مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وی لاگ کی کہانی۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے دو ماہ سے ویڈیو بلاگ (وی لاگ )کا تجربہ کر رہا ہوں۔ پہلے روزانہ اور چند ہفتوں سے روزانہ دو وی لاگ بھی کرتا رہا ہوں۔
ریسپانس اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ سبسکرائب کرنے والے بڑھ رہے ہیں، واچ آورز بھی بڑھتے جارہے ہیں، یعنی اگر چند سو لوگ دیکھ رہے ہیں تو وہ ویڈیوز مکمل دیکھتے ہیں۔ ماشااللہ سے روزانہ کی بنیاد پر سبسکرائبر بھی بڑھ رہے ہیں۔
یہ سب اچھے اشاریے ہیں۔
البتہ مجھے بسا اوقات ویوز سے مایوسی ہوتی ہے۔ تجربہ کار دوست اور ماہرین البتہ حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ابتدا میں ہر ایک کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ چار چھ ماہ بعد جا کر درست اندازہ ہوپاتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یوٹیوب ابتدا میں ویڈیوز کو صرف چند سو یا ہزار دو لوگوں کے سامنے ہی شو کرتا ہے۔ ظاہر ہے جب کم لوگ دیکھیں گے تو ویڈیو کے ویوز بھی کم آئیں گے۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوٹیوب سرچ میں ویڈیوز ڈالنا شروع کردیتا ہے یوں وہ زیادہ لوگوں کو شو ہوتی ہے اور اس کے نتیجے میں سبسکرائبرز بڑھتے ہیں اور ویوز بھی۔
خیر یہ وقت بھی ان شااللہ گزر ہی جائے گا۔ میں نے عہد کیا ہے کہ بغیر ادھر ادھر دیکھے اگلے چھ ماہ تک کم از کم ہفتے میں دس ویڈیوز دینا ہیں۔ یعنی مہینے میں چالیس۔ جب ڈھائی تین سو مزید ویڈیوز بن جائیں گی تو ان شااللہ چیزیں خاصی بہتر ہوجائیں گی۔
سب لوگ یہ کہہ رہے ہیں اور اللہ نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا کہ ایک ہزار سبسکرائبر سے چلنے والا سفر اب ساڑھے تین ہزار تک پہنچ گیا ہے۔ ان شااللہ یہ بڑھ کر چار اور پانچ اور پھر دس ہزار ہوں گے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ رفتار تیز ہوجاتی ہے، دس سے بیس ، تیس اور پھر مزید اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ جب سبسکرائبرز کی تعداد میں معقول اضافہ ہوجائے تو ویوز بھی مسئلہ نہیں رہتے اور نہ واچ آورز۔
البتہ مجھے یہ قلق ضرور ہے کہ فیس بکی دوستوں اور احباب نے اس حوالے سے تعاون نہیں کیا۔ جن لوگوں کی خاطر میں نے اپنی زندگی کے ہزاروں بلکہ لاکھوں گھنٹے ضائع کئے، بغیر کسی صلے کے۔ جب ان کی ضرورت پڑی تو ان میں سے ننانوے فیصد لوگوں نے معمولی سی زحمت ہی نہیں کی۔
یہ کوئی دلیل نہیں کہ ہم وی لاگ نہیں دیکھتے۔ کیا یہ سب پچاس پچپن ہزار لوگ گونگے بہرے ہیں، ان کے کان کام نہیں کرتے، نظر کمزور ہے یا ویڈیو بلاگ دیکھنا ان کے لئے ممنوع اور حرام قرار دیا گیا ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔
وجہ وہی ہے بے حسی، بے پروائی ۔
خیر مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان شااللہ ہم اپنی آڈینس یوٹیوب ہی سے بنا لیں گے۔ وہاں ویڈیوز وائرل ہونے پر لاکھوں، ملینز میں ویوز دے جاتی ہیں جبکہ فیس بک پر کسی کا حلقہ اتنا وسیع نہیں۔
مجھے ہر سبسکرائب کرنے والا کا نام ای میل ہوتا ہے، یوٹیوب کی سیٹنگ ایسی رکھی ہے۔ کمنٹس کرنے والوں کو تو خیر دیکھتا ہی رہتا ہوں۔ جب فیس بک کے جانے پہچانے لوگ نظر آتے ہیں تو اچھا لگتا ہے، دل میں ان کی عزت اور محبت بڑھتی ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ یاد رہیں گے ، جو اس ابتدائی مشکل وقت میں میرے ساتھ رہے، حوصلہ افزائی کی اور مثبت بھرپور فیڈبیک دیا۔ جو لوگ بے نیاز اور بے حس رہے، وہ بھی اچھی طرح یاد رہیں گے۔
یہی بات واٹس ایپ گروپس کی ہے۔ چار پانچ ہزار لوگ واٹس ایپ پر جڑے ہوئے ہیں۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ میں تازہ ترین صورتحال پر اپنا تبصرہ لکھ کر گروپ میں ڈالوں، ان کے سوالات کا جواب دوں، سب کام چھوڑ کر گھنٹوں ان کے ساتھ چیٹ کروں ، انہیں ان سائیڈ آف دی ریکارڈ خبریں فراہم کروں۔
جبکہ ان میں سے ایک فی صد لوگوں نے بھی کبھی یوٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے یا وی لاگ دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔
اٹس اوکے۔ یہ زندگی ہے ، یہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے۔ اسی سے سیکھنا پڑتا ہے اور اسی کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔
بہرحال اس قسم کے رویوں نے الحمداللہ زیادہ مضبوط بنایا اور زیادہ استقامت پیدا کی ہے۔ اب یہ ارادہ مضبوط ہوا ہے کہ مزید محنت کی جائے، سیاست سے ہٹ کر دیگر موضوعات پر بھی ویڈیوز بنائی جائیں اور پھر یوٹیوب کی ریگولر آڈینس ہی سے اپنی آڈینس بنائی جائے ۔
رب کریم سے پوری امید اور دعا ہے ہے کہ وہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کی طرح ڈیجیٹل میڈیا میں بھی پزیرائی بخشیں ، کامیاب کریں ، آمین ۔

۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: