مئی 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

رضامندی سے ہوئے ’’اغوا‘‘ کی کہانی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے لاہوری دوستوں کے ایک کٹھ کا نام ’’پنجتنی کٹھ‘‘ ہے۔ ابتداً یہ چار یاری کٹھ تھا پھر راجہ ارشد صاحب کی شمولیت پر دوستوں نے فل کونسل اجلاس میں کٹھ کے نام کی متفقہ تبدیلی کا فیصلہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پنجتنی کٹھ کے لاہوری ارکان بسلسلہ روزگار و تعلیم و تربیت بال بچگان اس شہر میں مقیم ہیں۔

فقیر راحموں اس شہر کو شاہ حسینؒ کا شہر کہتا ہے۔ زیادہ تر لوگ داتا کی نگری کہتے ہیں۔

پنجابی فلموں کے ایک اداکار ہوا کرتے تھے سید اسد بخاری، ان کی بنائی فلموں (وہ فلمساز بھی تھے) کے بعض گیت اور منقبتیں بہت مشہور بلکہ زبان زد عام ہوئیں جیسا کہ ’’چار چراغ تیرے بلن ہمیشہ پنجواں میں بالن آئی آں‘‘ اسی طرح ان کی ایک فلم کا گانا بہت مشہور ہوا تھا ” اے نگری اے داتا دی‘‘

ایسا نہیں ہے کہ لاہور کو اس فلمی گانے کی مقبولیت کی وجہ سے داتا کی نگری کہا جانے لگا بلکہ اس سے پہلے بھی لاہور کو داتا کی نگری کے طور پر یاد کیا جاتا تھا۔ ایک تعارف اس شہر کا بہرحال صدیوں سے یہ بھی ہے۔

یہاں صدیوں سے مراد وہ وقت ہے جب سید علی ہجویریؒ کی شناخت رکھنے والے بزرگ افغانستان سے لاہور تشریف لائے اور یہیں کے ہوگئے۔

کہا یہی جاتا ہے کہ سیدی ہجویریؒ کو ان کے مرشد نے لاہور جانے کا حکم دیا۔ ان کی لاہور آمد اور ایک اور بزرگ کے سفر آخرت میں مماثلت پیش کرنے والے کہتے ہیں روحانی سلسلوں کا اپنا نظام ہے۔ رخصت ہونے والے بزرگ کی جگہ لینے کے لئے ایک اور بزرگ تدفین سے قبل مذکورہ شہر میں پہنچ جاتا ہے۔

فقیر راحموں چونکہ ملامتی صوفیاء کا عاشق اور بالخصوص مرشد کریم سید عبداللہ شاہ بخاری (المعروف بابا بلھے شاہؒ) کا محب ہے اس لئے وہ ملامتی نسبت سے لاہور کو شاہ حسینؒ کا شہر کہتا ہے۔

آپ اس میں ملامتیوں اور دوسرے بزرگوں کے مابین جھگڑا تلاش کرنے نہ نکل لیجئے گا۔ شاہ حسینؒ ہوں کہ سید علی ہجویریؒ داتا گنج بخش، دونوں بزرگ اپنا اپنا مقام خاص رکھتے ہیں۔

داتا صاحب مبلغ تھے انہوں نے اس خطے میں اسلام کی تبلیغ کی ہزاروں خاندان ان کی تبلیغ اور روحانیت سے متاثر ہوکر مسلمان ہوئے۔ سینکڑوں سالوں سے ان کی خانقاہ پر لنگر چلتا ہے۔

اپنی لاہور آمد کے بعد ہم نے بھی ایک دوست سید وقارالحسنین نقوی کے توسط سے ایک وقت کا کھانا کافی عرصہ تک داتا صاحب کے لنگر سے کھایا یہ بس سیدی وقار الحسنین نقوی کی مہربانی تھی کہ ان کا دفتری معاون سپہر کے وقت دوپہر کا کھانا ہمیں پہنچاجاتا تھا۔ ان دنوں بالخصوص ماہ رمضان المبارک میں دوپہر کے کھانے کی نعمت کا احساس وہی کرسکتے ہیں جو کسی نئے شہر میں محنت مشقت کے لئے جنم شہروں سے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

ماضی کے ان برسوں اور خصوصاً رمضان المبارک کے ایام میں دوپہر کے بعد روزانہ دو تین دوست ہمارے دفتر ضرور پہنچ جاتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ یہاں گرما گرم کھانا مل جاتا ہے۔ ایک دن ایک دوست کہنے لگے یار یہ وقار نقوی اچھا آدمی ہے کتنا خیال کرتا ہے محض دوستی میں تمہارا

میں نے عرض کیا وقار الحسنین نقوی تو بس وسیلہ ہے کھانے کا انتظام تو قبلہ داتا گنج بخش صاحب کی طرف سے ہے۔

یہ دوست بزرگوں کے منکر لیکن لنگر نیاز کے عاشق تھے، کہنے لگے شاہ شکر ہے تو مولوی نہیں بنا ورنہ آگے کی بات گو انہوں نے ادھوری چھوڑدی مگر ہم سمجھ گئے کہ یہ منکرین بزرگ دوست کہنا کیا چاہتا ہے۔

بہرحال ابتدائی برسوں میں قبلہ داتا صاحب اور سید وقارالحسنین نقوی نے جس طرح خیال کیا اس کے لئے شکرگزاری دائمی ہے۔

شاہ حسینؒ اسی لاہور میں مدفون ہیں۔ آبائی تعلق ضلع وہاڑی سے تھا ان کا خاندان وہاں سے تلاش معاش میں یہاں اُٹھ آیا۔ شاہ حسینؒ کی شاعری نے زمین زادوں کے دل و دماغ پر دستک دی ان کا کلام مقبول ہوا۔

ہر ملامتی صوفی کی طرح ان پر بھی مولویوں نے سوقیانہ الزامات کی بھرمار کی سچ یہ ہے کہ شاہ حسین پر الزام تراشی کرنے والوں کا ذکر بس بعض کتابوں کے الزام تراشی کرنے والے بابوں میں ملتا ہے جبکہ ان کا ذکر چار عالم ہے اور ہر سو۔ ان کی شعری کا ڈنکا آج بھی بجتا ہے ’’مائے نی میں کینوں آکھاں‘‘ والی کافی علم و ادب سے رتی برابر آشنا شخص کو بھی آپ گنگناتے دیکھیں گے۔

بہت باکمال شاعر تھے۔ تھے کیا اب بھی ہیں اپنی شاعری کی بدولت اور ہمیشہ رہیں گے۔

ارے معاف کیجئے گا تمہید طویل ہوگئی۔ یہ کالم لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ ہمارے ’’لاہوری پنجتنی کٹھ‘‘ کے ایک ’’تن‘‘ رکن رائو عابد ڈیڑھ دو ماہ سے ایک بار پھر قیام لاہور کو ترک کرکے اپنے گائوں 46 اڈا ضلع سرگودھا جا مقیم ہوئے ہیں۔ ان کے بغیر کٹھ کے دیگر ’’تن‘‘ ارکان چند بار اکٹھے ہوئے۔ محفل تو ہر بار خوب جمی بلکہ گرما گرم جمی لیکن رائو صاحب کی غیرحاضری اور نقل مکانی کا ذکر بھی رہا۔

چند دن قبل کی ایک شام کٹھ کا ہنگامی اجلاس ہوا ایک معزز رکن ’’گیٹ پاس‘‘ نہ ملنے کی وجہ سے کٹھ میں شریک نہ ہوپائے۔ خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی کہ یہ رکن ہفتہ کے دن سرکاری ڈیوٹی پر ضلع سرگودھا کے اسی علاقے میں پائے جائیں گے جہاں قریب ہی پنجتنی کٹھ کے امیر رائو عابد مقیم ہیں

اس لئے فیصلہ ہوا کہ پہلے تو اس سرکاری افسر سید زوہیب حسن بخاری کو فرائض کی ادائیگی والے مقام سے ’’اٹھا‘‘ لیا جائے پھر رائو عابد کے ہاں ڈیرہ ڈالا جائے۔ فقیر راحموں نے تو اس ہنگامی دورے کی پوسٹ بھی فیس بک پر لگادی تھی۔

خیر حسب پروگرام برادران راجہ ارشد اور رانا شرافت علی ناصر کے ہمراہ لاہور سے ہفتہ کی صبح روانگی ہوئی پہلے تو زوہیب بخاری کو مقام فرائض سرکار سے اٹھایا گیا پھر قافلہ حسب پروگرام 46اڈا ضلع سرگودھا کی طرف عازم سفر ہوا جہاں رائو صاحب نے اپنے ’’پنجتنی کٹھ‘‘ کے ساتھیوں کے لئے خاصا اہتمام کررکھا تھا۔ رائو صاحب کی قیام گاہ پر رائو حسین احمد پہلے سے منتظر ملے بعدازاں سہیل خاور گجر، شکیل خاور گجر ایڈووکیٹ اور رانا شبیر بھی رونق محفل ہوئے۔

رائو صاحب لاہور سے آئے یاروں کو ایسے ملے جیسے ڈار سے بچھڑی کونج پھر سے اپنی ڈار کے ہمراہ اڑانے بھرنے پر شاداں ہوتی ہے۔

تین ساڑھے تین گھنٹے کی اس محفل میں ملکی سیاست، تاریخ اور دوسرے موضوعات پر باتوں کےساتھ لطائف بھی چلتے رہے۔ مختلف نسلوں، عقیدوں اور ذاتوں کے لطائف نے سماں باندھے رکھا۔ زوہیب حسن بخاری نے فوٹو گرافری خوب کی۔ اس مفحل کی تصویری تشہیر کے بعد ضلع سرگودھا کے چند دوستوں نے ٹیلیفون کرکے رائو عابد سے شکوہ کیا کہ ہمیں اطلاع نہیں دی وہ وضاحت کرتے رہے کہ میں نے کسی کو اطلاع نہیں دی۔

البتہ جو لوگ ملاقات کے لئے پہنچے وہ شاہ جی کی لگائی پوسٹ پڑھ کر آئے تھے۔ شکوہ کرنے والے دوستوں کی محبت کا شکریہ بہرطور بنتا ہے۔

47کی گرمی جو 52کا احساس دلارہی ہو، میں سفر کرنا تھا تو مشکل لیکن یاروں سے ملاقات کے لئے مشکل آسان ہوئی۔ ٹھنڈی ٹھار گاڑی میں سینکڑوں کلومیٹر آمدورفت نے گرمی کا احساس ہی نہیں ہونے دیا رہی سہی کسر میزبان کے ماحضر طعام نے پوری کردی جس میں شکنجبین، لسی، کوک سپرائٹ، نہاری، پلائو، دال، گرما گرم روٹی، میٹھے آم اور پھر دشمن گرمی مشروب ’’چائے‘‘ شامل تھی ۔

اچھی بات یہ ہے کہ اس پرتکلف ظہرانے نے نیند کو غالب نہیں آنے دیا بلکہ ظہرانے کے دوران قبل اور بعد میں محفل جاری رہی۔ اس سفر کا دلچسپ مرحلہ اعلان واپسی اور میزبان کو اس کی رضامندی سے اغوا کرکے لاہور لانا تھا۔

رضامندی سے ہوئے اس اغوا کی واردات کے بعد ’’پنجتنی کٹھ‘‘ پورا ہوگیا واپسی کے سفر میں پھر محفل سج گئی مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا اسی دوران رائو صاحب نے پوچھا شاہ جی آج دفتر کے کام (اداریہ نویسی و کالم) کا کیا کیا؟

عرض کیا اساتذہ کہتے تھے اگر کسی دن مجبوری ہو تو ایڈوانس میں بھارت کی منجی ٹھوکنے والا اداریہ لکھا جاسکتا ہے۔ مہنگائی پر بھی اور مسئلہ کشمیر پر بھی اس لئے ہم نے اساتذہ کے ارشاد کے مطابق گزشتہ شب ایڈوانس میں فرائض ادا کرلئے تھے۔

پیارے قارئین لیجئے یہ ’’پنجتنی کٹھ‘‘ کے چار ارکان کے سفر کی روداد اور اپنے ہی ایک رکن کے اغوا اور اغوا سے قبل کی میزبانی کی کہانی تھی

رائو صاحب اب مستقلاً 46اڈا پر قیام پذیر ہیں اس لئے کٹھ کے دیگر ارکان کو ڈیڑھ دو ماہ بعد یا جب بھی سہولت ہو ان سے محفل سجانے کے لئے لاہور سے اڑان بھرنا ہوگی۔

اس ساری کہانی میں ایک کتاب کا کوئی ذکر نہیں جو فقیر راحموں ضد کرکے رائو صاحب سے لے آیا ہے کتاب ظاہر ہے اب فقیر راحموں کی لائبریری کا حصہ بن چکی ہم بھی اس کے ساٹھ صفحات سے کچھ اوپر پڑھ چکے ہیں۔

رائو صاحب اچھے دوست ہیں جس محبت سے انہوں نے کتاب عنایت کردی اس کے لئے شکریہ کیونکہ ان کی جگہ ہم ہوتے تو کسی قیمت اور حجت پر کتاب ہرگز نہ دیتے کیونکہ قول فقیر راحموں ہے ’’کتاب پڑھنے کے لئے ہوتی ہے دینے کے لئے نہیں‘‘۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: