حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لگ بھگ سال بھر سے بالعموم اور سپریم کورٹ میں سی سی پی او (اس وقت کے) لاہور کی درخواست کی سماعت کرنے والے 2رکنی بنچ کی سفارش پر لئے گئے پنجاب و خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے ازخود نوٹس کےبعد ان سطور میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کرتا آرہا ہوں کہ فریقین کے ساتھ عدالت بھی جس اہم نکتہ کو نظرانداز کررہی ہے وہ ہے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق 2023ء کے انتخابات کا نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر انعقاد۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رُکئے ۔ ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیجئے۔ 2017ء کی مردم شماری متنازعہ ہوگئی تھی سب سے زیادہ قانونی اعتراض سندھ حکومت کے تھے ان اعتراضات پر 15فیصد بلاکس میں دوبارہ مردم شماری کی تجویز دی گئی بیل منڈھے نہ چڑھ پائی
2018ء کے انتخابات میں سندھ اور بلوچستان مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر اپنے تحفظات کے ساتھ گئے۔ 2013ء سے 2018ء کے درمیان خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ رہنے والے پرویز خٹک نے بھی اسمبلی اور حکومت کی آئینی مدت کے اختتام سے قبل مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنا وزن سندھ اور بلوچستان کے پلڑے میں ڈال دیا یوں ایک صوبہ ایک طرف اور تین صوبے دوسری طرف تھے۔
2018ء میں تحریک انصاف کو اقتدار میں لایا گیا بعدازاں مشترکہ مفادات کونسل نے متفقہ فیصلہ کیا کہ آئندہ انتخابات (2023ء) نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے جب دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے از خود نوٹس لیا تو عرض کیا، دونوں اسمبلیاں قبل از وقت تحلیل کی گئی ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کی سمری میں موجود قانونی سقم کو ابتداء میں دیکھ لیا جائے۔
قانونی سقم یہ تھا کہ ” کیا اسمبلی کسی پیشگی معاہدہ کے تحت تحلیل کرنے سے آئینی تقاضے پورے ہوتے ہیں؟ ” دوسرا نکتہ یہ اٹھایا تھا کہ اگر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 5 سالہ آئینی مدت کے لئے ہونے ہیں تو پھر ان پر مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کا اطلاق ہوگا۔
باقی ماندہ مدت کے لئے دوبارہ انتخابات کے لئے اسمبلی کی تحلیل کے آئینی عمل میں خاموشی ہے۔ افسوس کہ نہ تو فریقین نے ان نکات کو مدنظر رکھا نہ ہی ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جبکہ میں مسلسل عرض کرتا رہا کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت دستور و قانون کے مطابق معاملات کو دیکھنے کی بجائے سہولت کاری کے جس راستے پر تیزی سے دوڑ رہی ہے اس سے آئینی بحران جنم لینے کا اندیشہ ہے۔
باردیگر عرض کردوں 2023ء کے انتخابات کو ہر صورت مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کے مطابق نئی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر ہی ہونا ہے۔ اس سے سوا راستہ اختیار کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے۔ حکومت الیکشن کمیشن یا کوئی عدالت مشترکہ مفادات کونسل کے آئینی فیصلے کو نظرانداز نہیں کرسکتے۔
ان سطور میں مئی اور جون کے مہینوں میں پھر سے صورتحال پر متوجہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ چونکہ31مئی تک مردم شماری کے نتائج کا حتمی نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا اس لئے نئی حلقہ بندیاں شروع نہیں ہوپائیں۔
حکومت کے پاس اب دو ہی راستے ہیں اولاً یہ کہ آئینی ترمیم لائے تاکہ انتخابات مقررہ وقت پر پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر منعقد ہوں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ حکومت اسمبلیوں کی مدت 6ماہ آگے لے جائے اس طرح حلقہ بندیوں کے لئے چار سے ساڑھے چار ماہ کا وقت مل جائے گا۔
پہلے کام یعنی آئینی ترمیم کے راستہ میں خود اسمبلی کی عددی پوزیشن حائل ہے۔ قومی اسمبلی کے مستعفی ارکان میں سے زیادہ تر کے معاملے غیرآئینی اور غیر قانونی طور پر عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔
ضمنی انتخابات کے خلاف حکم امتناعیوں کی بھی بھرمار ہے۔ دوسرے راستے پر عمل کی صورت میں مردم شماری کا نوٹیفکیشن جاری کرکے حلقہ بندیوں کا عمل شروع بھی کیا جائے تو یہ کام بجٹ کے بعد شروع ہوگا۔
مثال کے طور پر اگر بہت جلد بھی شروع ہوتا تو 15جولائی سے قبل ممکن نہیں تھا 15جولائی سے حلقہ بندیوں کے آغاز کا مطلب یہ ہوتا کہ یہ کام تقریباً 15 نومبر تک مکمل ہوتا اس کے بعد 90دن میں الیکشن کرانے ہوتے یہ فروری میں ہوتے 60دن کی صورت میں جنوری میں۔
سیاسیات و صحافت کے طالب علم کے طور پر میرا تجزیہ یہی تھا (جو ان سطور میں قبل ازیں عرض بھی کیا) کہ عام انتخابات 25فروری سے 10مارچ کے درمیان ہی ممکن ہیں یعنی معاملہ 6ماہ آگے لے جانے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہوگی۔
یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ کیا اسمبلی کی مدت میں اضافے کے لئے محض ایک قرارداد کافی ہوگی یا قانون سازی کی ضرورت پڑے گی۔
پچھلے مہینہ بھر سے حکمران اتحاد کی بڑی جماعت (ن) لیگ کے اہم وزراء ملی جلی باتیں کرتے دیکھائی دیئے۔ کچھ وزراء کہتے تھے انتخابات پرانی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ کچھ کے خیال میں ابھی چونکہ فیصلہ نہیں ہوا اس لئے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اس موضوع پر سب سے زیادہ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک دوسرے وفاقی وزیر احسن اقبال نے بات کی تبھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ احسن اقبال مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل اور رانا ثناء اللہ صوبائی صدر ایک عامل صحافی کی حیثیت سے ان کے بیانات کو، بس بیانات سمجھنا کم از کم میرے لئے بہت مشکل ہے۔
بار بار یہ سوال ان سطور میں پڑھنے والوں کے سامنے رکھتا آرہا ہوں کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے (انتخابات کے حوالے سے ) کے برعکس جانے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت پڑے گی۔ آئین دو تہائی کی اکثریت سے آئینی ترمیم کی گنجائش دیتا ہے۔ میرے بعض پڑھنے والے اور کچھ صحافی دوست سال سوا سال سے میری اس رائے سے اختلاف کررہے ہیں
کہ تحریک انصاف جس کے دور اقتدار میں مشترکہ مفادات کونسل کا متفقہ فیصلہ ہوا وہ بھی فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے بدنیتی کا شکار تھی۔ دیگر وجوہات کے ساتھ قومی اسمبلی سے اس کے ارکان کے مستعفی ہونے کو بدنیت پروگرام کا ہی حصہ سمجھتا ہوں۔
یہ سطو لکھتے وقت میرے سامنے وزیراعظم کے دو حالیہ بیانات ہیں وزیراعظم کہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں پر ہوں گے۔ کیسے کیا قانون سازی کی جائے گی۔ یا پھر اسمبلی کی مدت بڑھالی جائے گی۔ کوئی تیسرا راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو وہ کیا ہوگا یا ہوسکتا ہے؟
مجھے ایسا لگتا ہے کہ اسمبلیاں اگر 9اور 10اگست کی درمیانی شب تحلیل بھی کردی جاتی ہیں تو انتخابات نومبر میں نہیں ہوسکیں گے۔ ایک صورت ہوسکتی ہے حکومت کے خاتمے کے بعد صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پرانی مردم شماری و حلقہ بندیوں پر انتخابات کرانے کا اعلان کیا جائے۔
صدارتی آرڈیننس کی مدت 90دن ہوتی ہے۔ تین ماہ میں انتخابی عمل مکمل کراکے نئی اسمبلی آرڈیننس کو قانون کی شکل دے دے لیکن غالب امکان یہی ہے کہ معاملہ نئی حلقہ بندیوں کی طرف جائے گا اس کی مختلف وجوہات ہیں۔
اہم ترین مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ ہے۔ ایسا ہوتا ہے تو پھر لگ بھگ 15دسمبر تک حلقہ بندیاں ہوں گی۔ 90دن میں انتخابات کا مطلب 15مارچ کو انتخابات یا پھر وہی تاریخ جو بالائی سطور میں عرض کی کہ 25فروری سے 10 مارچ کے درمیان قومی انتخابات کا انعقاد۔
مارچ میں سینیٹ آف پاکستان کے نصف ارکان سبکدوش ہوجائیں گے انتہائی ضروری ہے کہ اس سے پہلے سینیٹ ارکان کے چنائو کا الیکٹوریل کالج صوبائی اسمبلیاں منتخب ہوچکی ہوں ورنہ آئینی بحران پیدا ہوگا۔
مکرر آپ کی خدمت میں یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ اگر نئی حلقہ بندیوں پر انتخابات ہونے ہیں تو یہ فروری مارچ 2024ء میں ممکن ہیں۔ پرانی حلقہ بندیوں پر نومبر میں ہوسکتے ہیں لیکن اگر فروری مارچ 2024ء میں انتخابات کسی بھی وجہ سے نہیں ہوپاتے تو پھر یہ کم از کم دو سال ہوتے دیکھائی نہیں دیتے۔
حرف آخر یہ ہے کہ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جانا چاہیے جو آئین سے انحراف کے زمرے میں آتا ہوں (یہ الگ بات ہے کہ اس ملک میں آئین سب سے بے بس و لاچار چیز ہے) سیاسی جماعتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کریں ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے دستور گریز قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے اور انتخابی عمل ایک خواب بن کر رہ جائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر