مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم جیو دبئی میں کام کررہے تھے تو ایکسپریس میڈیا گروپ کا نیوز چینل آنے کی خبریں گرم ہوئیں۔ افواہیں یہ تھیں کہ ایکسپریس بھی جیو اور اے آر وائی کی طرح عرب امارات سے نشریات شروع کرے گا۔ لیکن دبئی کے بجائے راس الخیمہ میں دفتر بنائے گا۔ جتنے منہ تھے، اتنی باتیں، بلکہ افواہیں۔
ایک دن طاہر نجمی صاحب نے مجھے فون کیا اور اس بارے میں معلومات چاہی کہ نیوز چینل میں کتنے لوگ درکار ہوتے ہیں، کام کیسے ہوتا ہے، ڈائریکٹر نیوز کی ذمے داریاں کیا ہوتی ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ ایکسپریس کے چینل کی خبر پکی ہے۔
کچھ عرصے بعد سلطان لاکھانی دو افراد کے ساتھ دبئی آئے اور بر دبئی کے ایک ہوٹل میں انٹرویوز کے سیشن کیے۔ مجھے نہیں بلایا تھا لیکن عثمان بھائی اور عاطف اعوان کے ساتھ میں بھی چلا گیا۔ میرا مقصد انٹرویو دینا نہیں تھا۔ میں اور عثمان بھائی روزانہ عاطف کی گاڑی میں شارجہ واپس گھر جاتے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہ لوگ انٹرویو دیں گے تو میں لابی میں بیٹھا رہوں گا۔ لیکن لاکھانی صاحب نے مجھے بھی بلالیا اور ان الفاظ سے خیرمقدم کیا، بھئی مبشر، اب گھر واپس آجائیں۔ یعنی انھیں یاد تھا کہ میں ایکسپریس میں کام کرچکا ہوں۔
سلطان لاکھانی کے ساتھ جو دو افراد انٹرویوز کے لیے دبئی آئے تھے، ان کے نام عابد عبداللہ اور عمران میر تھے۔ عابد عبداللہ ایکسپریس گروپ کے منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ عمران میر کو چینل کا کوئی عہدہ دیا گیا ہوگا۔ وہ جیو میں کام کرچکے تھے اور دبئی بھی کئی بار آچکے تھے۔
لاکھانی صاحب نے بہت سے انٹرویوز کیے اور پتا نہیں کیسی یقین دہانیاں کروائیں کہ دفتر میں لوگوں کے رویے بدل گئے۔ تنخواہوں میں اضافے کے مطالبات بڑھ گئے۔ باسز کو فون کالز میں اضافہ ہوگیا۔
میں اس دوران میں خاموش رہا۔ نہ کسی کو یہ بتایا کہ لاکھانی صاحب سے ملا ہوں، نہ جیو کے بارے میں کوئی غلط بات کی۔ مجھے کچھ شک تھا جو بعد میں درست ثابت ہوا۔ لاکھانی صاحب وعدے کرکے ایسے غائب ہوئے کہ پھر ادھر کا رخ نہیں کیا۔ جیو دبئی سے صرف ایک شخص یعنی ہمارے عثمان بھائی ایکسپریس گئے۔ کسی دوسرے شخص کو ملازمت نہ ملی۔
اب سنیں اصل لطیفہ۔ لاکھانی صاحب تک تو کسی کی رسائی نہیں تھی، لوگوں کو امید تھی کہ عابد عبداللہ اور عمران میر ان سے رابطہ کریں گے اور خوش خبری سنائیں گے۔ چند ہفتے بعد اچانک خبر ملی کہ عابد عبداللہ نے ڈائریکٹر جنگ کا عہدہ سنبھال لیا ہے جبکہ عمران میر جیو دبئی کے اسٹیشن ہیڈ بن کر آرہے ہیں۔
اس پر لوگوں میں جو مایوسی پھیلی، وہ بیان سے باہر ہے۔ اور میرا حال یہ تھا کہ ہنسی کے فوارے چھوٹ رہے تھے۔
یہ سب کہانی آج اس لیے یاد آئی کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بناتا ہے، اس کمیٹی کے ارکان جاتے ہیں اور پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ ایسے ہر اعلان پر مجھے عابد عبداللہ اور عمران میر یاد آتے ہیں اور میری ہنسی نکل جاتی ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور