مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ!(4)||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر رضیہ کی ماں مر گئی ہوتی اور رضیہ اور اس کی بہنوں کی جگہ بیٹے ہوتے تب کیا رضیہ کے باپ کو اسی طرح دق کیا جاتا؟ کون نہیں جانتا کہ بیوی مرنے کی صورت میں مرد فوراً ہی بے چارہ بن جاتا ہے اور سب کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوتی ہیں جن میں سر فہرست دوسری شادی کا مشورہ ہوتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ثانیہ کے ساتھ فیملی پلاننگ کے دفتر میں کام کرنے والی عورتیں بھی حالات کے جبر کا شکار ہیں۔ نوکری برقرار رکھنے اور ترقی پانے کے لئے انہیں افسروں تک رسائی رکھنی پڑتی ہے۔ رسائی یا حاضری میں افسروں کو وہ سب کچھ دینا شامل ہے جو وہ مانگیں۔

ثانیہ معاشرے کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہی ہے اور ہر طرف سے مرد کے اندر پائی جانے والی کجی منعکس ہو کر ثانیہ کے سامنے منہ پھاڑے کھڑی ہے۔

ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر رضیہ کی ماں مر گئی ہوتی اور رضیہ اور اس کی بہنوں کی جگہ بیٹے ہوتے تب کیا رضیہ کے باپ کو اسی طرح دق کیا جاتا؟ کون نہیں جانتا کہ بیوی مرنے کی صورت میں مرد فوراً ہی بے چارہ بن جاتا ہے اور سب کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہوتی ہیں جن میں سر فہرست دوسری شادی کا مشورہ ہوتا ہے۔

ثانیہ جہاں رہتی ہے، جہاں سے بھی گزرتی ہے، جہاں کام کرتی ہے اس کے سامنے معاشرے میں پایا جانے والا صنفی تفاوت منہ پھاڑے آ کھڑا ہوتا ہے۔

نبیل کے ساتھ فرئیر پارک جا کر وہ ایسا ہی محسوس کرتی ہے جب نبیل اسے کہتا ہے کہ یہاں بیٹھنا مناسب نہیں کیونکہ یہاں اندھیرا بھی ہے اور پارک میں کوئی اور عورت بھی نظر نہیں آ رہی۔ اگر کسی نے پوچھ لیا کہ ہم کیوں بیٹھے ہیں تو ہم کیا جواب دیں گے؟ اگر کوئی پولیس والا آ گیا تو؟

ثانیہ کا کہنا ہے کہ یہ پبلک پارک ہے، روشنی کا انتظام کیا گیا ہے، بنچ لگائے گئے ہیں اور کہیں نہیں لکھا کہ ان بینچوں پر کس وقت بیٹھا جا سکتا ہے اور کس وقت نہیں؟ یہ بینچ لوگوں کے لئے لگائے گئے ہیں اور وہ لوگ ہم ہیں۔

نبیل کہتا ہے کہ نہیں ان بینچوں پر مرد بیٹھتے ہیں اور وہ بھی اس وقت۔ اور آپ خاتون ہیں۔
ثانیہ پوچھتی ہے :

”کیا کسی عورت کو پارک میں اکیلے بیٹھنے کا حق نہیں؟ کیا اس کے ساتھ مرد کا ہونا لازم ہے؟ اور رات کے وقت تو مرد بھی عورت کے ساتھ آتے ہوئے ڈرنے لگتا ہے۔ حالانکہ دو مرد آ سکتے ہیں، اکیلا مرد بھی آ سکتا ہے“

یہ ہے معاشرے کا وہ تانا بانا جو عورت کے لئے ممکن اور ناممکن کا دائرہ عمل سوچ کر غیر مرئی لکیریں کھینچ دیتا ہے۔ یہ نصاب میں لکھا نہیں گیا، کہیں پڑھایا نہیں جاتا، لیکن سب جانتے ہیں کہ کیسے معمولی باتوں میں بھی عورت کو معاشرے کی ان حدود کا خیال کرنا ہے جو مردوں نے بنائی ہیں اور اپنے آپ کو اس سے باہر رکھا ہے۔

اگر ان ان دیکھی لکیروں سے عورت باہر نکلنے کی کوشش کرے گی تو سبق سکھانے والے بھی مرد ہی ہوں گے۔ پولیس والا فوراً نکاح نامہ مانگنے آ جائے گا، یعنی معاشرے کے مطابق دوست تو چھوڑیے ایک بینچ پر میاں بیوی اور نکاح نامے کے بنا جو بھی بیٹھے گا وہ معاشرے کو قبول نہیں۔ اگر پولیس والے سے جاں بخشی ہو گئی تب مشکوک سمجھ کر لوگ ارد گرد منڈلانا شروع کر دیں گے اور کئی ایک کے ذہن میں یہ خیال فوراً آ جائے گا کہ رات کے وقت پارک کی بینچ پر بیٹھنے والی یہ عورت شریف نہیں لگتی۔ بھلا باپ یا بھائی کسی پارک کی بنچ پر اپنی بیٹی یا بہن کے ساتھ رات کے وقت کیوں بیٹھیں گے؟

سوچیے عورت کی عزت اور مقام کس قدر ہلکا ہے کہ پارک میں اکیلے بیٹھنے سے بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور کسی مرد کے ساتھ بیٹھی ہو تب تو جواب دہی کے ساتھ جیل کی ہوا بھی کھلائی جا سکتی ہے۔

پارک کی مثال سے معاشرے میں عورت کو نارمل انسان نہ سمجھا جانا سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو عورت کو کھلی فضا میں بیٹھ کر سانس لینے کی اجازت نہیں دیتا، وہ عورت کو خوشی کے لمحات گزارتا ہوا کیسے دیکھ سکتا ہے؟ دوستوں کی محفل، سیر و تفریح، سنیما جیسی عیاشی مردوں کے لیے عام بات لیکن عورت کرنے کی کوشش کرے تو اسے فوراً روکنا ہر کسی کا فرض ٹھہرے گا۔

نبیل ثانیہ کا تعاقب کرنے میں مصروف ہے اور ہر صورت اس سے شادی کرنے کے لئے بے تاب بھی۔ ثانیہ اسے سمجھانے میں ناکام رہتی ہے اور آخر کار ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ زندگی کا یہ رخ بھی آزما کر دیکھ ہی لیا جائے۔

اچنبھا تب ہوتا ہے جب نبیل کی جیب سے پھوٹی کوڑی بھی نہیں نکلتی۔ نکاح خواں کو بلانے کے لئے پیسے بھی ثانیہ سے لئے جاتے ہیں اور مٹھائی بھی انہی پیسوں سے منگوائی جاتی ہے۔ مرد کے روپ میں نبیل انتہائی بے وقوف اور چغد نظر آتا ہے جو دولہا بننے کے لیے بے تاب ہے لیکن دلہن کو ساتھ لے جانے کے لئے نام کی چھت بھی پاس نہیں اور اخراجات کے لیے جیب خالی ہے۔

ان حالات کے ساتھ جھوٹی انا کے بھونڈے پن کا یہ حال ہے کہ شادی کے بعد ثانیہ کو نوکری چھڑوا دی گئی ہے اور منطق یہ ہے کہ ’ان‘ کے لیے وہاں کا ماحول کام کرنے کے لئے اچھا نہیں۔

سوچیے جس ماحول میں موصوف خود کام کرتے رہے اور جس ماحول سے فائدہ اٹھا کر عورتوں سے تعلقات بنائے وہی ماحول اب اس عورت کے لئے برا ہے جو بیوی بن چکی ہے۔

ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ وہ جھوٹی انا کہاں غائب ہو جاتی ہے جب اسی نوکری سے کمائے ہوئے ثانیہ کے پیسوں پر گزارہ کرنے کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ یاد رکھیے نبیل عام آدمی نہیں بلکہ ادب کی دنیا سے تعلق رکھنے والا دانشور ہے جس کی کھوکھلی مگر بڑی بڑی باتیں قاری کو دانت کچکچانے پہ مجبور کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: