مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بارش اورسیلاب کا موسم پھر آ گیا۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارش اور سیلاب کا موسم شروع ہوتا ہے تو پرانے زخم یاد آ جاتے ہیں، ابھی گزشتہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے جان نہیں چھوٹی تھی کہ ایک بار پھر ملک کے مختلف شہروں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے، پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں بارش کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ، نہر اوور فلو جبکہ شاہراہیں اور انڈر پاسز پانی میں ڈوب گئے ، چھتیں گرنے ، کرنٹ لگنے اور ڈوبنے سے خواتین ،بچوں اور پولیس اہلکار سمیت انیس افراد جان گنوا چکے ہیں، بارش سے لاہور کے بیشتر علاقے پانی میں ڈوب گئے ، شہر بھر کی گلیاں ، محلے زیر آب ہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے 5گھنٹے تک لاہور کے مختلف علاقوں کا ہنگامی دورہ کیا اور کمشنر لاہور ڈویژن ، ایم ڈی واسا کو ہدایات دیں، وزیر اعلیٰ کی ہدایات کے ساتھ متاثرہ علاقوں میں نکاسی آب سمیت دیگر اقدامات بھی کرنے چاہئیں ، بارشوں سے جاں بحق ہونے والوں کے لئے امداد کا اعلان خوش آئند ہے مگریہ قدم صرف لاہور کیلئے ہی نہیں ہو بلکہ صوبے کے بارش سے متاثرہ ہر علاقے میں بحالی کے اقدامات ہونے چاہئیں۔ گذشتہ سیلاب سے تباہ ہونے والے سرائیکی وسیب کے علاقے ابھی تک بحال نہیں ہو سکے ۔اب سیلاب کے خطرات ایک بار پھر سر پر منڈلا رہے ہیں، محکمہ موسمیات کی طرف سے 9 جولائی تک مزید بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے جس کے پیش نظر ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں ممکنہ سیلاب سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، 8 سے 10 جولائی تک دریائے چناب سے ضلع مظفر گڑھ میں فلڈ کیلئے ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے، اس سلسلہ میں کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈاکٹر ناصر محمود بشیر کی زیر صدارت ویڈیو لنک اجلاس ہوا جس میں ڈپٹی کمشنرز اور متعلقہ افسران شریک تھے ، کمشنر نے متعلقہ محکموں کی چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں ، حساس اور نشیبی علاقوںمیں سیلاب سے متعلق بروقت اعلانات، منادی اور آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے مگر صرف آگاہی مہم چلانا کافی نہیں ہوتا بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ، سرائیکی وسیب وہ علاقہ ہے جس کی اسمبلی میں کوئی آواز نہیں ۔ آصف زرداری نے سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کیلئے 300 ارب مرکز سے حاصل کر لئے حالانکہ گزشتہ سال سیلاب سندھ کے ساتھ سرائیکستان اور بلوچستان میں بھی آیا تھا ، سرائیکی خطہ زراعت کا مرکز ہے ، معیشت کا دار و مدار سرائیکی وسیب کی زرعی پیداوار پر ہے، خصوصاً کپاس جو کہ نقد آور فصل ہونے کے ساتھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا پہیہ چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہماری واحد ایکسپورٹ کا دارومدار بھی کپاس سے تیار شدہ مصنوعات پر ہے۔ امسال وسیب سے گندم کی بمپر کراپ حاصل ہوئی مگر غریبوں کو روٹی کے لالے پڑ چکے ہیں، وسیب میں روٹی اور نان کی قیمت بیس سے تیس روپے تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت نے کپاس کی پیداوار بڑھانے کیلئے اقدامات کا اعلان کیا مگر عملی اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے ، غریب کسان آج بھی مشکلات کا شکار ہے، کھاد ، زرعی ادویات اور بیج ناقص ہونے کے ساتھ ساتھ آج بھی بہت مہنگے ہیں حالانکہ اگر حکومت اپنے اللے تللے ختم کرے اور کاشتکاروں کو کھاد ، بیج ، زرعی ادویات اور پانی چند سالوں کیلئے فری کر دے تو زرعی پیداوار سے پاکستان کے تمام قرضے اتر سکتے ہیں اور قرض لینے کی بجائے قرض دینے والا ملک بن سکتا ہے ۔ پاکستان کی کپاس پوری دنیا میں مشہور ہے، اس سے لباس اور کپڑے کی دوسری مصنوعات تیار کی جاتی ہیں،اس کے بنولے کا تیل بناسپتی گھی کی تیاری کے لئے بطور خام مال استعمال ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے ، کپاس کی کاشت کے مرکزی علاقوں میں ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں، بہاولنگر، بہاولپور، ڈی جی خان، راجن پور، مظفر گڑھ، لیہ، ساہیوال اور رحیم یار خان و دیگر اضلاع شامل ہیں۔ گزشتہ روز زرعی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سرائیکی رہنما اور مثالی کاشتکار ملک اللہ نواز وینس نے کہا کہ دنیا بھر میں ہمارے علاقون کی کپاس اپنے اعلیٰ معیار کے باعث ممتاز مقام کی حامل ہے، کپاس کی زیادہ پیداوار ہی ہماری مضبوط معیشت کی ضامن ہے، کپاس کی بہترین فصل زر کثیر مبادلہ کا ذریعہ بنے گی، مگر اس کے کاشتکار کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا ہے، حکومت کی طرف سے چیک اینڈ بیلنس کا نظام غیر فعال ہے،سیمینار سے ملک جاوید چنڑ، ملک زبیر بھپلا، ملک اقبال نانڈلہ اور ظفر ہانس نے کہا کہ کپاس کی فصل بہتر نہ ہونے کے سبب سرائیکی وسیب کے کسان مشکلات کا شکارچلے آ رہے ہیں، سال 2020 ء کپاس کی فصل کی پیداوار کے لحاظ سے ملکی تاریخ کا سب سے برا سال رہا ہے جس میں صرف 38 لاکھ ایکڑ رقبے پر ہی کپاس کاشت کی جاسکی۔ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار کا ہدف 23 من مقرر تھا اور 17 من فی ایکڑ بھی بمشکل ہو پائی جب کہ مجموعی طور پر 55 لاکھ بیلز کی پیداوار ہوئی۔گزشتہ سال بھی سیلاب کی تباہ کاریوں سے کپاس کی پیداوار کم ہوئی، 60 فیصد کاٹن جنگ فیکٹریاں چالو ہی نہیں ہوسکیں جس کی وجہ سے ہزاروں افراد کو بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔زرعی پیداوار بڑھانے کیلئے وسیب کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ کمشنر ڈیرہ غازی خان ڈویژن ڈاکٹر ناصر محمود بشیر نے خصوصی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے تاجروں اور کاروباری حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو خوشخبری سنائی ہے کہ چار سو ایکڑ رقبہ پر انڈسٹریل اسٹیٹ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس فری انڈسٹریل زون کی ضرورت ہے ۔ خصوصاً سی پیک کے ساتھ مجوزہ صنعتی بستیوں میں وسیب کو اس کا حصہ ملنا چاہئے۔ کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنانے کے ساتھ ساتھ موٹر ویز اور یونیورسٹیوں کا قیام از حد ضروری ہے اور سب سے اہم ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اور سیاستدان ہر طرح کے لولی پاپ بند کر کے صوبے کیلئے اقدامات کریں تاکہ وفاق مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: