مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ!(3)||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

یہ ایک بڑا سوال ہے معاشرے سے کہ جب مرد عورت کو طلاق دیتا ہے تو بچوں کے لئے کچھ بھی سوچنا کیوں پسند نہیں کرتا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عورت کی کوکھ سے بچے مرد کے نطفے کے بغیر جنے جاتے ہیں۔ نوشین کا کردار معاشرے کے لئے ایک بد نما داغ ہے لیکن عورت کو داغ بنانے والے اور داغ بنا کر بیچ چوراہے میں کھڑا کرنے والے سے معاشرہ کوئی جواب طلب نہیں کرتا۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی بات اسے اس کا دوست سرور اکرام آئینہ دکھاتے ہوئے کہتا ہے۔

” مسئلہ یہ ہے کہ خواہشات کا یہ طوفان ثانیہ نے نہیں آپ نے خود ثانیہ کے نام پر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے۔ آپ ثانیہ اور رضیہ دونوں کو الجھا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اگر ثانیہ نہ ہو تو رضیہ ہو“

سرور اکرام کی طرح ثانیہ بھی نبیل کی نام نہاد محبت کا تجزیہ کرتی ہے۔

”کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔

اور اگر محبت ایسے ہی ہوتی ہے تو کل جو بھی آپ سے ہمدردی کا رویہ رکھے گا، آپ کو اس سے محبت ہو جائے گی اور جب آپ کو اس سے محبت ہو جائے گی تو آپ اس سے بھی کہیں گے کہ وہ آپ سے شادی کر لے۔

اور فرض کریں کہ مجھے آپ سے محبت نہیں ہے لیکن میں آپ کو اچھا آدمی سمجھتی ہوں تو میرے لئے کیا ضروری ہو گا کہ میں آپ سے محبت کروں؟

کیا کسی سے اچھی طرح پیش آنا اس کے ساتھ ہوٹل اور پارک میں جا کر بیٹھنا منع ہے؟

کیا آپ سرور اکرام کے ساتھ اس طرح کے دوستانہ تعلقات نہیں رکھتے؟ اگر میں نے رکھ لئے تو اس کا یہ مطلب کہاں سے ہو گیا کہ میں نے آپ کے ساتھ جو بھی کیا ہو گا محبت کی وجہ سے ہی یہ سب کیا ہو گا؟ ایک ایسی محبت جس کا انجام صرف شادی ہو سکتا ہے؟ اور اس کا یہ مطلب بھی کیسے ہوا کہ میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں یا کرنا چاہتی تھی؟

کیا آپ عورت کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ مردوں سے یا مرد اس سے دوستانہ تعلق رکھ سکیں؟

اگر آپ کو اپنے جذبات کا احساس ہے تو عورت کے جذبات کا بھی احساس کریں۔ میں اگر آپ سے محبت نہیں کرتی یا مجھے محبت محسوس نہیں ہوتی تو مجھے بھی اس کی آزادی ہے کہ میں ایسے ہی محسوس کروں۔ میں کسی کو یہ حق نہیں دے سکتی کہ وہ میری آزادی سلب کرے۔

مردوں کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ اگر وہ محبت کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی فوراً مطالبات کیوں کرنے لگتے ہیں؟ ”

ثانیہ کے یہ سلگتے ہوئے سوال پدرسری معاشرے کی اصل ہیئت اور بد صورتی کو مدلل انداز سے عیاں کرتے ہیں۔ ایک ایسا نظام جو مرد کو حاکم کے روپ میں پیش کرتے ہوئے عورت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر وقت اس کے سامنے سر بسجود ہو۔ عورت کے ہر عمل کو اپنی عینک سے دیکھ کر اپنی مرضی کے معنی پہنا دینا اس معاشرے کے مرد کی گھٹی میں پڑا ہے۔ مرد یہ تصور نہیں کرنا چاہتا کہ کوئی عورت محض انسانی بنیاد پہ بھی کسی مرد سے تعلق رکھ سکتی ہے۔ اس کے خیال میں مرد اور عورت کے بیچ محض جنس کا رشتہ ہے۔

ناول کے آغاز میں ثانیہ ایک ایسی عورت کے روپ میں ہمارے سامنے آئی ہے جس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے سوائے اس کہ وہ طلاق یافتہ اور دو بچوں کی ماں ہے۔ اس کی اپنی زندگی تو گرداب کا شکار ہے ہی، اس کے اردگرد موجود عورتیں بھی کسی نہ کسی طور کسی ایسے جرم کی سزا بھگت رہی ہیں جو انہوں نے کیا ہی نہیں۔

نوشین ثانیہ کی سہیلی ہے جو دو بچوں کے ساتھ ایک فرم میں کام کرتی ہے۔ شوہر بچوں کی پروا کیے بغیر اسے چھوڑ کر امریکہ جا بسا ہے۔ امریکہ جانے کے لئے اسے نوشین کا سہارا درکار تھا اور جب اس کی ضرورت پوری ہو گئی تو اس نے طلاق بھجوا دی۔ طلاق کے بعد اس کے گھر والے بچوں تک سے لاتعلق ہو گئے سوائے شوہر کے بھائی کے اور وہ بھی اس لئے کہ وہ بھی نوشین کو استعمال کر کے امریکہ کا ویزا حاصل کر سکے۔

ثانیہ نوشین کے ان حالات پہ سوال اٹھاتی ہے :

”نوشین کے شوہر اور اس کے بھائی کو کسی نے بدکردار یا عصمت فروش کیوں نہیں کہا؟ آخر یہ عصمت عورت اور اس کی شرم گاہ سے ہی کیوں جڑی ہوئی ہے؟ مرد اور خاندان کی کوئی عصمت نہیں ہوتی؟“

ناول ہمارے معاشرے کے سب سے بڑے اخلاقی سوال کی نشان دہی کر رہا ہے : آخر اخلاق کی پیمائش کے پیمانے الگ الگ کیوں ہیں؟ نوشین کا شوہر اپنی بیوی کو استعمال کر کے فائدہ اٹھائے تو کوئی جرم نہیں، پھر اس کا بھائی اپنی بھابی کو استعمال کرنا چاہے تو کوئی بات نہیں اور جب وہ تیار نہ ہو تو بہن کو استعمال کرے۔ جس خاندان کے وہ دونوں بیٹے ہیں، انہیں یہ سب کیوں قبول ہو جاتا ہے؟ ناول معاصر معاشرے میں اخلاقیات کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پیش کرتا ہے۔

نوشین شوہر کے چھوڑ جانے کے بعد زمانے کی چیرہ دستیوں کا شکار بنی ہوئی ہے۔ اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے جس فرم میں کام کر رہی ہے، اس فرم کا مالک اور مالک کا بیٹا نوشین کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دونوں نوشین سے ہم بستر ہو رہے ہیں۔

سوچا جا سکتا ہے کہ نوشین انکار کیوں نہیں کر دیتی، دونوں کو ٹھکرا کیوں نہیں دیتی؟ مسئلہ یہ ہے کہ جس دن بھی دونوں میں سے ایک بھی ناراض ہو گیا تو اس کی نوکری چلی جائے گی۔ وہ بے سہارا عورت، جس کی ماں ہے نہ باپ، شوہر دھوکا دے گیا، جو دو بچوں کی ماں ہے اور جو یہ سوچتی ہے کہ اسے جو زندگی ملی ہے اس میں ان بچوں کا کوئی قصور نہیں۔ وہ ان بچوں کو پالنا اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے اور انہیں لوگوں کے عذاب سے بچانا چاہتی ہے اور اس سے پہلے کہ بچے سمجھ دار ہوں ان کے مستقبل کا سامان کرنا چاہتی ہے۔

یہ ایک بڑا سوال ہے معاشرے سے کہ جب مرد عورت کو طلاق دیتا ہے تو بچوں کے لئے کچھ بھی سوچنا کیوں پسند نہیں کرتا؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عورت کی کوکھ سے بچے مرد کے نطفے کے بغیر جنے جاتے ہیں۔ نوشین کا کردار معاشرے کے لئے ایک بد نما داغ ہے لیکن عورت کو داغ بنانے والے اور داغ بنا کر بیچ چوراہے میں کھڑا کرنے والے سے معاشرہ کوئی جواب طلب نہیں کرتا۔

معاشرہ اس فرم کے مالکان کی طرف بھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا جو ایک عورت کی مجبوری کو دولت سے خرید کر عیش کرنے میں مصروف ہیں۔ ان باپ بیٹے کے نزدیک گھر سے نکل کر دفتر آنے والی عورت بکاؤ ہے۔ نوشین کے گھر آزادی سے آنے جانے اور اس کے دو بچوں کو دیکھ کر بھی ان کی بے حسی اور بے نیازی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کے خیال میں عورت کو اگر عزت چاہیے تو اسے چاہیے کہ گھر کی دیواروں میں مقید رہے اور اگر گھر سے نکلنے سے باز نہیں رہ سکتی تو گدھ بن کر نوچنے والے مردوں کے استقبال کے لئے تیار رہے۔ یہ ہے پدرسری نظام کا فلسفہ۔

جاری ہے

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: