نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکمران کیوں نہیں ڈوبتے؟۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل صبح جونہی ایک غیرملکی اخبار کے صفحات پر نظر ڈالی تو غیرقانونی تارکینِ وطن کی کشتی کینری جزائر کے قریب ڈوبنے کی خبر سے دھیان گزشتہ دنوں سینکڑوں پاکستانی نوجوانوں کی المناک موت کی طرف چلا گیا۔ مغرب کا خواب آنکھوں میں بسائے سمندروں کے گہرے نیلے پانیوں میں ڈوبنے والے ہوں یا صحرائوں میں پیاس سے مرنے والے‘ یہ سب ہمارے ہیں۔ ہم جیسے انسان‘ ہماری طرح کی کشادگی‘ امن‘ سلامتی اور خوشحالی کی تلاش میں پُرخطر راہوں کے مسافر۔ ہزاروں ایسے بھی بدقسمت ہیں جن کی گھات میں جنگلوں‘ ساحلوں اور پہاڑوں کی وادیوں میں ڈاکو لٹیرے بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ مقامی لوگ ہی ہیں جو یورپ اور شمالی امریکہ کی طرف سفر کرنے والوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ ان پر تشدد کرکے اور قتل کرنے کی دھمکیاں دے کر ان کے رشتے داروں سے رقم بٹورتے ہیں۔ جب سے ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے پسماندہ ممالک کے لیے امیگریشن کی پابندیاں سخت کی ہیں‘ ہر سال ہزاروں تارکینِ وطن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ ان حادثات کی خبروں کی تشہیر کے باوجود لاکھوں افراد لاطینی امریکہ‘ افریقہ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ افغانستان اور پاکستان سے شمال کا رخ کرتے ہیں۔ مغربی ممالک کی اصطلاح اگرچہ مبہم ہے‘ اس سے عموماً گوروں کی اکثریت رکھنے والے مغربی یورپ‘ شمالی امریکہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جیسے ممالک کا تہذیبی‘ تاریخی اور معاشی تصور پیدا ہوتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نوجوان چاہے جنوبی امریکہ کے ملک کولمبیا کے ہوں یا ایران اور پاکستان کے‘ وہ اپنے خاندان‘ دیس‘ دوست احباب اور سب کو چھوڑ کر مغرب کی طرف کیوں جانا چاہتے ہیں؟ اور پھر ایسے تارکین وطن ہم چین‘ سنگاپور‘ تائیوان اور جنوبی کوریا سے نکلتے کیوں نہیں دیکھتے؟
ترکِ وطن انسانی المیہ ہے۔ اس کے تین پہلو ہیں اور ہر ایک کو ہم علیحدہ علیحدہ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ یہ ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اہمیت کی درجہ بندی کے لحاظ سے کسی ملک کا سیاسی نظام ہمارے نوجوانوں کے سمندروں اور دریائوں میں مغرب کے سفر میں ڈوبنے‘ راہوں میں غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے اور تپتی ریت میں بے یارومددگار جان دینے کا ذمہ دار ہے۔ نظام کوئی تجریدی یا خیالی تصور نہیں‘ یہ اس سیاسی بندوبست کا نام ہے جسے حکمران طبقات چلاتے ہیں۔ اصل ذمہ داری تو ان حکمرانوں کی ہے جو ہمارے ملکوں کی سخت گرمیوں میں ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ ایک نہیں‘ اب کئی طبقات پر مشتمل ہیں۔ سیاسی گھرانے‘ اراکینِ اسمبلی‘ نوکر شاہی‘ صنعتکار اور اب یہ وسیع اور جدید بستیوں کا کاروبار کرنیوالے اور کچھ اور جن کا نام لینے سے ہم مصلحتاً گریز کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ حکمران زیادہ دولت مند اور طاقتور ہو چکے ہیں۔ عوام کا سفر زمین کی پستیوں کی طرف ہے۔ حکمرانوں خود بخود احتساب کے دائرے میں نہیں آتے۔ صرف عوام کی جمہوری طاقت انہیں لا سکتی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ جو ہم نے پسماندہ ممالک میں دیکھا ہے‘ وہ حکمران طبقات کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔ تاریخی حوالوں سے دیکھیں تو یہ ہر مفلوک الحال ملک میں ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ ہم سیاست‘ حکمرانی‘ اجتماعیت کا ذکر بھی کرتے رہے ہیں۔ عوام کو دھوکے میں رکھنے کے لیے درباریوں اور گماشتوں کی کبھی بھی کمی نہ تھی۔ یہاں ہمیشہ ذمہ داریوں اور احتساب کی توپوں کا رخ سیاست دانوں کی طرف موڑا جاتا رہا ہے۔ کبھی نوکر شاہی اور طاقتور طبقات کو استحصالی حکمران طبقات کا حصہ نہیں دکھایا گیا بلکہ ہمیشہ ایسی فضا تیار کی جاتی رہی کہ اگر وہ سارے نظام پر قبضہ بھی کر لیں تو بھی انہیں نجات دہندہ قرار دیا جائے۔
نامور سیاسی گھرانے مٹھائیاں تقسیم کرنے اور یومِ نجات منانے میں کبھی بھی پیچھے نہیں تھے۔ آج کل تو سب کچھ بارش کے بعد دھلے موسم کی طرح واضح ہے کہ سب مل کر یومِ نجات منا رہے ہیں۔ ایسے نظاموں میں عوام کو استحصال‘ بدعنوانی‘ رشوت ستانی اور غربت سے نجات نہیں مل سکتی۔ عوام اور حکمران طبقات کے درمیان طاقت کا توازن نہ رہے تو حکمران زیادہ منہ زور ہو کر حق و انصاف اور احتساب اور جواب دہی کے اداروں کو پامال کر ڈالتے ہیں۔ اس نظام نے نوجوانوں کے لیے امید کی سب شمعیں گل کرکے صرف حکمران طبقات اور ان کے حواریوں کے لیے ہی روشنی کی ہے۔ راہ چلتے ہی کسی سے پوچھ لیں کہ آپ حالاتِ حاضرہ سے مطمئن ہیں اور کیا آپ اپنے مستقبل کے بارے میں پُر امید ہیں تو جواب سے آپ کی تسلی ہو جائے گی۔ آج کل بات کشتیوں کی خرابیوں‘ ایجنٹوں کی غیرقانونی سرگرمیوں اور مغرب کا خواب دیکھنے والوں کی ذمہ داری کی ہو رہی ہے۔ ذمہ دار تو ہمارے حکمران طبقات ہیں۔ جب تک یہ گھرانے اور ان کی سیاست اور پشت پناہی قائم ہے‘ ہمارے نوجوان اسی طرح سمندروں میں نہیں تو ناامیدی کی گہرائیوں میں غوطے کھاتے رہیں گے۔
اس المیے کا دوسرا پہلومغرب کی طرف سے اپنی سرحدوں پر پہرے سخت کرنے کی پالیسی ہے۔ امریکہ اور سب یورپی ممالک میں دائیں بازوکی قدامت پسند تحریکیں اور سیاسی رہنما ابھرے ہیں۔ عام لوگ وہاں مختلف رنگوں کے افراد کو دیکھ کر مسرت کا اظہار نہیں کرتے۔ عالمی وبا کے بعد بے روزگاری اور سرمایہ درانہ معیشت کے اتار چڑھائو سے دو عمومی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مقامی باشندے غیرملکیوں کو کم اجرت پر کام کرنے پر تیار دیکھ کر طیش میں آجاتے ہیں۔ برطانیہ بھی یورپی یونین سے ایسے نہیں نکلا تھا۔ بیانیہ یہ تھا کہ انگریزوں کی ملازمتیں پولینڈ اور کم ترقی یافتہ یورپی ممالک کے شہریوں نے سنبھال لی ہیں۔ امریکہ میں تو ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے بھی امیگریشن خلاف منشور پر زور دیا اور اس بار اگر وہ جیل اور نااہلی کی سزا سے بچ گئے تو اسے اپنے منشور میں سر فہرست رکھیں گے۔ فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ بلکہ یونان تک میں غیرملکیوں کے خلاف تحریکیں زور پکڑ رہی ہیں۔ کھلے سمندروں میں جہاں کہیں کوئی ایسی کشتی نظر آتی ہے تو اب تارکینِ وطن کو اپنے ساحلوں تک لانے کے بجائے اجاڑ جزائر میں پناہ دیتے ہیں۔ برطانیہ نے تو سمندر میں جہاز خرید لیے ہیں جہاں غیرقانونی تارکین کو رکھا جائے گا۔ میرے خیال میں قانونی طریقے سے داخلے میں کچھ نرمی ہوتی تو آئے روز پیش آنے والے ان المیوں سے لوگ محفوظ رہتے۔
آخری بات ہمارے سماجی نظام کی ہے جہاں دیکھا دیکھی‘ سنی سنائی باتوں‘ رشک‘ رقابت اور مسابقت کی وجہ سے ہمارے دیہات‘ شہروں اور محلوں میں مادیت پرستی کا غلبہ ہے۔ قناعت ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ بطور معلم بڑے دکھ کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمارا تعلیمی نظام بانجھ پن کا شکار ہے۔ نہ اس میں کسی تخلیقی علم کی گنجائش ہے‘ نہ تنقیدی سوچ کی۔ نوجوان تنقید اور تحقیق سے ہی اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔ ہمارا دورِ طالب علمی واقعتاً طالب علمی کا دور تھا۔ اب تو طالب کسی اور نوعیت کے ہیں اور علم اور معاشی منڈی میں فرق صرف بیوپاری اور مویشی منڈی کا رہ گیا ہے۔ ہمیں جو اس میدان میں کبھی کھلے دالان نصیب تھے‘ وہ بگڑتے فسطائی دور میں دریچوں میں سکڑتے اور باریک سوراخوں تک رہ گئے ہیں۔ پتا نہیں کب یہ بھی بند ہو جائیں۔ مادیت پرستی کے دور میں ہم جب گھنے درخت کے نیچے خنک ہوا یا مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی کی بات کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم یا ہمارے سامعین خلائی مخلوق ہیں۔ ہماری تعلیم ایسی ہوتی کہ ہمارا نوجوان اپنا خاندانی سرمایہ اور زندگیاں دائو پر لگانے کے بجائے اپنی ریت کو سونے اور تھرپار کر‘ چولستان اور تھل کی ویرانیوں کو سبزہ زار میں تبدیل کرتا۔ ایسا ممکن ہے۔ کئی ممالک میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا مگر اس سے پہلے فسطائیت کا خاتمہ اور حکمران طبقات کو عوامی منشا کے تابع کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author