مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مشرقی پاکستان۔ ’’جیون ایک کہانی‘‘ کی آنکھ سے ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نثار احمد ہمارے وسیبی یعنی سرائیکی دوست اور لاہور میں مقیم ہیں۔ وسیب سے اٹھ کر لاہور یا دوسرے شہروں میں کوئی خوشی سے نہیں جابستا ہزار طرح کی مجبوریاں اور ضرورتیں ہوتی ہیں۔ ان کا ایک اور تعارف یہ ہے کہ کتاب دوست ہیں۔ میں جب کسی کتاب کے مطالعہ کے بعد اس بارے کچھ لکھتا ہوں تو آدھے پونے گھنٹے بعد واٹس ایپ پر ان کا پیغام موصول ہوتا ہے، شاہ جی یہ کتاب کس نے شائع کی کہاں سے ملے گی۔

حال ہی میں انہوں نے مجھے معروف صحافی علی احمد خان کی یادداشتوں کا مجموعہ ’’جیون ایک کہانی‘‘ تحفہ میں بھجوائی۔ اس کتاب کے لئے نثار احمد خصوصی شکریہ کے مستحق ہیں کہ یہ طالب علم کو عین ان دنوں میں موصول ہوئی جب سابق مشرقی پاکستان اور حاضر و ناظر بنگلہ دیش کے حوالے سے صالحین (جماعت اسلامی) کے فکری مغالطوں اور فری میسن تحریک و ورلڈ جیوش کانگریس جیسے من گھڑت پروپیگنڈے کی توفیق مطابق پرتیں کھول رہا ہوں

جماعت اسلامی و ہمنوا اور انجمن متاثرین حب البرتنی آبپارہ شریف ہمیں پچھلی نصف صدی سے سمجھا پڑھا رٹا رہے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن اور بنگالی غدار تھے۔ بھٹو نے پاکستان توڑا۔ یہی غدار شیخ مجیب الرحمن اور عوامی لیگ والے بنگالی گزشتہ چند دنوں سے جماعت اسلامی کے ’’ڈارلنگ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔

مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی وجوہات بارے قبل ازیں لکھے گئے تین کالموں میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکااس موضوع پر مزید لکھنے کی تحریک علی احمد خان کی کتاب ’’جیون ایک کہانی‘‘ نے دی اس کے لئے ایک بار پھر اپنے وسیبی دوست نثار احمد کا شکریہ جنہوں نے یہ کتاب مطالعہ کے لئے بھجوائی۔

صحافی علی احمد خان متحدہ ہندوستان کے مشرقی یوپی کے ضلع غازی پور کے قصبے زمانیہ میں پیدا ہوئے ان کے چچا رائل ایئرفورس میں تھے۔ بٹوارے میں پاکستان ایئرفورس کو منتخب کیا۔ علی احمد خان اپنے چچا کے خاندان اور دادا کے ہمراہ چچا کی بدولت جہاز میں پاکستان پہنچے اور ماڑی پور ایئربیس پر اترے۔

ان کا بچپن زمانیہ، مدراس (چنئی) ماڑی پور کراچی، نوشہرہ، رسالپور، پشاور اور دیناج پور مشرقی پاکستان میں گزرا۔ دیناج پور چٹاگانگ اور کراچی میں تعلیم حاصل کی انہوں نے پہلی ہجرت جہاز کے مسافر کے طور پر کی اور دوسری ہجرت جان جوکھم میں ڈال کر۔

بنگلہ دیش کی تحریک آزادی، فسادات اور مشرقی پاکستان کی سیاست کی اونچ نیچ کو کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ یہ سطور لکھتے ہوئے تاریخ کے ایک طالب علم کی حثیت سے میں علی احمد خان کے احترام میں سرجھکانے کو باعث عزت سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بچپنے سے دوسری ہجرت تک جو دیکھا سنا لگی لپٹی کے بغیر لکھ دیا

جس سے ہمیں غیرمقامی آبادی کے اکثر خاندانوں کے مقامی آبادی، زبان، تہذیب و ثقافت، سماجیات اور تاریخ کے ساتھ ان کے مساویانہ حقوق بارے کھلے تعصب بارے جاننے کا موقع ملا۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارے مہاجر ایسے نہیں تھے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اکثریت اسی سوچ کا حامل تھی جس کی نشاندہی علی احمد خان نے اپنی یادداشتوں کو ’’جیون ایک کہانی‘‘ کے نام سے لکھتے ہوئے کی۔

ان کی مشاہداتی انصاف پسندی یہ ہے کہ انہوں نے وہ بدترین گالی بھی کتاب میں لکھ دی جو ان کے سامنے ان کے چچا کے بلائے گئے ایک معمولی سے افسر نے جوکہ مہاجر تھا بنگالی ٹیکسی ڈرائیور کو دی۔ علی احمد خان نے ان کبوتروں کا ذکر بھی کیا جو ان کی چچی کے بھجائی وقت ہجرت ہندوستان سے پاکستان لے آئے اور ماڑی پور میں اڑاتے تھے۔

اردو میڈیم سکولوں کے طلبا بارے نئی مملکت کی چھائونیوں کے بچوں کو کیا بتایا سمجھایا جاتا تھا اسے بھی انہوں نے چند لفظوں میں بیان کردیا۔ کہتے ہیں

’’کبھی تانگہ نہ آتا تو ہم لوگ اسکول سے واپسی پر پیدل گھروں کو روانہ ہوتے ایسے مواقع پر اردو اسکولوں کے بچے ہمیں تنگ کرتے تے ان سے ہم لوگ خوفزدہ رہتے۔ ہم انہیں گھٹیا، گنوار اور جاہل سمجھتے اور ہمارے گھر والے بھی یہی ہدایت دیتے تھے کہ ہم ان سے نہ ملیں اور نہ ان کے ساتھ کھیلیں

ہمیں ان کا لباس بہت گندا اور گھٹیا لگتا تھا جوکہ شلوار قمیص ہوتا ہم لوگ گھروں میں عام طور پر کرتا اور چوڑی مہر کا پاجامہ پہنتے تھے‘‘۔

مغربی پاکستان میں چند برس چچا کے خاندان کے ساتھ قیام کے بعد علی احمد خان چھوٹے بھائی کے ہمراہ مشرقی پاکستان کے لئے روانہ کردیئے گئے جہاں دیناج پور میں ان کے والد اپنا کاروبار تقریباً سیٹ کرچکے تھے۔ مشرقی پاکستان کا پہلا تجربہ وہ یوں بیان کرتے ہیں

بندرگاہ پر چچا نے ایک ٹیکسی لی خستہ حال ٹیکسی تھی ڈرائیور نے 10روپیہ کرایہ طلب کیا چچا بولے، ” ابے لوٹ مچی ہے کہ کیا تیرے باپ نے بھی کبھی 10روپے دیکھے تھے؟ پاکستان کیا بنا اندھیر ہوگیا‘‘

پھر چچا بندرگاہ کے نگران محکمے کے ایک انسپکٹر کو لے آئے جو اتفاق سے ہماری بستی (زمانیہ غازی پور) کا تھا اس نے آتے ہی آئو دیکھا نہ تائو اور ٹیکسی والے کے منہ پر زور دار طمانچہ لگاتے ہوئے کہا

” ان لوگوں سے شرافت برتنا ہی بیوقوفی ہے۔ یہ (ایک غلیظ گالی) جوتے کے آدمی ہیں سالے میر جعفر کی اولاد ساری زندگی ہندوئوں کی غلامی کرتے رہے رات کو سوئے اور صبح آزادی مل گئی۔

یہ کیا جانیں آزادی کیا ہوتی ہے ‘‘۔

آگے چل کر لکھتے ہیں

’’ہمارے چچا حکمران طبقے سے اپنی وابستگی ثابت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے انہیں یہ خیال تھا کہ انہوں نے قربانی دے کر بنگالیوں کو ہندوئوں اور انگریزوں سے آزادی دلائی ہے‘‘۔ دیناجپور (دیناج پور) میں اپنے قیام اور زمانہ طالب علمی کے دوران علی احمد خان نے شعور کی آنکھ سے جو دیکھا وہ سب لکھ دیا۔ ہمیں ان کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے آنکھ دیکھے اور کان سنے معاملات میں رنگ بازی کرنے یا منفی رویوں کی پردہ پوشی کرنے کی بجائے صاف تیکھے انداز میں غیرمقامیوں کی مقامیت سے نفرت و حقارت کا کھل کر ذکر کیا۔

مہاجرین کے بنگالیوں سے رویوں اور ان کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں

’’ابتداً بنگالیوں نے مہاجرین کے لئے جس محبت خلوص اور اخلاص کا مظاہرہ کیا وہ کچھ عرصہ بعد ختم ہونے لگا جب بنگالیوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ یہ پناہ لینے یا ساتھ رہنے کے لئے نہیں بلکہ حکومت کرنے آئے ہیں‘‘۔

انہوں نے مشرقی پاکستان کے ضلعی و تحصیل صدر مقام پر اردو سکولوں کے قیام کو دوریوں کی ابتداء کے طور پر دیکھا سمجھا ان کے خیال میں اصولی طور پر پہلے سے موجود سکولوں میں اردو کے مضمون کو پڑھانے کا انتظام اس سے بہتر رہتا کہ الگ سے اردو سکول بنائے جاتے۔

علی احمد خان مہاجرین کے مقامیت سے فاصلہ رکھنے مقامی زبان سے ان کے بُعد اور اپنی زبان کی ’’عظمت‘‘ کے اظہار پر نالاں ہی رہے ۔

انہوں نے مشرقی پاکستان کے شہری بالخصوص کاروباری شہروں میں مہاجرین کے غلبے اور مقامی آبادی سے ان کے ناروا رویوں کا درست انداز میں تجزیہ بھی کیا اور آنکھوں دیکھے سینکڑوں ایسے واقعات بیان کئے جو بنگالی مہاجر تنازع کو نفرت میں تبدیل کرنے کا ذریعہ بنے۔

مشرقی پاکستان میں 1947ء کے مہاجرین کے حاکمانہ رویوں اور خبط عظمت کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے انہوں نے اپنے عصری شعور کا جس استقامت سے دامن تھامے رکھا اس کی وجہ سے پڑھنے والوں کو ایک ایسی کتاب مل گئی جس میں لفاظی اور کہانی بازی کے رنگوں کی بجائے برجستگی، صاف گوئی، مشاہدات کے ساتھ وہ زخم دیکھانے کی کوشش کی گئی جو ایک طبقےنے دوسرے کو لگائے۔

علی احمد خان غیرمقامی ہونے کے باوجود مقامیت اور بنگالی زبان کی ترویج کے حق میں رہے ان کا موقف ہے کہ مختلف جگہوں سے اٹھ آنے والوں کو قدیم مقامی زبان، روایات و تمدن کے لئے اسی کشادگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جو ابتداً بنگالیوں نے مہاجرین کے لئے کیا۔

انہیں احساس رہا کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی ریشہ دوانیوں، حکومتی سازشوں، جوڑتوڑ، مفاد پرستی اور دوسرے تماشوں پر لکھتے ہوئے علی احمد خان نے طالب علم اور صحافی کے فرائض سے آنکھیں نہیں چرائیں ان کی کتاب کا ایک ایک صفحہ اس نادرست تاریخ کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے جوکم از کم پچاس برسوں سے ہمارے یہاں جماعت اسلامی و ہمنوا اور آستانہ عالیہ آبپارہ شریف کے بھونپو کاشت کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: