اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی اور منشیات؟۔۔۔||جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے صحافی اور سماجی رہنما ہیں، وہ مختلف موضوعات پر مختلف اشاعتی اداروں میں لکھتے رہتے ہیں انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

جام ایم ڈی گانگا

03006707148

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر میجر ریٹائرڈ اعجاز شاہ سے دس گرام آئس، جنسی ادویات اور دو عدد موبائل فون سے یونیورسٹی طالبات اور دیگر کی سینکڑوں نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں. اس واقعہ کی ایف آئی آر نمبر 1132/23تھانہ بغدادالجدید بہاول پور میں درج کر لی گئی ہے.
محترم قارئین کرام،، یہ ایک چھوٹی مگر بہت بڑی خبر ہے.اس سے قبل گزشتہ ماہ ڈائریکٹر فنانس ابوبکر بھی آئس سمیت گرفتار ہوئے تھے.یقینا ان خبروں سے یونیورسٹی سے متعلقہ افراد بالخصوص طلبہ و طالبات کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے. یقینا ہمارے تعلیمی اداروں کالجز،میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیز وغیرہ میں بے راہروی اور منشیات کا استعمال خاصا بڑھ چکا ہے.جہاں منشیات فروش مافیاز کا نیٹ ورک ان کے اداروں کے اندر اور باہر بلاخوف و خطر چلنے اور پھلنے پھولنے لگا ہے. وہاں مختلف شکلوں میں جنسی درندوں کی موجودگی بھی خارج از امکان نہیں ہیں. مذکورہ بالا واقعات اس حقیقت کا ثبوت ہیں. انہیں دیگ کے ایک دو چاول ہی کہا جا سکتا ہے.اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اس دھندے میں بہت سارے لوگ ملوث ہیں جو باقاعدہ جال پھیلا کر مختلف طریقوں سے شکار کو قابو کرتے ہیں پھر بلیک میلنگ کا ایک سلسلہ بھی اس کے ساتھ ساتھ ساتھ شروع ہو جاتا ہے. یقینا ایسے حالات والدین کے لیے انتہائی تشویشناک ہوتے ہیں. اداروں کے سربراہوں اور انتظامیہ کو چاہئیے کہ وہ ایسے عناصر اور گروہوں کو ٹریس کرکے کڑی سزائیں دیں ایسے لوگوں کو اداروں سے دور رکھیں. ایسے بد بخت طلبہ و طالبات کا مستقبل بنانے والے نہیں بلکہ تباہ کرنے والے ہوتے ہیں. جس کسی نے بھی یہ مطالبہ کیا ہے ہم اس کی تائید کرتے ہیں کہ یونیورسٹی کے تمام ملازمین کا منشیات ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ پتہ چل سکے کون کون منشیات کی علت کا شکار ہے. ساتھ ساتھ ان کے میل جول اور کردار کا بھی ایجنیسوں کے ذریعے جائزہ لیا اور پڑتال کروائی جائے. گند کی صفائی کے لیے یقینا یہ سب کچھ ضروری ہے.
سنا جا رہا ہے کہ چیف سیکیورٹی آفیسر اعجاز شاہ باخبر قسم کے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کی ناک کے عین نیچے یونیورسٹی کے فارم ہاؤس میں بھی کافی گُل کھلاتا رہا ہے. والدین کے دھیمے شور و احتجاج اور شوں بُوں کے باوجود وائس چانسلر کی مسلسل خاموشی کو کیا نام دیا جائے.انہیں نااہل کہا جائے یا شریکِ جرم سمجھا جائے.ہم سمجھتے ہیں ڈاکٹر اطہر محبوب اچھی شخصیت کے مالک ہیں مگر انہیں اپنے کردار اور ذمہ داریوں کے حوالے سے وضاحت ضرور پیش کرنی ہوگی.وہ یونیورسٹی کے اندر ہونے والے اس قسم کے گھناؤنے جرائم سے متعلق بے خبر کیسے رہے.اکٹھے بیٹھنے والے طلبہ و طالبات جن کی سیکیورٹی کے ملازمین ویڈیو بنا لیتے تھے ان کی پیشیاں بھی اسی فارم ہاؤس میں ہوتی تھیں جہاں پر اعجاز شاہ رہائش رکھتا ہے. لڑکے سے تحریری معافی نامہ لکھوا کر اور پیسے لیکر چھوڑ دیا جاتا جبکہ لڑکی کے ساتھ وہ سب کچھ کیا جاتا جوکہ جنسی بھیڑیے کرتے ہیں. ان سمیت دیگر الزامات کی گہرائی کے ساتھ تحقیقات ہونی چاہئیے. ان متاثرہ طالبات اور ان کے والدین کو بھی اعتماد میں لے کر رازداری کے ساتھ بلایا جائے تو پہلے زیادتیوں کا نشانہ بن چکے ہیں.
ہم ڈی پی او بہاول پور عباس شاہ اور تھانہ بغدادالجدید کے ایس ایچ او جنھوں نے مختلف قسم کے دباؤ کے باوجود گھناؤنے کردار کے حامل شخص کے خلاف ایف آئی آر لانچ کروائی. ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ عمل آئندہ کئی طلبہ و طالبات کی زندگیاں برباد ہونے سے بچانے کا سبب بنے گا.
محترم قارئین کرام،، یہ صرف بہاول پور کا مسئلہ نہیں ہے.اگر باریک بینی سے غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو یہ وبا صوبائی دار الحکومت لاہور سے شروع ہوئی تھی اس کی تاریخ بڑی تلخ اور طویل ہے. بڑے بڑے آفیسران سے لیکر وزیروں مشیروں تک آپ کو بہت ساری کہانیاں سننے کو ملیں گی. دلے اور خوشامدی لوگ کم و بیش ہر جگہ موجود ہوتے ہیں کوئی مانے یا نہ مانے پھر بڑے شہروں کی بڑی بات ہوتی ہے. فاطمہ جناح میڈیکل کالج و سر گنگا رام ہسپتال لاہور سے لیکر شیخ زاید ہسپتال رحیم یارخان تک جنسی ہراسگی ہو یا منشیات کے استعمال کا دھندہ ماضی میں کئی واقعات پیش چکے ہیں. ایچی سن کالج لاہور سے ڈیرہ غازی خان کالج تک کس کس کے حالات و واقعات یہاں پر درج کروں. مجھے اپنا ایف سی کالج لاہور کا دور و زمانہ یاد آ رہا ہے. جہاں پر اس وقت مکمل طور پر اسلامی جمیعت طلبہ کا راج تھا. کالج انتظامیہ کے علاوہ جمیعت کے بھائی بہت سارے معاملات کی دن و رات کے اوقات میں نگرانی کیا کرتے تھے. وہاں میں نے دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں کیا کیا دیکھا فی الوقت ان تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.بہرحال ایف سی کالج کا شمار لاہور کے اچھے اور بہترین کالجوں میں ہوتا تھا
بس ضرورت اس امر کی ہے کہ اس ضمن میں اعلی سطحی اقدامات کرکے ان اخلاقی و سماجی برائیوں کا خاتمے کرنے کی جانب آگے بڑھا جائے بصورت دیگر لوگ ان اداروں کو کنجر خانے کہنا نہ شروع کر دیں. ملوث کرداروں کے ساتھ کسی بھی قسم کی نرمی یا رعایت نہ کی جائے.

یہ بھی پڑھیے:

مئی کرپشن ہم کدھر جا رہے ہیں؟۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (1)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

شوگر ملز لاڈلی انڈسٹری (2)۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

پولیس از یور فرینڈ کا نعرہ اور زمینی حقائق۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

جام ایم ڈی گانگا کے مزید کالم پڑھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مضمون میں شائع مواد لکھاری کی اپنی رائے ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

%d bloggers like this: