مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غرباء کی عید ،کہاں اور کیسے گزرے گی ؟!۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کے موقع پر یہ خبر ہر مرتبہ لازمی شائع ہوتی ہے کہ صدر ،وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما کہاں عید منائیں گے اس مرتبہ خبر یہ نہیں کہ کہاں عید منائیں گے ۔دراصل خبر یہ بنتی ہے کہ غریب کی عید کہاں اور کیسے گزرے گی ؟ ۔ اس عید پر جو مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں اس سے دکھ بھی ہوتا ہے اور صدمہ بھی کہ اس مرتبہ ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے نوے فیصد بچوں کو نئے کپڑے پہننے کو نہیں مل سکے۔آج عید کا روز ہے تو آئیے ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے جو دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا ۔ یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے پوچھا خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدین دی جاتی ہیں۔ چنانچہ ۲؁ھ سے عید الفطر کا آغاز ہوا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سرکار مدینہؐ نے اہل مدینہ کی ثقافتی تفریح نہ صرف خیال رکھا بلکہ اس سے کہیں بہتر اسلامی ثقافتی تہوار دیئے اور اس بات کا خصوصی اہتمام فرمایا کہ یتیم مسکین اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوں لیکن آج کے دور میں عملی طور پر غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے۔ مسلمان ممالک میں بھی مساوات موجود نہیں ، خصوصاً محنت مزدوری کیلئے سعودی عرب جانے والے غیر عرب کو نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق حاصل نہیں ۔ بزرگ کہتے ہیں کہ عید پر پانچ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے :۔نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا۔ گھر میں اچھا طعام پکانا ۔ خوشبو لگانا ۔ معانقہ کرنا اور مسکراہٹیں بکھیرنا ۔بزرگوں اور غمزدہ لوگوں کے پاس خود چل کر جانا۔ مگر ہم نے جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کو قربانی سمجھ لیا ہے حالانکہ قربانی تو ایثار، صبر، تسلیم و رضا اور دوسروں کیلئے اپنی خواہشات کو قربان کرنے کا نام ہے۔ عید اور قربانی کا دن ہمیں غریبوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور غریبوں سے ہمدردی و غمگساری کا درس دیتا ہے۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب ہم خبریں پڑھتے ہیں کہ دبئی کے ایک سرمایہ دار نے 10 کروڑ ڈالر سے اپنی بیٹی کی سالگرہ کا کیک بنوایا، نہایت صدمہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے عید کے دن وعید کا پیغام ہے۔قربانی کے تاریخی پس منظر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ہزارہا سالوں سے مختلف شکلوں اور مختلف مذاہب و قبائل میں چلی آرہی ہے۔ ہم اپنے مذہب اسلام میں قربانی کی تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں قربانی کی عید منائی جاتی ہے، اسے بڑی عید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جانور کی قربانی کا حکم ہوا تو اس یاد میں ہر سال عید پر کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ہندومذہب کی کتاب رامائن میں گھوڑوں کی قربانی کا ذکر ہے۔ البتہ بدھ مت اور جین مت میں کسی ذی روح کو مارنا گناہ اور پاپ ہے، کٹر مذہبی لوگ منہ پر کپڑا رکھتے ہیں کہ کہیں منہ میں مچھر نہ چلا جائے مگر عورت کو بے دردی سے ’’ستی‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ یہودی ’’عید فصیح‘‘ کے نام سے سات روز تک تہوار مناتے ہیں اور جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ سکھ مذہب کے لوگ ’’ہولا‘‘ کے نام سے قربانی کرتے ہیں، بھیڑیں ذبح کی جاتی ہیں قدیم یونان میں جنگ سے قبل کنواری لڑکی کی قربانی کا رواج تھا۔ قدیم ایران میں (قبل از اسلام) دیوتا کیلئے سانڈ کی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ میکسیکو کے لوگ زمانہ قدیم میں جنگی قیدی قربان کرتے تھے، قبل از اسلام عرب میں ’’فرع‘‘ پہلے پیدا ہوے والے بچے کو قربان کرنے کا رواج تھا۔ ہندوستان میں ٹھگ کی قربانی دینے ، کالی یا چنڈی دیوی کے سامنے مردوں کی قربانی دینے کے واقعات قدیم کتابوں میں موجود ہیں۔ کنعان میں بچوں کو قربان کرکے مرتبانوں میں سجانے کے قدیم تذکرے موجود ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی قبائل ’’گونڈ اور ماریا‘‘ دھرتی کی زرخیزی کیلئے خوبصورت لڑکی قربان کرتے تھے۔ روم میں مفتوح سپہ سالار کی قربانی کا رواج تھا۔ ڈیانا دیوی کے معبد میں گھوڑا بھی قربان کیا جاتاتھا ’’قرطاجنہ‘‘ میں بچے کو آگ کے شعلوں میں پھینک کر ’’دیوتا مولک‘‘ پر قربان کیا جاتا۔ قربانی کے دوسرے دلخراش واقعات کے ساتھ ساتھ ایک یہ بھی ہے کہ وحشی قبائل میں ایک ایک خوبرو نوجوان کی قربانی کیلئے منتخب کیا جاتا، اس کی سال بھر خوب خاطر مدارت کی جاتی پھر اس کا بنائو سنگھار ہوتا دولہے کی طرح سجایا جاتا۔ شب باشی کیلئے حسینائیں پیش کی جاتیں پھر دوسرے دن اسے ذبح کر دیا جاتا۔ ہر عید پر کچھ خبریں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں ، ان میں سے ایک خبر مختلف مساجد اور عید گاہوں میں نماز کے اُوقات بارے ہوتی ہے۔ ایک خبر یہ ہوتی ہے کہ پورے ملک میں کل عید مذہبی جوش جذبے سے منائی جائے گی۔ بکر منڈیوں میں خریداروں کا رش، جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔مزید خبریں یہ کہ عید کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے دفاتر خالی، پردیسیوں نے بس، ویگن اور کوچز سٹینڈ کا رُخ کر لیا، ریلوے اسٹیشنوں پر ٹکٹیں قلیوں نے خرید لیں، کراچی سٹیشن پر ایک ہزار والی ٹکٹ تین ہزار میں، اسی طرح ٹرانسپورٹروں نے بھی کرائے بڑھا دیئے۔ یہ پاکستان کی خبریں ہیں یورپ میں کرسمس کے موقعہ پر قیمتوں میں کمی اور لوگوں کو سہولتیں دینے کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ عید کے موقع پر پیاس ، لہسن، ٹماٹر، گرم مصالحے اور دوسری دوسری اشیائے ضرورت کے ہوشربا اضافے کی بات کرکے میں آپ کی عید خراب کرنا نہیں چاہتا۔

 

 

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: