا
رانا صاحب نے بریلوی (صوفی سنی) اور شیعہ ارکان کی درخواست پر کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلایا۔ تب اس اجلاس میں ان کی دعوت پر یہ تحریر نویس، سید جرار حسین زیدی ایڈووکیٹ ( زیدی صاحب بعدازاں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوگئے ) اور علامہ مفتی غلام سرور قادری مرحوم خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
اجلاس خاصا ہنگامہ خیز ثابت ہوا۔ لمبی بحث ہوئی اور بالآخر فوری طور پر نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ پر پابندی اٹھالی گئی یہ الگ بات ہے کہ پابندی کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری ہونے میں کچھ وقت لگ گیا جس کا مولوی اعظم طارق اور ان کے ہمدردوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔
اس اجلاس میں ایک دلچسپ بات یہ ہوئی کہ پابندی گروپ نے چند کتب کی تحریروں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے انہیں سواد اعظم کے نظریہ سے متصادم قرار دیا جس پر علامہ مفتی غلام سرور قادری کا موقف تھا کہ سواد اعظم اہلسنت اپنا موقف خود پیش کرلیں گے۔ پابندی گروپ صرف انجمن سپاہ صحابہ کا موقف بیان کرے۔
اس پر بہت شور ہوا بعدازاں میں نے اجلاس میں دو باتیں عرض کیں اولاً یہ کہ بجائے اس کے فہرست میں شامل 30سے زائد کتابوں پر پابندی لگادی جائے کیوں نہ ایک کمیٹی بناکر ان کے کتابوں کی ماخذ کتب کا ازسرنو جائزہ لے لیں علماء اور دانشور تاکہ سارا فساد ہی ختم ہوجائے۔
دوسری بات یہ عرض کی کہ خلیفہ دوئم حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں صحابہ کرام رضوان اللہ (مردوخواتین دونوں) کے مقرر کردہ وظائف کی درجہ بندی کو بھی دیکھ لیا جانا چاہیے۔
یہ بھی عرض کیا کہ بات بات پر ایک دوسرے کو رگیدتے چلے جانے کاکوئی فائدہ نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ تاریخی و مذہبی کتب میں موجود مواد پر مکالمہ تو غلط نہیں لیکن اس کی بنیاد پر تکفیر سوفیصد غلط ہے کیونکہ نفرت اور تکفیر دو ایسی چیزیں ہیں جو آگے سفر کرنے کے ساتھ ماضی میں بھی مار کرتی ہیں۔
پنجاب کی یہ اتحاد بین المسلمین امن کمیٹی صوبے میں سماجی یکجہتی اور قانون کی حاکمیت کو یقینی بنانے کا ایجنڈا رکھتی ہے۔ مختلف مسالک کی معروف و غیرمعروف کتب پر کسی بھی وجہ سے پابندی کا اختیار اس کے پاس نہیں اس کام کے لئے پریس لا برانچ کا سیکشن موجود ہے۔
سال 1994ء کے واقعہ کی تفصیلی روداد یادوں کی زنبیل سے جھاڑ پونچھ کر پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اختلافی آراء مسلم تاریخ اور شخصیات بارے کل نہیں گھڑی گئیں یہ تاریخ اور مذہبی کتب میں پہلے دن سے موجود ہیں۔
کچھ لوگ انہیں گھڑی ہوئی باتیں بھی کہتے ہیں۔ کچھ کے خیال میں یہ ہیں تو درست لیکن چودہ سو سال بعد ان پر بحث اٹھانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ تاریخ میں جو لکھا ہے اس سے آنکھیں چرانے کی ضرورت نہیں البتہ مکالمے کو مناظرہ اور ملاکھڑہ بنانے تکفیر کا کاروبار کرنے اور سر تن سے جدا کے نعرے لگانے کی ضرورت نہیں۔
تاریخ کو عقیدہ کا درجہ نہ دیا جائے۔ احترام اور اختلاف میں بھی شائستگی و رواداری لازم ہے۔
نصف صدی کے مطالعے کے بعد مجھ سا طالب علم تو اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ مسلم سماج میں سب سے زیادہ نفرتیں دینی مدارس کے نصاب نے پھیلائیں رہی سہی کسر مناظرہ بازوں نے پوری کردی۔
گزشتہ کالم میں توہین والے ترمیمی بل کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے عجلت میں منظوری پر بات کی تھی اب بھی یہی رائے ہے کہ 24 کے قریب ارکان قومی اسمبلی اور تقریباً اتنے ہی یا ان سے کم ارکان سینیٹ کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ دیکھے پڑھے سمجھے بغیر قانون سازی کے گھوڑے دوڑانا شروع کردیں۔ صد شکر ہے کہ تحریر نویس نے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ مذہب اور عقیدہ فرد کا نجی معاملہ ہے ریاست کا فرض فرد کے نجی حقوق کی حفاظت کرنا ہے ۔
نظام حکومت سیکولر بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے تاکہ ریاست کسی بھی معاملے میں فریق نہ بن پائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر