مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اچھوت: دھرتی کے حقیقی سورما||خلیل کنبھار

ویرجی کولہی نے یہ کتاب لا کر بہت اچھا کام کیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ وہ اس مزاحمتی گوریلا جنگ کے باقی کرداروں پر بھی لکھے۔ تاریخ میں نہ کسی کا کھاتہ کھایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کا کھاتہ چھپایا جاتا ہے۔

خلیل کنبھار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویرجی کولہی نے کیا حسین کام کیا ہے۔

انہوں نے انگریزوں کی ننگر پارکر پر قبضہ گیری کے خلاف مزاحمت کرنے والے اچھوت سورما روپلو کولہی پر کتاب لکھی ہے اور وہ بھی اچھوت آنکھ سے۔ یہ کتاب پڑھ کر مجھے ایک بات یاد آئی کہ جب تک شیر نہیں بولے گا تب تک جنگل کی تاریخ شکاری بیان کرے گا۔ اس دھرتی کی تاریخ اب تک وہ تھی جو حملہ آوروں نے خود لکھی یا کسی درباری مورخ سے لکھوائی لیکن اب اس دھرتی کی تاریخ دھرتی واس، آدی واس اور پکھی واس لکھے گا۔ یہ تاریخ میں پہلا موقعہ ہے کہ جب ہم اپنے بارے میں بول رہے ہیں ورنہ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں نے بات کی ہے کہ ہم کون ہیں۔ اب ہم اچھوتوں اور شودروں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہمارا ہیرو کون ہے۔ ہمارا ہیرو راون ہے یا رام۔ حملہ آوروں نے نہ صرف ہماری دھرتی پر قبضہ کیا بلکہ ہمیں اچھوت قرار دے کر ہماری گردنوں میں مٹکے باندھ دیے کہ ہم زمین پر تھوک نہ سکیں۔ ہماری پیٹھ پر ڈھینگر باندھ دیے کہ زمین پر ہمارے پاوٴں کے نشان نہ بن سکیں۔ ہمارے اجداد ظلم کی وہ کالی رات کاٹ آئے لیکن اب ہمارے قدم انسانی برابری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ بڑھتے ہوئے قدم ہمارے پرکھوں کی جرآت مندانہ زندگی کا نتیجہ ہیں۔ ابھی ہمیں اور بھی لمبی مسافت طے کرنی ہے اور ثابت قدم رہنا ہے۔

زندہ قومیں اپنے سورماؤں کو یاد رکھتی ہیں۔ ہم نے کارونجھر جبل کو مورچہ بنا کر انگریزوں سے آٹھ سال تک گوریلا جنگ لڑنے والا عظیم روپلو کولہی کو نہیں بھلایا ورنہ بڑے بڑے سرمایہ داروں، سود خوروں اور جاگیرداروں کی قبریں گم ہو گئیں اور ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ روپلو کولہی ہم اچھوتوں کے دلوں پہ نقش ہو گیا۔ اس کی لاش کو گم کیا گیا، اس کی قبر گمنام بنائی گئی لیکن انگریز اس کا نام اور اس کی وطن کے لیے دی گئی قربانی کی حیثیت کم نہ کر سکا۔ اس لیے کہ اچھوت کی یاداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ اپنے سورماؤں کو کبھی نہیں بھلاتے۔ ہمارے ساتھ ساتھ ہمارے ہیروز کو بھی نیچا دکھانے کی کوشش کی گئی۔ یہ کوشش ان لوگوں نے کی جن کے آبا و اجداد کو دھرتی سے غداری کے عوض ہر حملہ آور نے سندیں، خلعتیں اور جاگیریں دیں۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہتے رہے کہ روپلو کولہی تو فقط سپاہی تھا اس کا سپہ سالار کون تھا۔ یہ ہم اچھوتوں کے ہیرو کی توہین تھی ہم روپلی کے سپہ سالاروں کی عظمت کو دل سے ماننے والے ہیں اور اپنے ہیرو کا بھی احترام چاہتے ہی۔ روپلو کولہی کارونجھر کا بیٹا تھا اور اس کے دفاع کی جنگ لڑ رہا تھا۔ ہم چاہتے ہیں کہ سندھ میں جیسے دوسرے ہیروز کو یاد کیا جاتا ہے روپلو کولہی اور اس کے ساتھیوں کی یادگار پر بھی سلامی دی جائے۔

روپلو کولہی کو انگریز نے گرفتار کرنے کے بعد دوسرے ساتھیوں کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے کے عوض جاگیریں اور انعامات کی لالچ دی لیکن روپلو کولہی نے انکار کیا۔ اس کی حاملہ بیوی کو گرفتار کر کے لایا گیا لیکن روپلو نے مخبری نہ کی۔ اس کی ہتھیلیوں میں تیل ڈالا گیا اور انگلیوں پر کپاس لپیٹ کر ان کو آگ لگائی گئی لیکن روپلو کچھ نہ بولا۔ وہ تمام ظلم و ستم سہ کر پھانسی چڑھ گیا لیکن وطن کے خلاف انگریزوں کی معاونت نہ کی۔ دھرتی کے اس عظیم اچھوت ہیرو نے اچھوتوں کی تاریخ پہ کوئی دھبا نہیں لگنے دیا۔ جبکہ اس زمانے میں اونچی ذات والوں نے اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے غداری کرتے ہوئے انگریز کی مدد کی اور ان سے جاگیریں اور دوسری مراعات لیں۔

وطن فقط باتوں اور دعووں سے اپنا نہیں ہوتا۔ اس کے ساتھ انتہائی مشکل حالات میں بھی ثابت قدم رہنا پڑتا ہے۔ سندھی زبان کی ایک کہاوت ہے۔

”لمحہ تل جتنا ہوتا ہے بہادر کے ہاتھ سے جاتا نہیں اور بزدل کے ہاتھ آتا نہیں“

Veerji Kohli

اس محفل میں ویرجی کولہی کا بزرگ باپ بھی بیٹھا ہوا ہے۔ میں جب بھی اس سے ملتا ہوں تو پاوٴں کو چھو کر ملتا ہوں۔ اس لیے کہ جب ہم نے ”کارونجھر بچاوٴ“ تحریک شروع کی تو ہمارے دوستوں ساگر خاص خیلی پریم سنگھ، ذوالفقار کھوسو، ڈیوجی میگھواڑ، مصطفی دل میر محمد دل اور تحریک کے سرون الھرکھیو کھوسو نے یہاں ایک پروگرام کیا تب یہ بزرگ نہ صرف اس میں شریک ہوا بلکہ اس نے اس پروگرام میں طنبورے پر گایا بھی تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ”کارونجھر امارو دیوتا چھے“ یعنی کارونجھر ہمارا دیوتا ہے۔ ”وہ اس وقت ہمارے ساتھ کھڑا تھا۔ اپنے کارونجھر کے ساتھ کھڑا تھا۔ جب بہت سے لوگوں کی زبانوں پر تالے لگے تھے تب اس کو دھرتی ماں نے کہا بولو اور وہ بولا۔ اس وقت اس کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کی بیٹی سینیٹر ہے اس کی سینیٹری چلی جائے گی۔ اس کا بیٹا وزیر اعلی کا صلاح کار ہے اس کی صلاح کاری چلی جائے گی۔ اس طرح ہم سب لوگوں کو دھرتی کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا۔ صرف باتوں سے تاریخ آپ کو اور ہم کو قبول نہیں کرے گی۔

ایک چرواہے کا وطن ہوتا ہے ایک بیوپاری کا وطن ہوتا ہے۔ چرواہا چاہتا ہے کہ روہیڑو کا درخت قائم رہے اور اس میں پھول کھلیں اور بیوپاری چاہتا ہے کہ اس روہیڑو کو کاٹوں اور اس کی لکڑی سے دروازہ اور کھڑکی بناؤں۔ دھرتی کا وارث چاہتا ہے کہ دھرتی کے پہاڑ سلامت رہیں۔ اس میں سے ندیاں اور چشمے بہیں۔ جنگلی حیات سلامت ہو اور بیوپاری سوچتا ہے کہ اس پہاڑ کو کاٹوں، اس سے قیمتی ٹائلز بناوٴں اور بیچوں۔ یہ چرواہے اور بیوپاری کی سوچ کی بات ہے۔ سو ہم بیوپاری نہیں، چرواہے ہیں۔ ہم کو لالچ اور خوف سے نکل کر اپنے وطن کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا ورنہ یہ بیوپاری ہمیں ڈرا دھمکا کر ہمارے پہاڑ ہمارے دریا اور ہماری دھرتی بیچ ڈالیں گے کیوں کہ بیوپاری کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔

سرعام کارونجھر کا پتھر ننگرپارکر میں بننے والے ڈیموں میں لگایا جا رہا ہے۔ ہاتھ کے کنگن کو آرسی کی ضرورت ہی نہیں کہ ڈیموں میں یہ پتھر دن دیہاڑے لگتا ہے۔ اس منسٹری سے اس وزارت سے کون پوچھے گا کہ ڈیموں میں کارونجھر کا پتھر کون سے قانون کے تحت لگایا جا رہا ہے۔ یہ کیا منطق ہے کہ جس پہاڑ کے پانی پر ڈیم بنا رہے ہو اسی پہاڑ کو کاٹ رہے ہو۔ دھرتی اور اس کے قدرتی وسائل بیچنے کی چیز تو نہیں ہیں۔ لکیر کے اس طرف 2002 میں زلزلہ کے وقت مودی آیا اس نے رن آف کچھ کو دیکھتے ہی کہا کہ یہاں تو ایک بڑا پکنک پوائنٹ بن سکتا ہے۔ پہلے سال وہاں ”رن۔ اتسو“ کے نام سے تین دن کا میلہ لگا۔ دوسرے سال وہاں پندرہ دن کا میلہ لگا اور موجودہ وقت میں وہاں 120 دن یعنی چار مہینوں کا میلہ لگتا ہے اور پوری دنیا سے سیاح رن آف کچھ دیکھنے کے کچھ بھج آتے ہیں۔ وہاں فائیو اسٹار ہوٹل بن گئے ہیں اور نئے بازار سج گئے ہیں۔ اس کے بالکل سامنے ہماری طرف قدرت کی آرٹ گیلری کارونجھر جبل موجود ہے ہم اس کو کاٹ کر بیچنے کے دھندے میں لگے ہوئے ہیں۔ کارونجھر جبل کے ایک طرف دنیا کا سبز صحرا تھرپارکر اور دوسری طرف رن آف نگر پارکر اور کچھ موجود ہے۔ ان مقامات کو سیاحتی جگہ کے طور پہ پروموٹ کیا جائے تو پوری دنیا یہاں امڈ پڑے۔

ویرجی کولہی نے یہ کتاب لا کر بہت اچھا کام کیا ہے۔ میں چاہوں گا کہ وہ اس مزاحمتی گوریلا جنگ کے باقی کرداروں پر بھی لکھے۔ تاریخ میں نہ کسی کا کھاتہ کھایا جاتا ہے اور نہ ہی کسی کا کھاتہ چھپایا جاتا ہے۔ اس جنگ کا اہم کردار ادھے سنگھ سوڈھو بھی تھا۔ جس نے 1843 میں سب سے پہلے لوگوں کو ہولی گڑو کے مقام پر جمع کیا۔ اس کے لیے منگھن ہاروں نے منادی کی تھی۔ وہاں جمع ہونے والوں سے ادھے سنگھ نے کارونجھر جبل کی قسم اٹھوائی کہ بتاوٴ تم جبل کے ساتھ ہو یا نہیں۔ سو حالت جنگ میں بھی کارونجھر جبل ہمارے ایمان کا حصہ اور اعتماد کا ضامن رہا ہے۔ کارونجھر کی قسم اٹھانے کے بعد کسی بھی دھرتی واس نے غداری نہیں کی تھی۔ ہم پارکر کے اچھوت آج بھی ایک دوسرے کی یقین دہانی کے لیے کارونجھر کی قسم اٹھاتے ہیں۔ ادھے سنگھ، کان، بھوپت سنگھ اس دھرتی کے عظیم کردار ہیں جن میں سے کچھ کو قتل کیا گیا اور کچھ کو کالے پانی کی سزا ہوئی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے یہ طے کیا کہ ہم تاریخ میں زندہ رہیں گے۔ زندگی دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک ان لوگوں کی زندگی جو چاہتے ہیں کہ منصب اور کرسی کس طرح حاصل کی جائے اور دوسری ان لوگوں کی زندگی جو اپنی جان دے کر وطن کو سرخرو کرتے اور اتہاس میں زندہ رہتے ہیں۔ نگر پارکر کا کولہی 1843 میں سوچتا ہے کہ وہ تاریخ میں کون سے مقام پر زندہ رہے، عین اسی وقت پورن وا کے جاگیردار کو فکر تھی کہ انگریز سے مراعات کس طرح حاصل کی جائیں۔ بہت بعد میں کیسوبا نے آ کر ان کے داغ دھوئے ورنہ انھوں نے اپنوں سے اپنی دھرتی سے جو غداریاں کیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ نگر پارکر سمیت سندھ کی تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں جس میں کسی اچھوت نے کسی حملہ آور سے مل کر اپنی دھرتی سے غداری کی ہو۔

خلیل کنبھار کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: