رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل ہمارا قیام اپنے وطن کے آبائی علاقے میں ہے۔ گرم ترین موسم کے گرم ترین دنوں میں یہاں رہنے کی کوئی خاص وجہ نہیں نہ ہی کوئی مجبوری ہے۔ اس موسم میں جب ہمارے درجے کے لوگ شمالی علاقوں‘ مری اور گلیات کا رُخ کرتے ہیں ہم کچھ دنوں کیلئے مخالف سمت روانہ ہوتے ہیں اور ایک آدھ دن گاؤں میں آ دھمکتے ہیں۔ وہاں رخصت کرنے والے اور یہاں ہماری مہمان نوازی کرنے والے حیرانی کے عالم میں یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ آپ اس گرمی میں نکل پڑے‘ خیریت تو ہے؟ بالکل خیریت ہے بس دل کا کیا علاج کریں کہ یہاں گھسیٹ لاتا ہے۔
ایک عرصہ گزر چکا ہے ہم نے دماغ سے سوچنے کی رخصت لے رکھی ہے۔ جو دل چاہتا ہے وہی کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے تو ہم ملک کے سیاسی دھارے میں بالکل بلا اجازت بہہ رہے ہیں۔ ہماری سیاسی دنیا میں دماغ سے کوئی بھی کام لینا برا خیال کیا جاتا ہے تو ہم نے کم از کم اپنے دل کو مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ اب تو ملک کے اندر آزادیوں کی بھی فکر ہے نہ پروا‘ اگر کسی چیز کی ہے تو وہ اپنے دل کی آزادی ہے۔ جب دل کرتا ہے راہ پکڑ کر ادھر گرم علاقے میں آ جاتے ہیں۔ اگر وہ کہیں اور جانے کایا گھر کے ایک کونے میں دبک کر بیٹھنے کا کہے تو ہم وہ بھی کر لیں۔ ہمیں اب کچھ نہیں چاہیے‘ دل کے اطمینان کے سوا۔
اس سال جون کے پہلے ہفتے میں اصرار اس کا یہ تھا کہ چلتے ہو تو جنوب کو چلئے۔ تو ہم سکون کے لیے ادھر آگئے۔ اس مرتبہ عجیب بات ہوئی کہ گزشتہ چالیس سالوں میں‘ گرمی ہو یا سردی‘ یہاں ایک ہفتے سے زیادہ شب و روز بسر کرنے کی فرصت نہیں ملتی۔ اب تو دو ہفتے ہونے کو ہیں‘ کہیں اور جانے کو جی نہیں چاہتا۔ دل اپنی دھڑکن تیز کر کے احتجاج شروع کردیتا ہے۔ جب میں لاہور یا اسلام آبا دکا سفر کرنے کا ارادہ کرتاہوں۔ ایک برقی رو کی طرح اس کے اندر سے گزرنے کی کوشش کرتاہوں۔دل سرگوشی کرتا ہے کہ کیا جلدی ہے شہروں کی طرف جانے کی۔ کیا آپ کو پریس کانفرنس کے لیے بلایا ہے ؟ وہاں تو دو طرح کے تماشے ہورہے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ہمارے موسمی سیاسیوں کی کیمروں کے سامنے ماضی کی غلطیوں پر شرمندہ ہیں اور آئندہ کے لیے ایسی کسی غلطی کا ارتکاب نہ کرنے کی قسمیں کھا کر جہاں کہیں ضروری ہواپنی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہیں۔ دوسرے وہ شرپسند ہیں جو تائب نہیں ہوئے اوران کی پکڑ دھکڑ جاری ہے تاکہ ان کی گرفتاری سے ملک میں امن واستحکام کو یقینی بنایا جاسکے۔ ہم نے اپنے دل کی بات مان رکھی ہے کہ ان تماشوں کو دیکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ موسم گرم تو ہے مگر یہاں بھی لاکھوں لوگ بجلی کے پنکھوں کے بغیر رہتے ہیں۔ چلتی لُو اور سخت دھوپ میں فصلوں کو پانی لگاتے ہیں‘ چارہ کاٹتے ہیں‘ مال مویشی کا خیال رکھتے ہیں اور زراعت سے وابستہ دیگر کام کرتے رہتے ہیں۔ کچھ دن بندہ مزدور کی بھی چشم دید گواہی دے دی جائے۔ وہی لوگ جن کی قسمت بدلنے کی تقریریں ہم ساری عمر سنتے آئے ہیں۔ مگر حکمران طبقات نے کبھی ان کے جلتے بدنوں کو کام کرتے دیکھا نہیں۔ انہیں تو لُوٹ کی کمائی‘ اقتدار کی سازشوں اور زرو دولت کو بیرون ملک ٹھکانے لگانے سے کام ہے‘جو ہر سیاسی موسم میں جاری رہتا ہے۔ دل نے کہا کہ اس دفعہ کچھ دن کے لیے رک جائو‘ زندگی کا ایک حصہ یہاں ہی توگزارا تھا جب کوئی سہولت نہیں ہوا کر تی تھی۔ گھر کی چھت اور چند درختوں کا سایہ ہی بہت کچھ تھا۔ اب تو کسی چیز کی کمی نہیں۔ چھت کا طول عرض بھی زیادہ ہے اور درخت تو اب ہزاروں میں ہیں۔ صبح سویرے کھیتوں کی طرف سیر کو نکل جاتے ہیں۔ سورج کا طلوع ہونا پہلے سنہری اور پھر سرخ تھال کی صورت دیکھنے میں جو مزہ ہے‘اس کی کیفیت ہمارے اس قصبے کے لوگ ہی محسوس کرسکتے ہیں۔ اپنے ہی کسی زمانے کے لگائے ہوئے درخت‘ ان کی طرف جب نظر اٹھاتے ہیں تو ایک طرح سے دل کے اندر ان سے مکالمہ شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارا ان سے بھی مذاق رہتا ہے۔ کہتے ہیں: دیکھو‘ تم بوڑھے ہو رہے اور ہم جوان اور توانا ہورہے ہیں۔ ہم خوشی محسوس کرتے ہیں کہ ان کا سایہ اور پھل ہمارے نصیب میں ہے۔ اگر آپ ہمارے جیسے ٹاٹ سکولوں میں پڑھے ہیں تو آپ کو یادہو گا کہ آٹھویں اور دسویں کے امتحانوں کے لیے استاد اردو میں مضامین لکھوانے کی مشق کرایا کرتے تھے۔ ہم سب کا ایک ہی مشغلہ تھا اور ایک مضمون لکھا کرتے تھے‘ زراعت اور باغبانی۔ ہمارا پیشہ تو کچھ اور ہے مگر زراعت اورباغبانی ہمارے دل کی رگوں میں خون کی طرح رواں رہتی ہے۔ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے‘ زراعت اور باغبانی ہمارے ساتھ رہی ہے۔ یہ میرا آبائی پیشہ ہے اور اس سے تعلق میں وقت کے ساتھ کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے۔ سوچتا ہوں کہ ہمارا دل ایسے ہی تواس گرم موسم میں ادھر کی طرف آنے پر مجبور نہیں کرتا۔ درخت لگانا بھی اس کی خواہش تھی جو ہم نے ہمیشہ کی طرح اور اس کی بھولی بھالی خواہشوں کی طرح مان لی تھی۔ اپنی دھڑکنوں کو مزید تیزکر کے کہتا ہے‘ دیکھو بات مان لی تھی تو اب رنگ بھی دیکھو۔ یہ کہنے کی اب ضرورت نہیں کہ ہم دل کی سنتے ہیں اور وہ ہماری سنتا ہے۔ جب عقل اور دماغ اس ملک سے رخصت ہوچکے ہیں تو ہمیں سر کھپانے کی کیا ضرورت ہے۔ اب جو بھی من میں آتا ہے‘ وہ کرتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہ رہے۔ ہم عقل اور عشق کی دیریہ لڑائی میں ہمیشہ عشق کے فریق رہے ہیں۔ اس بارے میں ہم نہ کبھی غیر جانبدار تھے‘ نہ اب ہیں۔ بالکل یوں سمجھیے کہ ہماری عشق کے ساتھ ایک سیاسی وابستگی ہے۔ وہ ہم ابھی تک نباہ رہے ہیں۔ شہر اور اس کی تہذیب و ثقافت‘ علم و ادب‘ رونقوں اور رنگا رنگی کا کون قائل نہیں۔ دنیا کے اکثر بڑے شہر دیکھے ہوئے ہیں۔ بہت وقت‘ بلکہ زندگی کا ایک حصہ سر د موسموں کی سرزمینوں میں گزرا ہوا ہے۔ اب بھی کبھی دل نے اس طرف اشارہ کیا تو ہم چل پڑیں گے‘ مگر ایک عرصہ سے ہمارا دل اپنے دیہات میں اٹکا ہوا ہے۔ ہماری اشرافیہ اور حکمران طبقات نے دیہات کا برا حال کررکھا ہے۔ اکثر اپنا ٹھیکہ وصول کرنے کے لیے آتے ہیں یااس وقت جب سیاسی میدان سجتا ہے۔ نوکر شاہی کا مزاج اور رہن سہن گوروں کی طرح ہے۔ فرق یہ ہے کہ گورے جو کچھ بنا گئے وہ نشانیاں نہروں‘بنگلوں‘ سکولوں اور ریلوے لائنوں کی صورت میں آج بھی قائم ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت اور نوکر شاہی صر ف کھانے اور کمانے کے دھندوں میں مصروف ہے۔ دیہات میں کوئی سڑک‘ گلی‘ نالی بارشوں کا ایک سیزن گزارلے تو بڑی بات ہے۔ ہم شہروں کی بری حکمرانی سے بھاگ کر یہاں آتے ہیں تو ماحول کہیں بدتر پاتے ہیں۔ عام لوگ محنت مزدوری کرنے والے‘ کاشت کار‘ کسان اور چھوٹا زمین داراستحصال کی چکی میں پس رہا ہے۔
اس وقت چالیس ڈگری کی گرمی میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ لوگوں کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ ان کے جسم اور چہرے آگ جیسی تپش سے جھلسے ہوئے ہیں۔ غربت اور تنگی کی حالت ناقابلِ بیان ہے۔ آسودگی اور خوشحالی ملک کے دیگر حصوں کی نسبت کم اور آبادی کا دبائو زیادہ ہے۔ یہ مقدر ملک کے سیاسی اور معاشی نظام کے کاتبوں نے ہمارے لیے لکھ رکھا ہے۔ کچھ وقت اس زمینی مخلوق کے ساتھ گزارنے سے ہم خود بھی آسمانوں کی اڑانین ختم کرکے زمین پر آجا تے ہیں۔ حقیقتوں کا کچھ ذائقہ چکھنے کے لیے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ