نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فادرز ڈے اور ہماری صاحبزادی ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اٹھارہ جون ہے ( یہ تحریر کل لکھی گئی ) مجھے نہیں معلوم کہ ہر سال یہ عالمی فادرز ڈے کیوں منایا جاتا ہے۔ کچھ سڑے بُھلے دوست اسے مغرب کے چونچلے بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اقوام متحدہ نے بہت سارے عالمی دن مقرر کررکھے ہیں

جیسا کہ یوم معلم، یوم مادر، دوستوں کا دن، خواتن کا دن (خواتن کا دن پاکستان میں تماشوں سے بھرپور ہوتا ہے ہمارے اسلام پسند دوست اس دن یوم حیا مناتے ہیں پتہ نہیں باقی سارے دنوں میں بے حیائی کو افضل سمجھتے ہیں)

میرے خیال میں ایک دن یوم انسانیت کے طور پر منایا جانا چاہیے۔

مثلاً یکم جنوری یوم انسانیت کے طور پر منایا جائے اور 31دسمبر یوم احتساب کے طور پر۔ تاکہ 31دسمبر کو ہم اس امر کا حساب کرسکیں کہ سال بھر ہم سے انسانیت کو کیا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان۔ ویسے خود احتسابی مشکل ترین چیز ہے آسان ترین کام بلاوجہ دوسرے کے گلے پڑنا اور اس کا محاسبہ نما پوسٹ مارٹم کرنا ہے۔

ہم دوسروں کے عیب دیکھتے اچھالتے ہیں یہی مرغوب ہے سبھی کو اعتراف کا حوصلہ نہیں بس۔ کاریگر لوگ دوسروں کی آنکھ میں تنکا تلاش کرلیتے ہیں اپنی آنکھ میں پیوست شہتیر محسوس نہیں ہوتا۔ معاف کیجئے گا بات کہاں سے شروع ہوئی اور کدھر نکل گئی۔

آج کی صبح بڑی خوشگوار اور نعمت بھری صبح تھی ہوسٹن امریکہ میں مقیم میری صاحبزادی نے آن لائن آرڈر کرکے مجھے پھولوں کا گلدستہ بھجوایا وہ یوم مادر پر اپنی ماں کو کیک بھجواتی ہے۔

اسے چاکلیٹ کیک پسند ہے۔ مجھے پھول اور کتابیں۔ پھول اس نے بھجوادیئے کتابیں اب رکھنے کی جگہ نہیں رہی لائبریری میں (یہ پڑھ کر میرے تین دوست ملک نعیم شہزاد راں، ملک قمر عباس اعوان اور دانشور دوراں بلال حسن بھٹی یہ نہ کہہ دیں ’’شاہ جی فکر نہ کرو کتاباں رکھنے کے لئے جگہ بہت)

ابھی پھولوں کا گلدستہ وصول ہی کیا تھا کہ بیٹی کا فون آگیا باپ بیٹی نے جی بھر کے باتیں کیں۔ صاحبزادی نے پچھلے دو تین دنوں میں احوال زندگی کے دو باب لکھنے پر اپنے تبصرے کے ساتھ یہ بھی کہا بابا جانی اب آپ اپنی ’’آپ بیتی‘‘ مکمل کر ہی چھوڑیں۔

میں اتنا ہی کہہ پایا کہ بس دعا کرو صحت اور زندگی رہے۔ فادرز ڈے پر بیٹی کا بھجوایا پھولوں کا گلدستہ ایسی سرشاری عطا کرگیا جسے میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ یہی عرض کرسکتا ہوں میری بیٹی میری زینت، فخر، تعارف، طاقت اور وارث ہے۔

پورا سچ یہی ہے کہ مجھے ہمیشہ بیٹی کی طلب رہی یہ طلب پوری ہوئی۔ اس نے جو پڑھنا چاہا میں کبھی مانع نہیں ہوا۔ میری مرحومہ والدہ اور ہماری خاتون اول دونوں کی خواہش تھی کہ فاطمہ ڈاکٹر بنے اس نے بہترین نمبروں کے ساتھ ایف ایس سی پری میڈیکل میں کامیابی حاصل کی اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا کہ ’’مجھے میڈیا سٹڈیز میں آنرز کرنا ہے۔

بیگم صاحبہ نے ناراضگی کا اظہار کیا تو میں نے عرض کیا زندگی اس نے بسر کرنی ہے ہم نے نہیں انہوں نے کڑواہٹ سے کہا آپ کی صحافت نے کیا تیر مارلیا جو بیٹی کو بھی اسی راستے پر چلانا چاہتے ہیں؟

سچ پوچھیں تو میرے پاس اسکا جواب نہیں تھا مگر عین ان لمحوں بیٹی باپ کی ڈھال بن کر آگے بڑھی اور بولی ماما میں میڈیا سٹڈیز میں ایم بی اے کرکے الیکٹرانک میڈیا میں پروڈکشن کے شعبہ میں جائوں گی آپ فکر نہ کریں۔ مستقبل محفوظ ہوگا میں نے کون سا بابا کی طرح اداریہ یا کالم لکھنے ہیں۔

بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا یقیناً یہ پٹی باپ نے پڑھائی ہوگی۔ تب اس نے جواب دیا ’’نہیں اللہ کا وعدہ یہ بات میں خود کررہی ہوں‘‘ لاہور کے معروف تعلیمی ادارے کنیرڈ کالج میں داخلہ لینے گئی تو دوران انٹرویو متعلقہ شعبہ میں داخلہ کی وجہ کے طور پر اس نے اپنے باپ کا تعارف کروایا ان دنوں میں ’’دی فرنٹیئر پوسٹ‘‘ لاہور کا ایڈیٹر تھا انٹرویو لینے والی معلمات نے شفقت کا مظاہرہ کیا۔ اعلیٰ گریڈ میں آنرز کرنے کےبعد فاطمہ اب امریکہ میں ہے۔

ورثے میں اس کے پاس باپ کا نام نسب اور قلم مزدوری کے سوا کچھ نہیں۔ وہ خود بھی محنت سے جی نہیں چراتی میں جو احوال زندگی اب حروف جوڑ کر لکھ رہا ہوں اپنی بیٹی کو لفظ لفظ سناچکا وہ جانتی ہے کہ میرا باپ ایک قلم مزدور ہے۔ اس لئے محنت سے نہیں گھبراتی

البتہ مجھے دکھ ہوتاہے کاش اتنے وسائل ہوتے کہ وہ محنت مزدوری کے بغیر تعلیم حاصل کرپاتی۔ مجھے خوشی ہے کہ وہ کتاب دوست ہے۔ یہاں تھی تو اخبارات (اردو اور انگریزی دونوں) کے ادارتی صفحات پڑھتی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے ادارتی صفحات اسے بہت پسند ہیں کتابیں بھی شوق سے پڑھتی آپ بیتیاں پڑھنے کا شوق اسے ورثے میں ملا ہے۔

مجھ قلم مزدور کی زندگی تلخیوں سے عبارت ہے لیکن میں نے ہمیشہ کوشش کی کہ بیٹی پر میری زندگی کی تلخیوں اور محرومیوں کے سائے نہ پڑیں۔ سمجھدار ہے حالات سے سمجھوتہ کرنا اور خواہشوں کو جھٹک دینا اسے آتا ہے اسی لئے میں مطمئن سا رہتا ہوں۔

اہلیہ کہتی ہیں سمجھداری اور صبر اسکے نام کی تاثیر ہے میں نے کبھی ان کی بات سے اختلاف نہیں کیا وجہ یہی ہے کہ میں خود بھی یہی سمجھتا ہوں۔

امریکہ جارہی تھی تو بہت سارے عزیزوں نے سنی سنائی والے مغرب وغیرہ کے قصے سناکر مجھے فیصلہ بدلنے کے لئے مشورے دیئے تب میں نے ان سب سے عرض کیا ’’میں اپنی بیٹی کی کسی خواہش اور بساط بمطابق ضرورت کے راستے میں کبھی حائل نہیں ہوا اب بھی میں نے اسے فقط اتنا ہی کہا ہے کہ بابا کی جان یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ تمہارا نام فاطمہ ہے۔

بیٹی امریکہ کیا گئی گھر کی رونق چلی گئی صرف گھر کی ہی نہیں ہم دونوں میاں بیوی کی زندگی کی رونق وہی تو ہے۔ ہم دونوں سفر حیات کے جس موڑ پر ہیں زندگی کی گاڑی کسی وقت بھی منزل پر پہنچ سکتی ہے وقت گزرتے پتہ کہاں چلتا ہے۔

ہم بھی تو وقت گزار آئے۔ میری بیٹی جانتی ہے کہ اس کا باپ جماعت چہارم کے دنوں سے محنت کرتا آرہا ہے ۔ 56سال ہوگئے محنت مزدوری کرتے۔

میری اہلیہ نے میٹرک اور پی ٹی سی کا امتحان ایک ہی سال میں دیا اور کامیاب ہوئیں۔ معلمہ کے طور پر ملازمت شروع کردی۔ ایف اے سی ٹی پھر بی اے بی ایڈ اور ایم اے انہوں نے دوران ملازمت کیا۔ اپنی لیاقت کی بدولت بلدیہ شیخوپورہ کے جونیئر ماڈل سکول کی پرنسل بنیں۔ ایک ہی تعلیمی ادارہ کی جو پہلے پرائمری تھا پھر مڈل اور بعدازاں ایم سی جونیئر ماڈل ہائی سکول اقبال پارک شیخوپورہ کے نام سے معروف ہوا۔ لگ بھگ 39سال پرنسپل رہیں۔

سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک معروف نجی ہائی سکول کی پرنسپل بن گئیں۔ بہت شوق تھا انہیں اپنا تعلیمی ادارہ بنانے کا لیکن اس شوق کو استخارہ کھاگیا۔

2016ء میں ہم باپ بیٹی نے ان کی ملازمت ختم کروائی اور 2017ء میں شیخوپورہ سے لاہور شفٹ ہوگئے۔ تب میری ملازمت لاہور تھی بیٹی بھی روزانہ کینئرڈ کالج آتی تھی اب بیٹی 2برسوں سے امریکہ ہے خاتون خانہ اکثر تقاضا کرتی ہیں واپس شیخوپورہ چلتے ہیں۔ میں بہانے بنادیتا ہوں کوشش یہی ہے کہ یہیں لاہور میں رہیں ۔

کالم فادرز ڈے کی مناسبت سے شروع ہوا تھا ابتداً خیال یہی تھا چند سطور کے بعد اپنے والد بزرگوار شہید سید محمود انور بخاریؒ کا ذکر کروں گا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے پچھلے چند دنوں کی دو تحریروں کی بنیاد پر دوستوں اور پڑھنے والوں کے بہت سارے سوالات دستک دے رہے ہیں۔ ایک دوست راجہ غلام قنبر نے پوچھا ’’خدا کے باغی نے خدا کو کیسے مانا؟‘‘ دوسرے لائق احترام دوست ڈاکٹر اعجاز صاحب بھی دریافت کررہے ہیں کہ اس بغاوت کے تجربات و مشاہدات پر تفصیل سے کب لکھوں گا ۔

ان دونوں دوستوں اور دیگر احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ ضرور لکھوں گا بشرط زندگی۔ البتہ ایک معاملہ بس یہ ہے کہ اپنے تجربات و مشاہدات اور رائے صاف سیدھے لفظوں میں تفصیل کے ساتھ آپ بیتی میں لکھ دوں گا فی الوقت اتنا ہی فیس بک پر شیئر کروں گا جو پڑھنے والوں کو برداشت ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author