مئی 4, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جسٹس(ر) جواد خواجہ کا ایک دلچسپ انٹرویو۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کل سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے کیس چل رہا ہے، عمران خان، اعتزاز احسن اور سول سوسائٹی کے ایک حلقے کی جانب سے پٹیشن کے علاوہ سابق چیف جسٹس جواد خواجہ نے بھی چیلنج کیا ہے۔قانونی ماہرین اور سابق جج صاحبان کا کہنا ہے کہ جسٹس جواد کی پٹیشن اپنی ڈرافٹنگ، دلائل اور متن کے حوالے سے شانداراور پر مغز ہے۔ جواد خواجہ صاحب طبعاً خبروں اور میڈیا سے دور رہنے والے آدمی ہیں، مگر اپنی اس پٹیشن کی وجہ سے بہرحال خبروں میں آ گئے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ لاہورہائی کورٹ کے جج تھے، جب جنرل مشرف نے افتخار محمد چودھری کو ریفرنس کی بنا پر عہدے سے ہٹایا اور بدسلوکی کی ،تب پورے پاکستان کی عدلیہ میں سے صرف جسٹس جواد خواجہ ہی تھے جنہوں نے استعفا دے دیا۔عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے بعد جب تمام جج بحال ہوئے تو بعدازاں خواجہ صاحب کو سپریم کورٹ میں جج بنایا گیا۔ انہوں نے بطور جج سپریم کورٹ بڑے اہم فیصلے دئیے ، ان میں اردو زبان کے نفاذ کا تاریخی فیصلہ سرفہرست ہے۔ نواز شریف صاحب کے دور حکومت میں دہشت گردوں کے خلاف دو سال کے لئے سپیشل ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں، اس آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے نے ملٹری کورٹس کوجائز اور قانونی قرار دیا تھا، تاہم بعض ججوں نے اختلاف کیا، ان میں جسٹس جوادخواجہ اور جسٹس فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ جواد ایس خواجہ انٹرویو دینے سے گریز کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں معروف صحافی ، اینکر اور انٹرویو نگار سہیل وڑائچ صاحب کی ایک کتاب پڑھنے کا موقعہ ملا، اس میں صرف ریٹائر جج صاحبان کے انٹرویو شامل ہیں۔ یہ کتاب ساگر پبلشر نے چھاپی ہے اور ضیا القرآن پبلشرز ، اردو بازار ، لاہور سے دستیاب ہے۔ اس میں جسٹس جواد ایس خواجہ کا ایک غیر مطبوعہ انٹرویو بھی شامل ہے۔ اغلباً یہ جج صاحب کا واحد انٹرویو ہے۔ اس کے بعض اقتباسات ایسے دلچسپ ہیں کہ قارئین سے شیئر کرنے کا جی چاہا۔یاد رہے کہ یہ انٹرویوافتخار چودھری اور دیگر ججز کی بحالی کی تحریک کے دوران( جون 2007)کیا گیا۔ انٹرویو کی ابتدا ہی میں جواد ایس خواجہ نے اپنے رول ماڈل کے طور پر جسٹس اے آر کارنیلیس کا نام لیا۔ وہ کئی برسوں تک جسٹس کارنیلیس کے ساتھ لافرم میں کام بھی کرتے رہے تھے۔ جسٹس جواد خواجہ کہتے ہیں :ـ’’ مجھے جسٹس کارنیلیس کے ساتھ کام کرنے اور انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ ان کی زندگی انتہائی سادہ تھی۔ وہ سیدھی سمت میں چلتے تھے، مصلحت کا شکار نہ ہوتے ۔ ان میں ایک جینوئن عاجزی تھی ۔ وہ اپنی زندگی کی آخری تین پانچ دہائیاں فلیٹیز ہوٹل لاہور میں مقیم رہے، ان کی اہلیہ بھی وہیں رہتی تھیں۔ ایک بار انہیں کرسمس کے موقعہ پر مبارک باد دینے گیا تو وہاں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی آگئے۔ جسٹس کارنیلیس نے میرا تعارف کرایا تو جسٹس نسیم شاہ نے کہا، اچھا یہ وہ جواد خواجہ ہیں جو آپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ جسٹس کارنیلیس نے فوراًجواب دیا، نہیں ، میں ان کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ ’’جسٹس کارنیلیس کی سادگی کا ایک اور واقعہ یوں ہے کہ ایک بار لاہور کے خزانہ افسر نے کارنیلیس صاحب کے نام چٹھی لکھی تھی کہ وہ ان کے سامنے پیش ہوں اور ثابت کریں کہ ابھی زندہ ہیں۔ غالباً پنشن کا معاملہ تھا۔ یہ چٹھی دیکھ کر میں برہم ہوا کیونکہ ان جیسی ہستی کو ایسا خط لکھنا غیر مناسب تھا اور ویسے بھی جب کارنیلیس صاحب جیسا شخص دنیا سے جائے گا تو سب کو معلوم ہوجائے گا۔ میں ہچکچاتا ہوا وہ چٹھی لے کر جسٹس کارنیلیس کے پاس گیا اور انہیں دکھایا۔ وہ آرام سے بولے ، مائی ڈئیر جواد ،ناراضی کی کوئی بات نہیں، یہ شخص تو اپنے سرکاری فرائض نبھا رہا ہے۔ پھر انہوں نے دو خط لکھے، ایک رجسٹرار سپریم کورٹ کے نام کہ میں اپنا نمائندہ بھیج رہا ہوں، اس کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کر دیں کہ میں ابھی زندہ ہوں ۔ دوسرا خط انہوں نے اسی خزانہ افسر کو لکھا کہ میں یہ سرٹیفکیٹ بھجوا رہا ہوں ، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں ابھی زندہ ہوں۔ امید ہے اس سے آپ کی ریکوائرمنٹ پوری ہوجائے گی۔ پھر انہوں نے لکھا اگر ایسا نہ ہو تو براہ کرم مجھے دن اور وقت بتا دیں تاکہ میں خود آپ کے سامنے پیش ہوسکوں۔ جسٹس کارنیلیس کی ہر بات سے عجز جھلکتا تھا۔ وہ بڑے بڑے عہدوں پر رہے، مگر ان میں قطعی نمودونمائش نہیں تھی۔ ‘‘ سہیل وڑائچ صاحب نے انٹرویو میں ایک سوال کیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ عدلیہ یا جج پاکستان میں آزاد کیوں نہیں۔ جسٹس جواد خواجہ کا جواب تھا:’’میں نے جج کے طور پر آٹھ سال کام کیا(یہ لاہور ہائی کورٹ میں کام کرنے کے برسوں کا ذکر ہے )، میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ میں اپنے فرائض کی انجام دہی میں آزاد نہیں ۔ اس آٹھ سال کے عرصے میں کسی نے مجھ پر دبائو ڈالا اور نہ ہی کسی شخص نے اپروچ کرنے کی کوشش کی۔ میں اگر خود کا پابند بنا لوں اور غیر آزاد بنا لوں تو یہ کسی کا قصور نہیں۔ جج کا کام تو بہت ہی سیدھا اور آسان ہے۔ اس کو کیس کے حقائق دیکھنے ہیں اور قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔‘‘ سوال : جج کو نتائج کی پروا نہیں کرنی چاہیے ؟ جواد خواجہ : یقینا نہیں ۔ یہ تو جج کا کام ہے ہی نہیں ۔ جج کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ دیکھے کہ کیس کے حقائق کیا ہیں اور قانون کیا کہتا ہے ۔ بس اس کے مطابق فیصلہ کر دے۔ سوال : جسٹس نسیم شاہ کا کہنا ہے کہ جج کو دیکھنا چاہیے کہ اس کے فیصلے کے نتیجے میں تباہی تو نہیں آئے گی ؟ جواب : نہیں ، میرے نزدیک یہ جج کا کام نہیں۔ کیس میں حقائق اور قانون کے علاوہ اگر کوئی جج اپنے فیصلے میں تیسرا عنصر شامل کرتا ہے تو وہ غلط ہے، بالکل غلط ہے کیونکہ کیس کے حالات جج نے پیدا نہیں کئے ہوتے ۔ اس نے بطور ایمپائر واقعات اور قانون کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرنا ہوتا ہے۔ سوال : نظریہ ضرورت کے حوالے سے آپ کے کیا تحفظات ہیں ؟ جس کا عدلیہ کی تاریخ میں بارہا ذکر ہواہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ : آئین میں ایسے کسی نظریے کو ذکر نہیں ، اس لئے قانونی فیصلوں میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ جج اور عدالتیں خود آئین کی پیداوار ہیں ، ان کے اختیارات بھی آئین میں درج ہیں ۔ آئین سے ماورا ان کا کوئی اختیار نہیں ۔ جیسا میں نے پہلے کہا، جج کا کام تو بہت ہی آسان اور سیدھا ہے ۔ سہیل وڑائچ صاحب نے اس انٹرویو میں ایک دلچسپ انکشاف کیا کہ جسٹس جوا دخواجہ کے گھر کے باہر نیم پلیٹ پر ان کے نام سے پہلے ان کی اہلیہ محترمہ کا نام تحریر ہے اور ان کے اپنے نام کے ساتھ بھی کوئی سابقہ لاحقہ موجود نہیں، سادگی سے صرف ’’بینا اور جواد ‘‘لکھا ہے۔ سہیل صاحب نے یہ سوال پوچھا تو جسٹس جواد خواجہ کا جواب تھا:’’اس کی کوئی وجہ نہیں ہے، کوئی شعوری وجہ نہیں۔ ہمیں نہیں لگتا ہے کہ اس سے کچھ فرق پڑتا ہے، نام نہ ہوتو پھر بھی ٹھیک ہے۔ لکھ دیا گیا تو بھی ٹھیک ہے۔ ‘‘ سوال :’’ بینا اور جواد ‘‘ ایسے نام لکھے ہونا ہماری سوسائٹی سے مختلف ہے ؟ جسٹس جواد خواجہ : ہوگا اور ہوسکتا ہے ، اور سوسائٹی سے مختلف ہے بھی ۔ مگر نام پلیٹ کی وجہ سے میرے لئے کبھی کوئی مسئلہ نہیں اٹھا۔ جسٹس جواد خواجہ کو روحانیت سے بھی دلچسپی ہے، وہ صوفی منش آدمی ہیں، فارسی زبان سے گہری محبت ہے، کہتے ہیں دیوان حافظ سے انہیں عشق ہے، میں نے یہ بھی سنا ہے کہ تصوف کی ایک مشہور کتاب تذکرہ غوثیہ کا وہ انگریزی ترجمہ کرنا چاہتے ہیں، معلوم نہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا ہے یا نہیں؟ سہیل وڑائچ نے اس حوالے سے بھی سوال کیا کہ آپ روحانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ جواد خواجہ کا جواب تھا، ’’روحانیت سے معلوم نہیں آپ کا کیا مطلب ہے ۔ ہم مادی زندگی میں اتنے زیادہ پھنس جاتے ہیں کہ ہم اسی زندگی کو واحد حقیقت سمجھتے ہیں۔ ہماری زندگی کی ایک اور سمت Dimentionبھی ہے، لیکن میں اس کے لئے کوئی اصطلاح استعمال نہیں کروں گاکیونکہ اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ یہ تجربے کی چیز ہے۔ سوال : کیا آپ اس تجربے سے گزرے ہیں؟ جسٹس جواد خواجہ : (ایک لمحے کو رک کر)میرے خیال میں اس پر کچھ کہنا مناسب نہیں۔ (کتاب : عدلیہ کے عروج وزوال کی کہانی ،اقتباسات انٹرویو، صفحہ 294تا307 )

 

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: