مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرے والد اور میں۔۔۔ ||شرافت رانا

1999 میں خدا کے پاس چلے گئے۔ 2001 میں مارشل لاء تھا سیاست میں جبر تھا سوچا باپ کی آخری خواہش پوری کر دوں۔ امتحان دیا اور جج بھرتی ہو گیا۔ سوچتا ہوں اگر ان کی زندگی میں ہو جاتا تو وہ اس قدر جذباتی تھے کہ خوشی سے بے حال ہو جاتے۔
شرافت رانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابا کی تعریف لکھنا روبوٹک اور روایتی کام ہے۔ ہر شخص اپنے ابا کو قائد اعظم یا آئیڈیل، نبی، پیغمبر کے روپ میں دیکھتا ہے۔ وہ لوگ بدقسمت ہوتے ہیں جو ابا کو ایک انسان کی طرح دیکھنے کی اہلیت حاصل کر جاتے ہیں۔

میرے والد دنیا کے شریف ترین۔ سادہ مزاج۔ آسانی سے دھوکہ کھانے والے۔ لوگوں کی بلاوجہ عزت کرنے والے اور طارق جمیل جیسی شخصیات کو اسلام اور انسانیت کی معراج جانتے تھے۔

بدقسمت رہے کہ تعلیم پر بہت زیادہ زور دیتے تھے۔ اپنی ذات پر اس قدر کبھی خرچ نہیں کیا جس قدر اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر ڈالا۔

میں بچپن سے ہی تعلیم کے معاملہ میں کریزی نکلا اور میں نے ان کی تعلیم پر خرچ کرنے کی طبیعت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ والد صاحب کا تعلق تبلیغی جماعت کے ساتھ تھا اور وہ تبلیغی جماعت کو ہی رول ماڈل سمجھتے تھے۔

مدرسہ میں پڑھا۔ حفظ کیا۔ درس نظامی کیا۔ انگریزی تعلیم میں پڑھا۔ گھر میں بہت بڑا کتب خانہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ جماعت کے اکابرین سے اور علمائے کرام سے بے پناہ گفتگو۔ ڈیبیٹ کرنے کا موقع بہت بچپن میں ملا۔ ساتویں آٹھویں سے غیر ممالک خصوصاً چین۔ روس۔ جرمنی کے سفارت خانوں سے لٹریچر اور کتب ملنا شروع ہو گئیں۔ میٹرک تک انگریزی اور ایف ایس سی تک فرانسیسی لٹریچر کا چسکہ لگ چکا تھا۔

اسی عمر میں مذہبی سکالرز سے سوال کرنا شروع کیے تو بگاڑ پیدا ہو گیا۔ پہلے والد صاحب نے فتویٰ دیا کہ میں شیعہ ہو گیا ہوں۔ پھر کاپر اور بالآخر گستاخ مان لیا گیا۔ جب بھی کلاس میں فرسٹ آتا تو ان کے چہرہ پر جو خوشی دیکھی وہ دنیا میں کبھی نہیں۔ کہیں نہیں دیکھی۔ ان کی زندگی میں جج بننے سے انکار کیا۔ ضلع کونسل کا الیکشن لڑا۔ انہوں دعا دینے سے انکار کر دیا۔

لیکن کامیابی کی خبر سن کر پھر باپ سامنے آ کھڑا ہوا۔ روشن سرخ چہرہ۔

مجھے ایک کامیاب مقرر بنانے پر انہوں نے بہت جدوجہد کی۔ میری تقاریر کو سن کر اصلاح کیا کرتے تھے جب میں ہزاروں سے لاکھوں کا مقرر بن گیا تو فراخدلی سے فخر کرتے۔

جب بھی کہیں پر وہ میرے باپ کی حیثیت میں پہچانے جاتے اس پر سب سے زیادہ خوش ہوتے۔ مرتے وقت مجھے کہا۔ مجھے معاف کرنا۔ میں تمہیں اور تم مجھے کبھی نہ سمجھ پائے۔ میں سخت باپ تھا۔

میرے ہاتھوں میں ہاتھ تھا۔ خدا حافظ بولا اور مجھے ہمیشہ کے لئے پریشان اور شرمندہ چھوڑ کر چلے گئے۔ والد صاحب زندگی کو بہت سادہ اور مذہبی لوگوں کو ہمیشہ بہت دیانتدار ماننے کے مغالطہ میں پوری عمر جی گئے۔ ان کی بنائی مساجد کو ملاؤں کے بچوں نے دھندا بنا رکھا ہے۔

سب نے کیا تو ہم نے اپنے باپ کو یاد کرنے کی کوشش کی

1999 میں خدا کے پاس چلے گئے۔ 2001 میں مارشل لاء تھا سیاست میں جبر تھا سوچا باپ کی آخری خواہش پوری کر دوں۔ امتحان دیا اور جج بھرتی ہو گیا۔ سوچتا ہوں اگر ان کی زندگی میں ہو جاتا تو وہ اس قدر جذباتی تھے کہ خوشی سے بے حال ہو جاتے۔

%d bloggers like this: